السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بنک کی نوکری کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟
( ع ، م جامعہ عائشہ للبنات غازی آباد لاہور )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بنک کی ملازمت قطعاً جائز نہیں ۔ احادیث کی کتابوں میں صاف طور پر بنک کی ملازمت حرام اور نا جائز قرار دی گئی ہے ۔ جامع ترمذی میں کتاب البیوع باب الربا میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نی فرمایا
«لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ»( ۱ تحفۃ الاحوذی ج ۲ ص ۱۳۶ )
کہ اللہ تعالیٰ نے سود کھانے والے ، کھلانے والے سود کے معاملہ میں گواہ بننے والے اور سود کا معاملہ لکھنے والے ،یعنی کلرک ، مینجر ، خازن وغیرہ سب پر لعنت کی ہے ۔ لہٰذا اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر قسم کے موجودہ بنکوں میں ہر طرح کی نوکری کرنا حرام، سخت گناہ اور لعنتی عمل ہے
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب