السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک ہندو شخص مسجد کے کنوئیں میں یا مسجد میں صرف کرنےکی بخوشی کچھ رقم دے دے تو اُسے از روئے شریعت کنوئیں یا مسجد میں لگا سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مال کے متعلق دریافت کرلینا چاہیے اگر بالکل حلال ہو تو اُسے قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں اور مسجد وغیرہ پر بھی وہ لگ سکتا ہے ۔ بیت اللہ شریف کفار ہی کا بنا ہوا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ انہوں نے بیت اللہ شریف کو چھوٹا کردیا اور دروازہ کو اونچا کردیا۔ اگر یہ قوم نو مسلم نہ ہوتی تو میں بیت اللہ شریف کو اصلی بنیادوں پر بنا دیتا اور دروازہ زمین کے ساتھ ملا دیتا اور دو دروازے بنا دیتا ایک داخل ہونے کا اور ایک نکلنے کا۔
اس سے معلوم ہوا کہ کفار کا روپیہ مسجد پر لگ سکتا ہے۔ بشرطیکہ حلال کمائی ہو۔ چنانچہ اس حدیث میں تصریح ہےکہ کفار نے حلال روپیہ جمع کرکے بیت اللہ شریف پر لگایا تھا مگر حلال روپیہ چونکہ کم ہوگیا اس لیے انہوں نےبیت اللہ شریف کو چھوٹا کردیا۔
کفار کا روپیہ مسجد میں لگانے میں اور تو کوئی خرابی نہیں۔ صرف بدنامی کا باعث اور اعتراض کاذریعہ ہے کہ مسلمان ایسے بے حمیت ہوگئے ہیں کہ اپنے عبادت خانے بھی آباد نہیں کرسکتے جب تک کہ غیروں کی امداد نہ لیں۔ اس بدنامی اور اعتراض سےبچنے کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ روپیہ کفار سے لے کر کسی غریب مسکین کو دیاجائے۔ بیت اللہ شریف بے شک کفار نے اپنی حلال کمائی سے بنوایا تھا مگر اس وقت بیت اللہ شریف پر انہی کا قبضہ تھا بلکہ اس امت کےاہل اسلام کا اس وقت وجود ہی نہ تھا کیونکہ یہ نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی عمر اس وقت بارہ تیرہ سال کی تھی ۔ موجودہ مساجد پر اس وقت مسلمانوں کا قبضہ ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ مسلمان اپنی حلال کمائی سے آباد کریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب