السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں مسمی بشیر احمد نے اپنی لڑکی مسماۃ امام حسین عرف فیضان کی شادی نابالغی کی صورت میں کر دی اب مسماۃ فیضاں اس نکاح سے انکاری ہے تو کتاب و سنت کی روشنی میں مسماۃ فیضاں کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے ۔
( سائل بشیر احمد ساکن چک نمبر HB۲۶۷ فورٹ عباس ضلع بہاولنگر بذریعہ مفتی عبدالرحمان صاحب عبدالحکیم والے )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال مسماۃ امام حسین عرف فیضاں کو اپنا یہ نابالغی کا نکاح فسخ کرانے کا شرعاً حق حاصل ہے ۔بشرطیکہ رخصتی نہ ہوئی ہو اگر ایک آدھ بار رخصتی عمل میں آچکی ہے یعنی اپنے شوہر کا فراش بن چکی ہے تو پھر اسے فسخ کا حق حاصل نہ ہے اور اس حق کو خیار بلوغ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے ۔:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: كَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»(۲: صحیح بخاری :باب لا لنکح الاب وغیرہ البکر والثوب الاہر قضاھا۔ ج ۲ ص ۷۷۱ )
” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک بیوہ عورت سے مکمل مشورہ نہ کیا جائے اس وقت تک اس کا نکاح نہ کیا جائے اور اسی طرح کنواری لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کا کہیں نکاح نہ کیا جائے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ لڑکی کی اجازت کی صورت کیا ہوگی ؟ فرمایا اس کا خاموش رہ جانا اس کا اذن ہوگا “
اس صحیح حدیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ نکاح کی صحت کے لئے لڑکی کی اجازت اور رضامندی نہایت ضروری ہے خواہ وہ بیوہ ہو یا کنواری ہو نابالغہ لڑکی چونکہ عدم شعور اور نا پختگی کی وجہ سے قابل اذن نہیں ہوتی ۔اس لئے بالغہ ہونے پر اس کو یہ اختیار شرعاً حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو حق اذن و اختیار استعمال کر سکتی ہے ۔ یعنی نابالغی کی عمر میں کیا گیا نکاح اس کی اپنی مر ضی اور صوابدید پر موقوف ہے کہ فسخ کرانا چاہتی تو ہے تو کراسکتی ہے اوراگر بحال رکھنا چاہے تو اس کی مرضی ۔ اس کو اس شرعی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ «أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (رواہ احمد و ابو داؤد ابن ماجة ۔ سبل السلام :ج۳ ص ۱۲۲ )
”ایک جوان لڑکی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میری رضا کے بغیر میرے والد بزرگوار نے میرا نکاح کر دیا ہے تو آپ ﷺ نے اس لڑکی کو یہ نکاح بحال رکھنے اور بحال نہ رکھنے کا اختیار دے دیا“
حافظ ابن حجر کے مطابق یہ حدیث مرسل ہے مگر امام محمد اسمٰعیل الکحلانی ارقام فرماتے ہیں
وَأُجِيبَ عَنْهُ بِأَنَّهُ رَوَاهُ أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَيُّوبَ مَوْصُولًا، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ عَنْ زَيْدِ بْنِ حِبَّانَ عَنْ أَيُّوبَ مَوْصُولًا، وَإِذَا اخْتَلَفَ فِي وَصْلِ الْحَدِيثِ، وَإِرْسَالِهِ فَالْحُكْمُ لِمَنْ وَصَلَهُ قَالَ الْمُصَنِّفُ: الطَّعْنُ فِي الْحَدِيثِ لَا مَعْنَى لَهُ لِأَنَّ لَهُ طُرُقًا يُقَوِّي بَعْضُهَا بَعْضًا ( سبل السلام : ج ۳ص ۱۲۲ )
” اس جرح کا جواب یہ ہے کہ ایوب بن سوید اور عمر بن عثمان رضی اللہ عنہم نے علی الترتیب ثوری اور زید بن حبان کے واسطہ سے ایوب سے موصول بیان کی ہے ۔ پس اس کو مرسل قرار دینا درست نہیں کہ یہ موصول اور قوی حدیث ہے ۔ مزید ارقام فرماتے ہیں ۔
فَالْعِلَّةُ كَرَاهَتُهَا فَعَلَيْهَا عُلِّقَ التَّخْيِيرُ لِأَنَّهَا الْمَذْكُورَةُ فَكَأَنَّهُ قَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذَا كُنْت كَارِهَةً فَأَنْتِ بِالْخِيَارِ، وَقَوْلُ الْمُصَنِّفِ إنَّهَا وَاقِعَةُ عَيْنٍ كَلَامٌ غَيْرُ صَحِيحٍ بَلْ حُكْمٌ عَامٌّ لِعُمُومِ عِلَّتِهِ فَأَيْنَمَا وُجِدَتْ الْكَرَاهَةُ ثَبَتَ الْحُكْمُ (سبل السلام :ج ۳ص ۱۲۲،۱۲۳)
شیخ الحدیث حضرت مولانا شرف الدین محدث الدھلوی رحمتہ اللہ نے بھی اس حدیث کو مرفوع اور قوی قرار دیا ہے ۔(: فتاویٰ نزیریہ : ج ۳ ص۱۹۷ )
«عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَتَاةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَقَالَتْ: إنَّ أَبِي زَوَّجَنِي مِنْ ابْنِ أَخِيهِ يَرْفَعُ بِي خَسِيسَتَهُ، وَأَنَا كَارِهَةٌ قَالَتْ: اجْلِسِي حَتَّى يَأْتِيَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَأَخْبَرَتْهُ فَأَرْسَلَ إلَى أَبِيهَا فَدَعَاهُ فَجَعَلَ الْأَمْرَ إلَيْهَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ: قَدْ أَجَزْت مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَكِنْ أَرَدْت أَنْ أُعْلِمَ النِّسَاءَ أَنْ لَيْسَ لِلْآبَاءِ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ» ، (رواہ النسائی۔سبل السلام ج3 ص 123)
”حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک جوان لڑکی میرے پاس آئی اور کہا کہ میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے کے ساتھ پڑھ دیا ہے تاکہ معاشرے میں اس کی ساکھ بحال ہو جائے جو مجھے پسند نہیں ۔ میں نے کہا آپ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کریں جب آپ ﷺ تشریف لائے تو اس لڑکی نے اپنا قصہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے والد کو بلا کر اس نکاح کا معاملہ اس لڑکی کے ہاتھ میں دے دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو بحال رکھےاور چاہے تو فسخ کرالے ۔ مزید تفصیل ۔نیل الاوطارج ۶ص ۱۳۹ میں دیکھئے ان احادیث صحیحہ اور حسنہ مرفوعہ متصلہ اور قویہ سے ثابت ہوا کہ نابالغہ لڑکی ہو کر نابالغی کے نکاح کو بحال رکھنے یا فسخ کرانے کا شرعاً حق رکھتی ہے بشرطیکہ بالغہ ہو کر اپنے شوہر کا فراش نہ بن چکی ہو ۔ دوسرے الفاظ میں خلوت صحیحہ عمل میں نہ آئی ہو ۔ لہٰذا مسماۃ امام حسین عرف فیضاں اس نکاح میں مختار ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب