السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل سردی کے ایام میں ظہر کی نماز ساڑھے بارہ بجے یا بعض مساجد میں پونے ایک بجے ادا کی جاتی ہے۔ لیکن جمعہ کے دن بہت تاخیر کر دی جاتی ہے۔ ڈیڑھ پونے دو بجا دئیے جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں وضاحت کریں۔ نبی اکرمﷺ کا کیا معمول تھا؟ آپ جمعۃ المبارک کا خطبہ کتنا لمبا دیا کرتے تھے اور کیا آج کل کے علماء کی طرح ہر جمعہ کے دن ظہر کی نماز تاخیر سے ہی پڑھا کرتےتھے؟ (سائل: محمد عاصم رفیق ولد محمدحسن)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے طول طویل خطبات جمعہ رسول اللہﷺ کے ارشاد گرامی اور معمول مبارک کے خلاف ہیں۔ آپﷺ ہر جمعہ میں دو خطبے ارشاد فرماتے اور دونوں کے درمیان تھوڑا سما بیٹھتے بھی تھے۔ آپﷺ کے یہ دونوں خطبے قرأت قرآن اور وعظ ونصیحت پر مشتمل ہوتے تھے، جیسا کہ احادیث میں ہے:
عَنْ جَابِرِ بن سَمرَۃَ قَالَ کَانَتْ لِلنَّبِیِّﷺ خْطْبَاتَانِ فَجَلَسَ بَیھَھُمَا یَقْرَأُ القُرْاٰنَ وَیَذَکِّرُ الناس۔ (صحیح مسلم کتاب الجمعة ج۱ص۲۸۳)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ دو خطبے ارشاد فرماتے اور دونوں کے درمیان بیٹھا کرتے تھے قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ کرتے تھے۔‘‘
عَنْ جَابر بن سَمرۃ قَالَ کُنتُ اُصَلِّی مَع النبیﷺ فَکَانَتْ صَلوتُهُ قَصداً وَخُطبته قصدا۔ (صحیح مسلم ج۱ص۲۸۲وشرح السنة ج۲ص۵۷۷)
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نماز جمعہ نبیﷺ کی اقتدار میں پڑھتا تھا، آپﷺ کی نماز جمعہ اور خطبہ دونوں درمیانے ہوتے تھے۔
عن عمار قال سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ، وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ (صحیح مسلم ج۱ص۲۸۲ وشرح السنة ج۲ص۵۵۸)
حضرت عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قدرے لمبی نماز اور قدرے مختصر خطبہ خطیب کی فقاہت کی علامت ہے قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَيَكُونُ كَلامُهُ قَصِيرًا بَلِيغًا جَامِعًا، وَأَقَلُّ مَا يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ الْخُطْبَةِ أَنْ يَحْمَدَ اللَّهَ، وَيُصَلِّيَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُوصِيَ بِتَقْوَى اللَّهِ وهَذِهِ الْخَمْسَة لَا تَصِحُّ جُمُعَتُهُ عِنْدَ الشَّافِعِيِّ۔ (شرح السنة ج۲ص۵۷۸ ونحوہ فی النواوی ج۱ص۲۸۴)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خطبہ جمعہ میں رسول اللہﷺ گفتگو مختصر مگر دلوں میں اتر جانے والی اور جامع ہوتی تھی اور فرماتے ہیں کہ خطبہ جمعہ میں یہ تین باتیں فرض ہیں (۱) اللہ سبحانہ وتعالیی کی حمدوثنا (۲) رسول اللہﷺ پر درودوسلام اور (۳)تقویٰ اللہ کی وصیت یہ تینوں دونوں خطبوں فرض ہیں پہلے خطبہ میں قرآن کی کسی ایک آیت کی تلاوت اور دوسرے خطبہ میں مومنوں کے حق میں دعا واجب ہے، اگر کوئی ان پانچوں باتوں میں سے کسی ایک بات کو ترک کرے گا تو اس کا جمعہ صحیح نہ ہوگا۔ ان تصریحات کے پیش نظر حتی الوسع خطیب پر اسوہ حسنہ اور آپ کے معمول مبارک کی پابندی ضروری ہے زور خطابت میں اسوہ حسنہ کی خلاف ورزی سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ فلاح وفوراً اطاعت رسولﷺ میں ہے زور خطابت میں نہیں۔ توفیق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب