السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی کا جانور جو خاص قربانی کے لئے خریدا جائے اور ذوالحجہ کے چاند میں اس کی اون بالکل صاف کی جائے، یعنی مونڈی جائے تو بہتر ہے یا نہیں، پشم اتارنے میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ترغیب وترہیب میں ہے:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قال مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ وَإِنَّهُ لَيُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ الله بمَكَان قبل أَن يَقع بِالْأَرْضِ فيطيبوا بهَا نفسا۔ (ترغیب وترھیب، ج۲ص۱۵۳)
یعنی وعائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بقر عید کے دن آدم کے بیٹے نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو قربانی سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پیارا ہو اور قربانی قیامت کے دن سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گی اور خون زمین پر پڑنے سے پہلے خدا کے پاس قبولیت کے مقام میں پہنچ جاتا ہے، پو قربانیوں کے ساتھ دل سے خوش رہو۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے بال نہیں کٹانے چاہییں جیسے سینگ وغیرہ کیونکہ قیامت کے دن قربانی ان اشیاء کے ساتھ آئے گی۔ ہاں، اگر قربانی کا جانور بہت مدت پہلے خریدا ہوا ہو اور اون اتنی بڑی ہو گئی ہو کہ جانور کو تکلیف ہو تو پھرکاٹنے میں کوئی حرج نہیں، مگر بقر عید کے دن سے اتنی پہلے کاٹے کہ بقر عید کے دن تک کافی بڑھا جائے تاکہ اس حدیث کے مطابق ہوجائے اس صورت میں کاٹنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوگی اور قربانی کا جانور تکلیف سے بھی محفوظ رہے گا۔
اور جواون اتاری جائے وہ صدقہ کر دینی چاہیے۔ کیونکہ قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے قربانی کی کوئی شے استعمال کرنا شبہ سے خالی نہیں، جو قربانی مکہ معظمہ میں بھیجی جاتی ہے اس کی بابت حدیث میں آیا ہے کہ اگر راستہ میں رہ جائے تو اس کو ذبح کر دو اور لوگوں کے لئے چھوڑ دو، تم اور تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی نہ کھائے۔ (مشکوٰۃ باب الھدی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جوچیز اللہ کےلیے وقف ہوجائے وہ وقت سے پہلے استعمال نہ کرنی چاہیے۔ ہاں لاچاری کی صورت میں سواری کی اجازت ہے، چنانچہ مشکوٰۃ کے اسی باب میں ہے ارکبھا بالمعروف اذا ألجئت الیھا حتی تجد ظھرا یعنی قربانی کے جانور پر سواری کے لئے مجبور ہو جائے تو سواری کرے حتی کہ اور سواری مل جائے۔
اسی بنا پر امام مالک رحمہ اللہ وغیر ہم قربانی کے دودھ کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ نیل الاوطار: جلد ۴ میں ہے:
وَاخْتَلَفُوا أَيْضًا فِي اللَّبَنِ إذَا احْتَلَبَ مِنْهُ شَيْئًا فَعِنْدَ الْعِتْرَةِ وَالشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَفِيَّةِ يَتَصَدَّقُ بِهِ فَإِنْ أَكَلَهُ تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ وَقَالَ مَالِكٌ: لَا يَشْرَبُ مِنْ لَبَنِهِ فَإِنْ شَرِبَ لَمْ يَغْرَمْ.۔ انتھی ملخصا۔
یعنی قربانی کے دودھ میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ شافعہ اور حنفیہ کہتے ہیں کہ جب کچھ دودھ دو ہے تو صدقہ کر دے، اگر کہیں پی گیا تو اس کی قیمت صدقہ کرے۔
امام مالک کہتے ہیں کہ قربانی کادودھ پینے کی اجازت نہیں، لیکن اگر کوئی شخص پی لے تو اس پر کوئی تاوان نہیں۔
خلاصہ یہ کہ ذبح سے پہلے قربانی کی کوئی شے اپنے استعمال میں نہ لائے، ذبح کے بعد استعمال میں لا سکتا ہے۔ گوشت کھا سکتا ہے، چمڑا استعمال کر سکتا ے ار اون وگیرہ چمڑے سے علیحدہ کر کے کوئی شے بنانا چاہے بنا سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی چیز کو فروخت کر کے پیسے کھانے جائز نہیں، چنانچہ حدیث میں چمڑوں وغیرہ کی فروخت کرنے سے صراحتاً منع فرمایا گیا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب