السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سونے کے زیورات کی زکوٰۃ کے بارے میں اس سے پہلے علماء سے یہ سنتے آئے ہیں کہ ساڑھے سات تولہ سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اب بعض علماء سے سنا ہے کہ آنحضرتﷺ نے نقدی میں صرف چاندی کی مقدار مقرر کی ہے جو ساڑھے باون تولہ ہے اور ساڑھے سات تولے سونے کی مقدار آنحضرتﷺ نے مقرر نہیں کی، اس لئے اگر کسی کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر سونا ہو تو وہ زکوٰۃ اداکرے خواہ ایک تولہ ہی کیوں نہ ہو۔
اس لئے گزارش ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ کون سی بات سرست ہے، کتنا سونا ہو تو زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے؟ (ایک سائلہ سرفراز کالونی گوجرانوالہ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہو کہ صحیح یہ ہے کہ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور یہ نصاب حسن درجہ کی متعدد احادیث سے ثابت ہے، چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، فَإِذَا كَانَتْ لَكَ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ۔ (رواه ابو داؤد، نیل الاوطار، باب زکاة الذھب والفضة جض ۲ص:۱۵۶)
وقال السید محمد سابق المصری رواہ احمد وابو داؤد والبیھقی وصحه البخاری وحسنة الحافظ ابن حجر العسقلانی۔ (فقة السنةض ج۱ ص۲۷۸)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تیرے پا سدو سو درہم چاندی ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں پانچ درہم زکوٰۃ ہے اور آپ پر زکوۃ لازم واجب نہیں ہوتی جب تک آپ کے پاس بیس دینار سونا نہ ہو اور اس سونا کو پڑے ہوئے ایک سال نہ گزر جائے، سال گزرنے کے بعد اس میں نصف دینار زکوٰۃ ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ نِصَابَ الذَّهَبِ عِشْرُونَ دِينَارًا، وَإِلَى ذَلِكَ ذَهَبَ الْأَكْثَرُ وَرُوِيَ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّ نِصَابَهُ أَرْبَعُونَ، وَرُوِيَ عَنْهُ مِثْلُ قَوْلِ الْأَكْثَرِ ۔ (نیل الاوطار، ج۳ص۱۵۸)
کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ سونے کا نصاب بیس دینار ہے، اکثر علماء اس طرف گئے ہیں، حسن بصری کے نزدیک چالیس دینار ہے، مگر ان کے دوسرے قول کے مطابق وہ بھی اکثر علماء کے ساتھ ہیں۔
امام طاؤس رحمہ اللہ کے نزدیک جب سونا دو سو درہم چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے، لیکن درج ذیل حدیث ان کی رائے کی تردید کرتی ہے۔
۲۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «كَانَ يَأْخُذُ مِنْ كُلِّ عِشْرِينَ دِينَارًا فَصَاعِدًا نِصْفَ دِينَارٍ، وَمِنَ الْأَرْبَعِينَ دِينَارًا دِينَارًا۔ (سنن الدار قطنی: ج۲ص۹۶)
وقال شمس الحق المحدث وفیه ابراھیم بن اسماعیل بن مجمع قال ابن معین لا شیء قال ابو حاتم یکتب حدیثه ولا یحتج به فانه کثیر الوھم۔ (التعلیق المغنی: ج۲ص۹۲)
حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بیس دینار سونا میں آدھا دینار اور چالیس دیناروں میں سے ایک دینار بطور زکوٰۃ وصول کرتے۔
۳۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ: أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِينَارًا۔ (سنن الدار قطنی: ج۷ص۲۹)
کہ رسول اللہﷺ نے جب حضرت معاذرضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ چالیس دینار سونے میں ایک دینار سونا بطور زکوٰۃ وصول کرو۔
اس حدیث عبداللہ بن شعیب نامی ضعیف ہے، مگر علامہ جمال الدین الحنفی الزیلعی نے اس کی توثیق نقل کی ہے۔ (نصب الرایۃ: ج۲ص۲۶۴)
۴۔ ابن حزم رقم طراز ہیں:
قال جمھور ایجاب الزکوةفی عشرین دیناراالاقل۔ (المحلی لابن حزم ج۲ص۶۶ باب زکوة الذھب۔
کہ جمہور علمائے امت کے نزدیک سونے کا نصاب بیس دینار، یعنی ۸۷گرام اور ۴۷۹ ملی گرام ہے۔ جب کسی کے پاس ۸۷گرام اور ۴۷۹ ملی گرام سونا سال بھر موجود ہے تو اس میں نصف دینار، یعنی ۲گرام اور ۱۸۷ ملی گرام سونا بطور زکوٰۃ واجب ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ کہ مندرجہ بالا احادیث رسول اللہﷺ سے ثابت ہوا کہ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے اور یہی صحیح مذہب ہے
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب