سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(205) کیا صدقہ فطر واجب ہے

  • 14309
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1896

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا صدقہ فطر واجب ہے یا سنت ہے اور اسے کب ادا کرنا چاہیے؟ (سائلہ، اَمَیتُ اللہ بنت محمد حسین فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ فطر یا زکوٰۃ الفطر سے وہ صدقہ مراد ہے جو رمضان المبارک کے اختمام پر واجب ہے۔ اور یہ غلام وآزاد،مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے ہرمسلمان فرد پر واجب ہے۔ السید محمد سابق المصری رقم فرماتے ہیں: وهي واجبة على كل فرد من المسلمين، صغير أو كبير، ذكر أو أنثى، حر أو عبد۔اور اس کے وجوب کی دلیل یہ حدیث ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ۔ (صحیح بخاری باب فرض صفقة الفطر وراتی ابو العالیة وعطاء وابن سیرین صدقة الفطر فریضة۔)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فطر کا صدقہ کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع فرض فرمایا، ہر غلام اور آزاد، مرد اور عورت اور چھوٹے اور بڑے کی طرف سے جو مسلمان ہوں اور عید الفطر کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے اس کے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ امام ابوالعالیہ، امام عطاء اور امام محمد بن سیرین کے نزدیک صدقہ الفطر فرض ہے۔

ہر ایک جنس میں ایک صاع فرض ہے۔ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ» ، فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِيَةُ وَجَاءَتِ السَّمْرَاءُ، قَالَ: «أُرَى مُدًّا مِنْ هَذَا يَعْدِلُ مُدَّيْنِ۔ (صحیح البخاری باب صاع من زیب ج۱ص۲۰۴)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ایک صاع اناج اناج(گیہوں) کا یا ایک صاع کھجور کا یا ایک صاع جو کا یا ایک صاع منقی کا ادا کیا کرتے تھے۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو معاویہ کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دومد کے برابر ہے۔

فأخذ الناس بذلك.

قال أبو سعيد: فأما أنا، فلا أزال أخرجه أبدا ما عشت " رواه الجماعة.

قال الترمذي: والعمل على هذا عند بعض أهل العلم يرون من كل شئ صاعا، وهو قول الشافعي، وإسحاق۔ (فقہ السنة ج۱ص۲۴۹)، تحفة الاحوذی ج۲ص۲۷)

کہ لوگوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کو اپنا لیا تو حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو اپنی زندگی میں ہر ایک جنس میں سے ایک پورا صاع اداکرتا رہوں گا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض اہل علم ہر ایک جنس میں پورے ایک صاع کے ہی قائل ہیں۔ امام شافعی اور امام اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

اور یہی قول حدیث صحیح کے مطابق اور اقرب الی الصواب اور مبنی پر احتیاط ہے، گندم کے نصف صاع کے جواز میں اگرچہ کچھ احادیث مروی ضرور ہیں۔ مگر ان کی اسناد چنداں مظبوط اور تسلی بخش نہیں ہیں۔

ملحوظہ

گندم چونکہ مدینی منورہ کی اپنی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ درآمد کی جاتی تھی، اس لئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے گندم کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات کے پیش نظر اس کے نصف صاع کے کافی ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔ مگر ہمارے دیار میں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ گندم یہاں کی مقامی اور کثیرالمقدار پیداوار ہے جو کہ پنیر، کھجور اور کشمش کے مقابلہ میں بہت ارزاں ہوتی ہے، اس لئے ہمارے دیار میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد اور فتویٰ کو کو بنیاد بنا کر صدقہ فطر گندم کا نصف صاع ادا کرنا سراسر غیر معقول بات ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد پر ہی عمل کرنا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ کھجور، کشمش وغیرہ درآمدی چیزوں کا نصف صاع ادا کرے۔ مگر سلامتی صرف اتباع رسولﷺ ہی میں ہے۔ فافھم ولا تکن من القاصرین۔

صاع نبوی کی تحقیق

صاع نبوی یا صاع ابن ابی ذئب پانچ رطل اور ۳؍۱ رطل کا تھا جو انگیزی اوزان کے اعتبار سے ۲ سیر ۱۰ چھٹانک اور ۴ماشہ کے برابر ہے۔ اب انگریزی نظام کی جگہ اعشاری نظام وزن جڑ پکڑ چکا ہے۔ لہٰذا اب حضرت مفتی مولانا محمد صدیق سرگودھوی رحمہ اللہ اور دوسرے اہل علم کے  مطابق ایک صاع اڑھائی کلو گرام کے برابر ہوتا ہے، اس لئے اب غلہ کی ہر ایک جنس میں سے فی کس اڑھائی کلو گرام صدقہ فطر ادا کرنا فرض اور ضروری ہے۔

رقم اور نقدی کی صورت میں:

اگر کوئی شخص گندم یا چاول کے بجائے رقم یا نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کرنا  چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ گندم یا چاول کی جو نوع (قسم) خود کھاتا ہے وہ اس کی قیمت فی کلو گرام کے حساب سے اڑھائی کلو گرام کی قیمت ادا کرے۔مثلاً: اگر آپ پانچ روپے فی کلو گرام والا آٹا کھاتے ہیں تو آپ کو ساڑھے بارہ روپےفی کس ادا کرنے ہوں گے۔ اور اگر آپ ایک وقت چاول اور ایک وقت روٹی کھانے کا معمول رکھتے ہیں۔ اور آپ آٹا پانچ روپے فی کلو گرام کھاتے ہیں۔ اور چاول انیس روپے کلو ہوں تو اس حساب سے آپ کو تیس روپے فی کس ازراہ احتیاط ادا کرنے ہوں گے۔ اگر آپ ایک وقت چاول کھانے کے باوجود (صرف گندم یا) گندم کے آتے کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کر دیں گے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ احادیث صحیحہ میں ایسی کوئی تفصیل مروی نہیں کہ دونوں وقتوں کی مختلف غذاؤں کا لحاظ رکھنا ضروری ہو۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص565

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ