السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سفر میں قضا شدہ نماز حضر میں پوری پڑھی جائے گی یا قصر؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي قِصَّةِ نَوْمِهِمْ عَنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ قَالَ: ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ فَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ۔ (رواہ احمد ومسلم، نیل الاوطار:ص۳۱ج۲)
’’حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں نیند کی وجہ سے ہماری صبح کی نماز قضا ہو گئی (سورج طلوع ہونے کے بعد) حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر رسول اللہﷺ نے صبح کی سنتیں پڑھیں، پھر فرض پڑھے اور آپ نے یہ قضا شدہ نماز ایسے ہی پڑھی جیسے ہر روز پڑھتے تھے۔
شوکانی فرماتے ہیں:
فيه أستحباب قضاء السنة الرائبة۔
’’اس حدیث کے مطابق سنن رواتب کی قضا مستحب ہے۔‘‘
بہر حال راقم کے نزدیک اگر سنن کی قضا نہ بھی کی جائے تو جائز ہے، تاہم سنن رواتب کی قضاء مستحب ہے، جیسا کہ ان دونوں حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب