سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(241) قربانى کے بارے میں افادیت کا واہم

  • 14345
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1557

سوال

(241) قربانى کے بارے میں افادیت کا واہم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانى کرنا افادیت کا واہم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض لوگ  آپ کو اور ملیں گے جو یورپ کی پھیلائی ہوئی افادیت پرستی جن کے روحانی حاسہ کو کھا گئی ہے ۔  انہیں آپ کہتا ہوا پائیں گے کہ آخر یہ قربانی سے مکیا فائدہ ہے ؟ ثواب ہی مطلوب ہے تو اتنا روپیہ انفرادی طور پر خیرات کر دیجئے یا کسی اجتماعی نظم کے تحت غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیجیے ، اس سے تو سوائے اس کے کہ دو چار وقت آپ خود اور غربا اناپ شناپ گوشت خوری کرلیں اور ایک خواہ مخواہ کی بہیمیت کا مظاہرہ ہو جائے اور کچھ نہیں ! بھلا اللہ کو اس خون ریزی سے کیا لینا ہے کہ یہ اس کی رضا مندی کا ذریعہ بنے ؟ اس کے نام پر کسی کو سلیقہ سے فائدہ پہنچائیے تو ثواب کی بات بھی ہے !

یہ مسلمان کہلانے والے سب وہ لوگ ہوں گے جو گوشت خوری میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں مگر اپنی گوشت خوری اور اس کے لیے جانوروں کے ذبیحہ پر بہیمیت کا خیال کبھی نہیں آتا ۔ ان کی ساری رحم دلی اور لطیف الحسی سال بھی میں صرف اسی ایک دن پھڑکتی ہے ۔ جب جانوں کا ذبیحہ خود ان کے خالق کے نام پر کیا جاتا ہے ۔

بہ بین تفاوت رہ از کجاست تا بہ کجا؟

دوسری بات یہ کہتے ہیں کہ اس خونریزی میں ثواب کا کیا کام ؟ اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا لینا ؟ تو انہیں معلوم نہیں کہ یہ کوئی خاص عقلی انکشاف نہیں فرما رہے ہیں کہ اس سے قرانی کی عادت سمجھنے والے مبہوث تو کر رہ جائیں ۔ یہ بات جو وہ آج بڑے عقلی طنطنے کے ساتھ کہتے ہیں خدا  نے اس دن صاف صاف بتا دی تھی جس دن قربانی کا حکم دیا تھا ۔ سورۃ الحج ہے جس میں قربانی کا بڑے شدومد کے ساتھ مطالبہ ہے اسی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس حقیقت کا اظہار بھی ہے :

﴿لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ... ﴿٣٧﴾...الحج

خدا کو ہر گز ہر گز نہ تمہاری ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون اس کے حضور صرف تمہارے دل کا جذبہ اطاعت و نیاز مندی پہنچتا ہے ۔‘‘

یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس کی ایک ہی آیت کسی زمانہ میں ایک سمت  کی گمراہی کا استیصال کرتی ہے تو دوسرے زمانہ میں اس کی بالکل مقابل سمت کی گمراہی کا توڑ بھی اسی طرح کرتی ہے کہ معلوم ہو صرف اسی گمراہی کے سدباب کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مشرکین عرب قربانیوں کا گوشت اور خون خانہ کعبہ کی دیوار پر لگاتے اور چمٹاتے ۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ کو پہنچاتے تھے ۔ بعض مومنین کو بھی یہی خیال پیدا ہوا  تو آیت نازل ہوئی ۔ آج بات الٹ گئی ہے کہ لوگ  ﴿لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا﴾

 کہہ کر مسلمانوں کو قربانی سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی آیت انہیں جواب دے رہی ہے کہ تم یہ کون سی نئی بات بتا رہے ہو ، یہ تو اللہ نے خود ہی بتادی تھی  اور اس کے باوجود قربانی کا حکم دیا تھا۔

تو یہ کوئی ایسا انکشاف نہیں فرما رہے ہیں کہ قربانی کرنے والے سوچنے لگے کہ ہم کیا بے کار کام کر رہے ہیں ؟ اور ( حاکم بدہن ) خدا کو نظرثانی کرنی پڑے کہ اس نے کیا بے فائدہ کام کا حکم دے دیا ۔ ﴿ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ ... ١٨﴾...يونس

’’ آپ کہئے کہ کیا تم کوئی ایسی خبر اللہ کو دے رہے ہو جس کا اسے پتہ نہیں تھا۔‘‘

اس حقیقت کا  اسے اس وقت علم تھا ، جب ہمارے اور ان اہل خر د کے  (ابو الاباء بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ) تھے ۔ مگر پھر بھی اس نے قربانی کا حکم دیا ، جس کی حکمت کی طرف سورہ حج کی اسی آیت کے آخری الفاظ (وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ) الحج: 37) میں ارشاد بھی کر دیا گیا ہے ۔ جس کو یہ اہل خرداز خود نہیں سمجھ سکتے تھے ، اس حکمت کی تشریح ہم آگے کریں گے ۔

تیسری بات اسی دوسری بات پر بنیاد رکھ کریہ لوگ صدقہ و خیرات کی کہتے ہیں ۔ مگر یہاں بھی سارے ادعا عقل کے باوجود یہ لوگ عقل سے اتنا کام نہیں لیتے کہ قرآں کا خدا کیا صدقہ و خیرات سے ناآشنا تھا کہ اس نے صدقہ و خیرات جیسی معقول نیکی کی بجائے قربانی جیسی معاذ اللہ نامعقول نیکی کا حکم دے مارا۔ کیا ان مسکینوں کو اتنی بھی خبر نہیں کہ قرآن میں صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کی تعلیم کا کیا مقام ہے اور کس قدر کثرت کے ساتھ اس تعلیم کا اعادہ کیا گیا ہے ، پھر جب کہ یہ معلوم ہے کہ جس خدا نے قربانی کا حکم دیا ہے وہ نہ صرف صدقہ و خیرات سے بھی آشنا ہے بلکہ اس کی نظر میں اس کا عظیم مقام ہے اور یہ حقیقت بھی نہ صرف اس پر کھلی ہوئی ہے بلکہ اس نے دوسروں پر بھی کھول دی ہے کہ قربانی کے گوشت پوست سے اللہ کو کچھ نہیں لینا ۔ تو کم از کم کسی صاحب عقل کو یہ مشورہ دینے میں جلدی تو نہیں کرنی چاہیے کہ قربانی کے بجائے صدقہ وخیرات کا حکم ہونا چاہیے تھا ۔ قربانی میں تو بجز اضاعت مال کے اور کچھ نہیں ۔

اور یہ بہیمیت اور اضاعت مال کا الزام

جہاں تک  بہیمیت  یا اس سے ملتے جلتے الفاظ سے قربانی کی رسم  کو تعبیر کر کے اعتراض پیدا کرنے کا تعلق ہے ، ہم نے اوپر اس کے جواب میں جو چند جملے کہے ہیں ۔ ان کی نوعیت اگرچہ الزامی ہے ، مگر انہی میں اصل جواب بھی پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حالل چوپایوں کا جب انسان اپنے ذائقہ اور اپنی ضرورت کے لیے خون بہاتا ہے اور اللہ نے ان چوپایوں میں دوسرے منافع کے ساتھ ساتھ ایک منفعت یہ بھی رکھی ہے  تو پھر یہ بڑی ناانصافی اور احسان فراموشی کی بات ہے کہ جس نے ان چوپایوں کو وجود بخشا اس کے نام پر ان کو ذبح کرتے ہوئے آپ کو بہیمیت اور وحشت و بربریت کا تصور آنے لگے حالانکہ اس صورت میں بھی وہ ےپ کے اور آپ کے دوسرے بھائیوں کے کھانے ہی کے کام آتے ہیں ۔ کوئی بے کار نہیں جاتے ۔ ان کی کھالیں اور ان کا اون الگ کتنے ہی دوسرے منافع کا باعث بنتا ہے اور یہ سب خدا ہی کے اذان و حکم سے ہوتا ہے ۔ اسے خود یہ پسند نہیں ہے کہ اس کے نام پر ذبح کی ہوئی چیز بے کار جائے ۔ چنانچہ یہ آیت  (لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا)  ( الحج :37)

مشرکین جاہلیت  کے اسی غلط اعتقاد اور غلط طرز عمل کی تردید میں نازل ہوئی تھی کہ وہ اللہ کے نام پر ذبح کی ہوئی چیز کا گوشت پوست بھی اللہ ہی کے لیے چھوڑ  کر بے کار کرتے تھے ۔ اللہ نے اس کو جہالت کی بات ٹھہرایا اور اجازت دی کہ گوشت کھایا جائے ، غریبوں کو کھلایا جائے اور پوست امور خیر میں صرف کیا جائے اس کے بعد تو قربانی کو بہیمیت اور وحشیانہ فعل کا نام دینا اور بھی غلط ہو جاتا ہے ، اسی لیے کہ اب اس ذبیحہ میں اور ہمارے روز مرہ کے ذبیحوں میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف ایک اعلیٰ نیت اورمصارف خیر کے حصہ کا ۔

اسی جوزاب سے اضاعت مال والے اعتراض کی بے بنیادی بھی پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے ۔ اب صرف یہ اعتراض کسی سطح میں اور ظاہر پرست کے ذہن میں رہ سکتا ہے کہ جتنا روپیہ مجموعی اعتبار سے قربانی پر صرف ہوتا ہے اگر یہ روپیہ انفرادی صدقات و خیرات یا کسی اجتماعی نظم کے تحت ناداروں اور مستحق اداروں کی فلاح و بہبود میں خرچ کیا جائے تو اس قربانی کی نسبت بہت عظیم اور دور رس فوائد پیدا ہو سکتے ہیں ۔ مگر کہ عرض کیا گیا یہ اعتراض یورپ کی پھیلائی ہوئی اس افادیت پرستی کا نتیجہ ہے جس کے مسلط ہو جانے کے بعد آدمی کی نظر میں انسانی اعمال کی قدر و قیمت کا واحد پیمانہ مادی اور ظاہری افادیت بن جاتی ہے اور وہ حاسہ انسانی کھو بیٹھتا ہے جس سے دینی اعمال کی بنیادی قدر و قیمت محسوس کی جاتی ہے اور اعمال دینیہ کے اسرار کھلتے ہیں ۔

افادیت پرستی کے مارے ہوئے یہ لوگ نقد صدقات و خیرات کو اس لیے معقول نیکی سمجھتے ہیں کہ اس سے بڑے پیمانہ کی اور پائیدار مادی فلاح و بہبود پیدا ہوتی ہے ، یا ہوسکتی ہے اور قربانی کی نیکی اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اس سے کسی بڑے اور دور رس مادی فائدے کا ظہور نہیں ہوتا ۔ حالانکہ غربا کی مادی افادیت کی ایک دینی قدر و قیمت کے ساتھ صدقہ و خیرات کے نیکی ہونے اور اس میں دینی قدر و قیمت پیدا ہونے کی اصل بنیاد بالکل یہ نہیں ہے کہ اس سے کوئی چھوٹے یا بڑے یا بڑے مادی فوائد غربا و مستحقین کے لیے پیدا ہوتے ہیں ۔ صدقہ و خیرات کی شکل میں دینی قیمت پیدا کرنے والی اور اس ایک دینی نیکی بنانے والی چیز رضائے الہٰی کی نیت اور دینے والے کا جذبہ و احساس ہے کہ یہ میرے مال کے مالک حقیقی کا حق تھا جو میں ادا کر رہا ہوں ۔

اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اصل بات کو سمجھئے کہ نقدصدقہ و خیرات کی بے شک ایک دینی قیمت ہے اور بہت بڑی ہے مگر

ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است

قربانی کی جو خاص بات ہے وہ اس میں نہیں ہے ۔ اس سے مال ( سیم وزر) کا حق خداوندی ادا ہوتا ہے ۔ اس حقیقت  کی یاددہانی ہوتی ہے کہ یہ اسی کی عطا و عنایت ہے ، اس سے جذبہ شکر ابھرتا ہے اور اس طرح رشتہ عبدیت و معبودیت مضبوط ہوتا ہے ۔ مگر اللہ کی عطا صرف سیم و زر ہی تک تو محدود نہیں ہے ۔ اس نے کتنے ہی انواع کے چوپایوں کی صورت میں بھی تو منافع کا ایک خزانہ دے رکھا ہے جس سے انسان دن رات متمتع ہو تا ہے دودھ پیتا ہے ، گوشت کھاتا ہے ، کھیتی باڑی کا کام لیتا ہے ، وغیرہ ذالک ، کیا اس جاندار عطا و عنایت میں خدا کا کوئی حق نہیں ہے ؟ اس پر اس میں جذبہ شکر نہیں ابھرنا چاہیے اور اس حقیقت کو یکسر فراموش کیے رہنا چاہیے کہ چوپایوں کی یہ منافع بھری دنیا کس کا فیض کرم ہے ؟ اور اس عظیم کرم کو رشتہ عبدیت کی مضبوطی میں سرے سے کام ہی نہ آنا چاہیے ؟ حالانکہ عبدیت و مبعودیت کا تمام تر رشتہ انہی کرم ہائے گوناگوں پر استوار ہے ۔

قربانی یہی کام انجام دیتی ہے ۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے :

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ... ﴿٣٤﴾...الحج

’’ اور ہر امت میں ہم نے قربانی کا طریقہ رکھا ہے ۔ تاکہ لوگوں کو اللہ کی اس عنایت پر اس کا نام لینے کی توفیق ملے جو اس نے مویشیوں کی صورت میں فر ما رکھی ہے ۔‘‘

ان سب اموال سے بڑھ کر انسان پر اللہ کی سب سے بڑی عنایت خود اس کی جان ہے مگر یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے اس جان کا نذرانہ ان دوسرے جانداروں کی جان کی طرح طلب نہیں کیا ۔ لیکن اسلام میں قربانی کی بات جہاں سے چلی ہے یعنی سیدنا ابراہیم و اسماعیل ( علیہم السلام ) کا واقعہ ، وہ سوچنے والوں کو اس بات کا کھلا اشارہ دیتا ہے کہ قربانی کے حکم میں جہاں یہ حکمت تھی کہ مویشیوں  کی صورت میں اللہ کی زبردست عطا کا شکر انہ ادا ہو وہاں ان جانداروں کی قربانی میں یہ رمز بھی رکھ دیا گیا ہے کہ قربانی کرنے والا خود اپنی جان بھی ا س طرح جان آفرین پر نذر کرنے کو تیار ہے ، مگر چونکہ اجازت نہیں ، اس لیے اس کے بدلہ میں ایک دوسری جان نذر کرتا ہوا وہ اپنے حقیقی جذبہ فدائیت کو بشکل مجاز پیش کرتا ہے ۔ اس طرح اس قربانی میں ایک عظیم عطا کا شکرانہ بھی ہے اور خود اپنی جان کا نذرانہ  بھی اور یہ بات نقد صدقہ و خیرات سے کسی طرح حاصل نہیں ہوسکتی ۔

جب کہ اللہ سے رشتہ عبدیت کی درستی اور مضبوطی کے لیے اس خانہ کا بھرنا صدقہ و خیرات والے خانہ کے بھرنے سے کسی طرح کم ضروری نہیں ، بلکہ کچھ زیادہ ہی ضروری نظر آتا ہے ۔ ( بشکریہ الفرقان لکھنؤ ) ماخوذ ہفت روزہ الاعتصام لاہور

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص606

محدث فتویٰ

تبصرے