سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(180) چھوٹی سی بستی میں بھی جمعہ فرض ہے

  • 14284
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1496

سوال

(180) چھوٹی سی بستی میں بھی جمعہ فرض ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چھوٹی بستی میں نماز جمعہ ادا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ غلام، عورت، بچے، بیمار قیدی اور مسافر کے علاوہ ہر بالغ مسلمان پر نماز جمعہ فرض عین ہے، خواہ وہ شہری ہو یا دیہاتی۔ دلائی درج ذیل ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٩﴾...الجمعه

’’اے اہل ایمان جب نماز جمعہ کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف چلے آؤ اور کرید وفروخت چھوڑ دو، یہ کام تمہارے لئے بہتر ہے۔‘‘

اس آیت شریفہ میں اہل ایمان کو اقامت جمعہ کے لئے خطاب ہے ظاہر ہے کہ شہریوں کی طرح اہل دیہات بھی اہل ایمان ہوتے ہیں۔ لہٰذا اقامت جمعہ کے لئے یہ حکم جس طرح شہریوں کے لئے ہے اسی طرح دیہاتیوں کے لئے بھی ہے۔ جس پر ساری امت کا اجماع ہے۔

قَدْ حَكَى ابْنِ الْمُنْذِر الْإِجْمَاع عَلَى أَنَّهَا فَرْض عَيْن. وَقَالَ ابْنُ الْعَرَبِيِّ: الْجُمُعَة من فروض الأعیان۔ (نیل الاوطار: ص۲۵۴ج۲)

’’امام ابن منذر او رابن العربی نے اس پر امت کا اجماع بتایا ہے کہ ہر بالغ، آزاد مرد جو مسافر، بیمار اور قیدی نہ ہو(شہری ہو دیہاتی) اس پر جمعہ فرض ہے۔‘‘

اور یہی مذہب صحیح ہے۔ درج ذیل احادیث ملاحظہ ہوں۔

عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِى جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ، أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ۔ (سنن ابی داؤد ۱۵۳، نیل الاوطار: ص۲۵۸ج۳)

’’طارق بن شہاب سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر جمعہ حق اور واجب ہے جب کہ وہ غلام، عورت نابالغ اور مریض نہ ہو۔‘‘

عَن حَفصة رضی اللہ عنہا ان النبیﷺ قال: رَوَاحُ الجُمعة وَاجبٌ عَلیٰ کُلِّ مُحتَلِمٍ۔ (رواہ النسائی، نیل الاوطار ج۳ص۲۵۷، باب من تحب عليه ومن لا تحب)

’’حضرت ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر بالغ مرد پر جمعہ کی ادائیگی کے لیے جلدی جلدی آنا واجب ہے۔‘‘

یہ حدیث مرسل صحابی ہے اور صحاب کی مرسل حدیث دلیل اور حجت ہوتی ہے۔ ان دونوں حدیثوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر مسلمان پر جمعہ فرض عین ہے، بشرطیکہ وہ بیمار، غلام، نابالغ، عورت اور مسافر نہ ہو، خواہ وہ شہری ہو یا کسی گاؤں میں بودوباش رکھتا ہو۔

اوپر کی دونوں حدیثیں اپنے عموم کی وجہ سے دیہاتی اور شہری دونوں قسم کے مسلمانوں کو شامل ہیں۔ اب وہ احادیث لکھی جاتی ہیں جن میں بستی والوں پر نماز جمعہ فرض ہونے کی تصریح موجود ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي مَسْجِدِ عَبْدِ القَيْسِ بِجُوَاثَى مِنَ البَحْرَيْنِ۔ (صحیح بخاری: ص۱۲۲ج۱ باب الجمعة فی القریٰ)

جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد سب سے پہلے بحرین کی جوائی بستی میں عبدالقیس کی مسجد میں جمعہ پڑھا گیا تھا۔‘‘

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَ قَائِدَ أَبِيهِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ بَصَرُهُ، عَنْ أَبِيهِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَمِعَ [ص:281] النِّدَاءَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ تَرَحَّمَ لِأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِذَا سَمِعْتَ النِّدَاءَ تَرَحَّمْتَ لِأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، قَالَ: " لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ جَمَّعَ بِنَا فِي هَزْمِ النَّبِيتِ مِنْ حَرَّةِ بَنِي بَيَاضَةَ فِي نَقِيعٍ، يُقَالُ لَهُ: نَقِيعُ الْخَضَمَاتِ "، قُلْتُ: كَمْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: «أَرْبَعُونَ۔ (أبوداؤد مع شرح عون المعبود: ص۴۱۴ج۱)

’’عبدالرحمٰن نے اپنے والد حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپﷺ جب بھی جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو سعد بن زرارہ کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے تو حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سعد بن زرارہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے نقیع خضمات کے کنکریلے علاقہ میں بنو بیاضہ کی بستی ہزم نبیت میں ہمیں نماز جمعہ پڑھائی تھی۔‘‘

(۵) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بحرین والوں کو تحریر فرمایا:

جمعو حیث ماکنتم۔ قال البیھقی فی المعرفة اسناد ھذا الاثر حسن۔ (فتح الباری، عون المعبود: ص۴۱۵ج۱)

’’تم جہاں بھی ہو(بستی میں یا شہر)جمعہ قائم کرو۔‘‘

امام ابن حزم کا فیصلہ:

ومِنْ أَعْظَمِ الْبُرْهَانِ عَلَى صحتها في القرى أن النبي أَتَى الْمَدِينَةَ وَإِنَّمَا هِيَ قُرًى صِغَارٌ مُتَفَرِّقَةٌ فَبَنَى مَسْجِدَهُ فِي بَنِي مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ وَجَمَّعَ فِيهِ فِي قَرْيَةٍ لَيْسَتْ بِالْكَبِيرَةِ وَلَا مِصْرَ هُنَاكَ۔ (عون المعبود: ص۴۱۰ج۱)

’’دیہات میں اقامت جمعہ کے جواز کی بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ شہر نہ تھا بلکہ چند متفرق بستیوں کا نام تھا۔ وہاں آپ نے بنو مالک بن نجار کے محلہ میں اپنی مسجد تعمیر کی اور اس قریہ والی مسجد میں نماز جمعہ ادا فرمائی جو کہ بڑی بستی نہ تھی اور نہ کوئی شہر تھا۔‘‘

بہرحال احادیث صحیحہ اور تصریحات بالا سے معلوم ہوا کہ بستی والوں پر جمعہ بالکل ایسے ہی فرض ہے جیسے کہ شہریوں پر فرض ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص530

محدث فتویٰ

تبصرے