السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی واجب ہے یا سنت یا مستحب؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے واجب اور سنت ہونے میں اختلاف ہے۔
امام ربیعہ گیتؒ، ابو حنیفہؒ اور اوزاعی رحمہ اللہ کے نزدیک جس پر زکوٰۃ واجب ہے، اس پرقربانی بھی واجب ہے، تاہم میدان منیٰ میں حاجی پر یہ ائمہ قربانی واجب نہیں سمجھتے۔
امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کے نزدیک مقیم شہری پر قربانی واجب ہے، مسافر پر نہیں۔ (شرح مھذب: ص۲۹۹ج۸)
ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک صاحب استطاعت پر قربانی سنت واجبہ ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ، ابو یوسف رحمہ اللہ اور مشہور ومختار قول کے مطابق قربانی سنت مؤکدہ ہے۔
ان اقوال کا تجزیہ کرنے میں صرف دو مسلک واضح ہوتے ہیں۔ (۱) وجوب (۲) سنت۔
۱۔ عَنْ عَامِرٍ أَبِي رَمْلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مِخْنَفُ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: وَنَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً۔ (عون المعبود: ص۴۹ ج۳۔ نسائی ج۲ ص۱۸۱)
مخنف بن سلیم کہتے ہیں کہ عرفات کے میدان میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہر سال ایک دفعہ ہر اہل خانہ پر قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔
تبصرہ۔۔۔۔: یہ حدیث ضعیف ہے۔ کیونکہ ابو رملہ بقول حافظ ابن حجر تیسرے طبقہ کا راوی ہے اور مجہول الحال ہے۔
وقال الخطابی ھذا الحدیث ضعیف المخرج لان ابارملة مجھول۔ (شرح مھذب ص۳۰۰ج۸)
۲۔ عَنْ اَبیْ ھُریرہ قال قال رسول اللہﷺ مَنْ کَان لَهُ سِعَة فَلَمْ یضح فَلا یقربن مصلانا۔ (ابن ماجة باب الاضاحی واجبة ام لا۔ ص۲۷۱ج۲)
کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔‘‘
تبصرہ۔۔۔: یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔
قال البیھقی عن الترمذی الصحیح أنه موقوف۔ (شرح مھذب: ص۳۰۰ج۸)
اگرچہ امام حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے لیکن ان کا تساہل بھی مشہور ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رِجَالُهُ ثِقَاتٌ لَكِنِ اخْتُلِفَ فِي رَفْعِهِ وَوَقْفِهِ وَالْمَوْقُوفُ أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ۔
کہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث موقوف ہے۔
تبصرہ۔۔۔: اس میں تاکید ہے جیسے کہ کچا پیاز کھا کر مسجد میں آنے سے منع کیا گیا ہے۔ حالانکہ کچا پیاز کسی کے نزدیک بھی حرام نہیں ہے۔
عن جُنْدَبَ بْنَ سُفْيَانَ البَجَلِيَّ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ: «مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَكَانَهَا أُخْرَى۔ (بخاری: ص۸۳۴ج۲)
کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر دیا ہے وہ اور جانور ذبح کرے۔
تبصرہ۔۔۔: اس حدیث میں امر کا صیغہ فلیذبح وجوب کے لئے نہیں ہے بلکہ استحباب کے لئے ہے۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فما کان منھا ضعیفا لا حجة فیه وما کان صحیحا فھو مَحْمُولٌ عَلَى الِاسْتِحْبَابِ جَمْعًا بَيْنَ الْأَدِلَّةِ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ ۔ (شرح مھذب: ص۳۰۱ج۸)
کہ جو روایتیں ضعیف ہیں وہ دلیل وجوب نہیں بن سکتیں اور جو دلائل صحیح ہیں تو ان میں اور دوسرے منفی دلائل میں تطبیق یہ ہے کہ یہ استحباب پر محمول ہیں۔
بخاری شریف میں باب سنة الاضحیة وقال ابن عمر ھی سنة ومعروف کی شرح میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
کانه ترجم بالسنة إشارة إلی مخالفة من قال بوجوبھا قال ابن أحد من الصحابة أنھا واجبة وصح أنه غیر واجبة عن الجمھور۔ (محلی ابن حزم ۷ص۳۰۸) (فتاویٰ نذیریه ص۲۵۵ج۳)
کہ اس باب سے امام بخاری کی غرض صرف ان لوگوں کے ساتھ اختلاف کرنا ہے جن کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ ابن حزم فرماتے ہیں کہ کسی صحابی سے بھی بسند صحیح قربانی کا وجوب ثابت نہیں ہے۔ اور جمہور کے نزدیک صحیح یہ ہے قربانی سنت ہے۔
پھر امام بخاری رحمہ اللہ اپنے دعویٰ میں یہ دو حدیثیں لائے ہیں:
۱۔ عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا۔ (بخاری: کتاب الاضاحی ص۸۳۲ج۲)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ہم بقر عید کے دن سب سے پہلے نماز عید ادا کرتے ہیں، پھر واپس آ کر قربانی ذبح کرتے ہیں۔ جس نے ہماری طرح کیا، اس نے ہماری سنت کو پالیا۔
۲۔ عن انس بن مالک قال النبیﷺ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَإِنَّمَا يَذْبَحُ لِنَفْسِهِ، وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ۔ (بخاری: ص۸۳۲ج۲)
آنحضرتﷺ نے فرمایا: جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کی تو اس نے اپنی ذات کے لئے ذبح کی اور جس نے نماز عیدکے بعد ذبح کی تو اس کی قربانی پوری ہوگئی اورمسلمانوں کی سنت پر عمل کیا۔
۳۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ۔ (مسلم مع نووی ص۱۶۰ج۲)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ لے۔
اس حدیث میں قربانی کو قربانی کرنے والے کے ارادہ پر چھوڑ دیا گیاہے۔ اگر قربانی واجب ہوتی تو پھر قربانی کرنا، قربانی کرنے والے کے ارادہ پر نہ چھوڑا جاتا، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ھٰذَا دلیل ان التصحیة لیست بواجبة لقولہﷺ وأراد فجعله مفوضا إلی أرادته ولو کانت واجبة لقال فلا یمس عن شعرہ حتی یضحی۔ (شرح مھذب: ص۳۰۰ج۸)
کہ یہ حدیث قربانی کے واجب نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر قربانی واجب ہوتی تو آنحضرتﷺ قربانی کو قربانی کرنے والے کے سپرد نہ کرتے بلکہ فرماتے کہ قربانی کرنے والا، قربانی ذبح کرنے سے پہلے بال اور ناخن نہ لے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلأنَّ التضحیة لو کَانَت واجیة لم تسقط بفوات علیل ھذا کالجمعة وسائر الواجبات ووافقنا الحنفیة علی أنھا إذا فاتت لا یجب القضاء عنھا۔ (شرح مھذب ج۸ص۳۰۱)
یعنی اگر قربانی واجب ہوتی تو فوت ہوجانے کی صورت میں اس کی قضا واجب ہوتی، حالانکہ قضا لازم نہ ہونےمیں خود حنفیہ، جو کہ وجوب کے قائل ہیں، بھی ہمارے ساتھ اتفاق کرتے ہیں۔
بہرحال ان احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے، واجب نہیں اور جمہور اہل علم کا یہی مذہب ہے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَقَالَ جُمْهُورُهُمْ هِيَ سُنَّةٌ فِي حَقِّهِ إِنْ تَرَكَهَا بِلَا عُذْرٍ لَمْ يَأْثَمْ وَلَمْ يَلْزَمْهُ الْقَضَاءُ وَمِمَّنْ قَالَ بِهَذَا أَبُو بكر الصديق وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَبِلَالٌ وَأَبُو مَسْعُودٍ الْبَدْرِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَعَلْقَمَةُ وَالْأَسْوَدُ وَعَطَاءٌ وَمَالِكٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُو يُوسُفَ وَإِسْحَاقُ وَأَبُو ثَوْرٍ وَالْمُزَنِيُّ وبن الْمُنْذِرِ وَدَاوُدُ وَغَيْرُهُمْ۔ (نووی شرح مسلم: ص۱۵۳ ج۲ شرح مھذب: ص۲۹۹ج۸)
کہ صاحب استطاعت پر قربانی واجب نہیں۔ اگر وہ بلا عذر چھوڑ دے تو نہ اس پر قضا لازم ہے اور نہ گناہ گار ہوگا۔
ابوبکرصدیق، عمر، ابو مسعود بدری، بلال رضی اللہ عنہم اور دیگر تابعین اور فقہاء کا یہی مذہب ہے۔
مگر اس خاکسار کے نزدیک صاحب استطاعت کو کھلی چھٹی دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ قربانی سنت موکدہ اور دین الام کا شعار ہے۔ اس میں سستی بشرط استطاعت حرماں نصیبی کے سوا کچھ نہیں اور سنت کا استحفاف مزید برآں ہے جب کہ قرآن مجید میں شعائر دینیہ کی حفاظت کا حکم ہے۔
﴿...وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾...الحج
امام شافعی فرماتے ہیں:
التضحیة سنة مؤکدة وشعار ظاھر ینبغی للقادر علیھا المحافظة علیھا ولا تجب باصل الشرع لان الاصل عدم الوجوب۔ (شرح مھذب: ص ۲۹۷ج۸)
کہ قربانی سنت مؤکدہ اور دین کا شعار (امتیازی نشان) ہے۔ صاحب استطاعت کو اس کی حفاظت کرنی چاہیے، اگرچہ ازروئے شرعی دلائل واجب نہیں، میرے نزدیک بھی یہی صحیح ہے
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب