سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(208) کیا زکوٰۃ کی رقم سے فری ڈسپنسری قائم کی جا سکتی ہے؟

  • 14312
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1357

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا  زکوٰۃ کی رقم سے کسی جگہ فری ڈسپنسری قائم کی جا سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں خاصا اختلاف ہے۔ دراصل قرآن میں مصارف زکوٰۃ کی ترتیب کے مطابق ساتویں مصرف فی سبیل اللہ کی تفسیر میں اختلاف ہے جمہور علماء اسلام کے نزدیک فی سبیل اللہ سے مراد جہا د فی سبیل اللہ ہے، تاہم ھسب ذیل احادیث کے مطابق حج اور عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ ابو بکر بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے:

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْطِهَا فَلْتَحُجَّ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» فَأَعْطَاهَا۔ (سنن ابی داؤد باب العمرة ج: ۱ص ۲۷۲)

ام معقل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مجھ پر حج واجب ہو چکا ہے اور ابو معقل کے پاس اونٹ موجود ہے وہ مجھے اپنا اونٹ دے نہیں رہا۔ تو ابو معقل نے کہ کہ وہ میں فی سبیل اللہ صدقہ کر چکا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا: آپ اس کو حج کے لئے اونٹ دے دیں کیونکہ حج بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔

۲۔ عَنْ ابْنِ لَاسٍ الْخُزَاعِيِّ قَالَ: «حَمَلَنَا النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى إبِلٍ مِنْ الصَّدَقَةِ إلَى الْحَجِّ» رَوَاهُ أَحْمَدُ وَذَكَرَهُ الْبُخَارِيُّ تَعْلِيقًا۔ (نیل الاوطار باب الصرف فی سبیل اللہ وابن السبیل: جلد ۴ صفحه ۱۷۰)

امام بخاری وغیرہ ائمہ کے مطابق ابن لاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حج کی ادائیگی کے لئے ہم کو سواری کے لئے صدقہ کا اونٹ عنایت فرمایا۔

۳۔ حضرت ام معقل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب عمرہ کی ادائیگی کے لئے ابو معقل نے مجھے اونٹ دینے سے انکار کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: الحَجُّ وَالْعُمرةُ فِی سبیل اللہ (رواہ احمد، نیل الاوطار ج۴ ص۱۷۰) کہ حج اور عمرہ فی سبیل اللہ کی مد میں داخل ہیں۔

امام شوکانی فرماتے ہیں:

أَحَادِيثُ الْبَابِ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مِنْ سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَنَّ مَنْ جَعَلَ شَيْئًا مِنْ مَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ جَازَ لَهُ صَرْفُهُ فِي تَجْهِيزِ الْحُجَّاجِ وَالْمُعْتَمِرِينَ۔ (نیل الاوطار ح۴ ص۱۷۱)

یہ حدیثیں اس بات کی دلیل ہیں کہ حج اور عمرہ فی سبیل اللہ میں داخل ہیں اور جو شخص اپنا مال وغیرہ فی سبیل اللہ وقف کرے تو وہ اس مال وغیرہ سے حج اور عمرہ کرنے والوں کی تیاری میں مدد کر سکتا ہے۔ اس بحث سے ثابت ہوا کہ اگرچہ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے، تاہم حض اور عمرہ بھی اس مد میں شامل ہیں۔

بعض کا مذہب:

بعض علماء فقہاء کے نزدیک فی سبیل اللہ کا لفط عام ہے تو کسی بھی کار خیر میں مال زکوٰۃ خرچ کر سکتے ہیں، (تفسیر کبیرج۴صفحہ ۴۱۴) میں ہے:

وَاعْلَمْ أَنَّ ظَاهِرَ اللَّفْظِ فِي قَوْلِهِ: وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يُوجِبُ الْقَصْرَ عَلَى كُلِّ الْغُزَاةِ، فَلِهَذَا الْمَعْنَى نَقَلَ الْقَفَّالُ فِي «تَفْسِيرِهِ» عَنْ بَعْضِ الْفُقَهَاءِ أَنَّهُمْ أَجَازُوا صَرْفَ الصَّدَقَاتِ إِلَى جَمِيعِ وُجُوهِ الْخَيْرِ مِنْ تَكْفِينِ الْمَوْتَى وَبِنَاءِ الْحُصُونِ وَعِمَارَةِ الْمَسَاجِدِ، لِأَنَّ قَوْلَهُ: وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ عَامٌّ(فتاوی اھل حدیث ج۲ ص۱۵۸) والمرشد فی احکام الزکوۃ۔

یعنی اس بات کو جان لو کہ قول وفی سبیل اللہ کا ظاہر عام ہے غازیوں پر محدود کرنے کو واجب نہیں کرتا۔ اس وجہ سے علامہ فقال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہائے اسلام سے نقل فرمایا ہے کہ انہوں نے تمام امور خیر میں صدقات کا خرچ کرنا جائز رکھا ہے جیسے مردوں کو کفنانا، قلعے اور مسجدیں بنانا۔

نواب صدیق حسن خان رقم فرماتے ہیں:

قیل ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہ علی نوع خاص ویدخل فیه جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتی وبناء الجسور والحصون وعمارة المسجد وغیر ذلك والاول اولیٰ لاجماع الجمھور علیه۔ (فتح البیان ص۴۲۴، کذا فی فتاوی اھل حدیث ج۲صفحہ ۱۵۷)

یعنی یہ بھی کہا گیا ہے کہ فی سبیل اللہ کا لفط عام ہے، اس کو ایک قسم (غازیوں) پر بند کرنا جائز نہیں، اس میں تمام کار خیر داخل ہیں جیسے مردوں کو کفن پہنانا، پل بنانا، قلعے اور مسجدیں تعمیر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اور پہلی صورت جہاد (مع حج وعمرہ) ہونا بہتر ہے کیونکہ اس پر جمہور کا اجماع ہے اور فری ڈسپنسری بھی کار خیر میں داخل ہے۔ لہٰذا بعض فقہاء کے نزدیک قلعوں، پلوں اور مسجدوں اور تکفین موتی کی طرح فری ڈسپنسری بھی مال زکوٰۃ سے بنائی جا سکتی ہے اور اس پر اعتراض تو نہیں ہو سکتا کہ گنجائش کا انکار مشکل ہے۔ لیکن احوط اور اولیٰ یہ ہے کہ فی سبیل اللہ میں انتی توسیع مراد نہ لی جائے، ورنہ دوسرے سات مصارف کا بیان بے سود رہ جائے گا بہر حال احتیاط تو اسی میں ہے کہ مال زکوٰۃ سے ڈسپنسری وغیرہ نہ کھولی جائے، تاہم اگر کوئی شخص ایسا کر لے تو اس پر اعتراض تونہیں ہوسکتا۔ کچھ فقہاء اس طرف بھی گئے ہیں۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص568

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ