سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(169) سنتوں کی قضا

  • 14273
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1412

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قضا نماز کتنی پڑھی جائے؟ کیا سنتوں کی بھی قضا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہوکہ سنتوں کی قضا مشروع اور جائز بلکہ افضل ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ۔

رواہ الترمذی وقال حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ. وأخرجه ابن ھبان فی صحیحه والحاکم فی المستدرک وقال حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ والدار قطنی والبیھقی۔ (نیل الاوطار: ص۲۸،۲۹ج۳)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص فجر کی سنتیں  ادا نہ کر سکے، وہ سورج چڑھنے کے بعد پڑھ لے۔‘‘

امام شوکانی فرماتے ہیں:

الحدیث لا یدل صریحا علی أن من ترکھا قبل صلوة الصبح لا یفعلھا الا بعد طلوع الشمس ولیس فیه الا الأمر لمن لم یصلھما مطلقا۔ ان یصلیھا بعد طلوع الشمس۔ (نیل الاوطار: ص۲۹)

اس حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ جو شخص صبح کی سنتوں کو صبح کے فرضوں سے پہلے نہ پڑھ سکے وہ ان سنتوں کو طلوع شمس سے پہلے نہ پڑھے۔ حدیث میں مطلق نہ چڑھنے کا ذکر ہے یعنی خواہ فرضوں سے پہلے یا فرضوں کے بعد طلوع شمس سے پہلے نہ پڑھ سکے وہ طلوع شمس کے بعد پڑھ لے۔

ابن حزم واستدل بعموم قوله   مشروعية قضاء

وَفِي الْحَدِيثِ مَشْرُوعِيَّةُ قَضَاءِ النَّوَافِلِ الرَّاتِبَةِ، وَظَاهِرُهُ سَوَاءٌ فَاتَتْ لِعُذْرٍ، أَوْ لِغَيْرِ عُذْرٍ

وَقَدْ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي ذَلِكَ عَلَى أَقْوَالٍ أَحَدُهَا: اسْتِحْبَابُ قَضَائِهَا مُطْلَقًا، سَوَاءٌ كَانَ الْفَوْتُ لِعُذْرٍ أَوْ لِغَيْرِ عُذْرٍ؛ لِأَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَطْلَقَ الْأَمْرَ، بِالْقَضَاءِ وَلَمْ يُقَيِّدْهُ بِالْعُذْرِ. وَقَدْ ذَهَبَ إلَى ذَلِكَ مِنْ الصَّحَابَةِ عَبْدُ اللَّه بْنُ عُمَرَ. وَمِنْ التَّابِعِينَ عَطَاءٌ وَطَاوُسٌ وَالْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ

وَمِنْ الْأَئِمَّةِ ابْنُ جُرَيْجٍ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَالشَّافِعِيُّ فِي الْجَدِيدِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ وَالْمُزَنِيِّ. وَالْقَوْلُ الثَّانِي: إنَّهَا لَا تُقْضَى، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ وَأَبِي يُوسُفَ فِي أَشْهَرِ الرِّوَايَتَيْنِ عَنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ فِي الْقَدِيمِ، وَرِوَايَةٌ عَنْ أَحْمَدَ،، وَالْمَشْهُورُ عَنْ مَالِكٍ قَضَاءُ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ

وَالْقَوْلُ الثَّالِثُ: التَّفْرِقَةُ بَيْنَ مَا هُوَ مُسْتَقِلٌّ بِنَفْسِهِ۔ كَالْعِيدِ وَالضُّحَى فَيُقْضَى، وَبَيْنَ مَا هُوَ تَابِعٌ لِغَيْرِهِ كَرَوَاتِبِ الْفَرَائِضِ فَلَا يُقْضَى، وَهُوَ أَحَدُ الْأَقْوَالِ عَنْ الشَّافِعِيِّ

وَالْقَوْلُ الرَّابِعُ: إنْ شَاءَ قَضَاهَا، وَإِنْ شَاءَ لَمْ يَقْضِهَا عَلَى التَّخْيِيرِ، وَهُوَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَصْحَابِ الرَّأْيِ وَمَالِكٍ، وَالْقَوْلُ الْخَامِسُ: التَّفْرِقَةُ بَيْنَ التَّرْكِ لِعُذْرِ نَوْمٍ أَوْ نِسْيَانٍ فَيُقْضَى، أَوْ لِغَيْرِ عُذْرٍ فَلَا يُقْضَى، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ حَزْمٍ، وَاسْتَدَلَّ بِعُمُومِ قَوْلِهِ: " مَنْ نَامَ عَنْ صَلَاتِهِ " الْحَدِيثَ. وَأَجَابَ الْجُمْهُورُ: أَنَّ قَضَاءَ التَّارِكِ لَهَا تَعَمُّدًا مِنْ بَابِ الْأَوْلَى۔ (نیل الاوطار: ص۳۰ج۳، المخلی ابن حزم ج۲ص۲۳۵)

کہ اس حدیث کے مطابق سنن رواتب(موکدہ) کسی عذر یا بلا کسی عذر کے رہ جائیں تو ان کی قضا مشروع اور جائز ہے اور اس مسئلہ میں علماء کے متعدد (پانچ) اقوال ہیں۔ اور پہلا قول یہ ہےکہ سنن رواتب کی قضا مستحب ہے، خواہ کسی عذر سے رہ گئی ہوں یا بلا عذر رہ گئی ہوں۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس حدیث میں سنن کی قضا کو کسی عذر کے ساتھ مقید نہیں فرمایا بلکہ مطلق قضا کا حکم فرمایا ہے:

دوسرا قول: قضا نہ کرے ابو حنیفہ مالک اور قول قدیم کے مطابق امام شافعی کا یہی مذہب ہے ایک روایت کے مطابق امام احمد بھی یہی کہتے ہیں، تاہم مشہورقول کے مطابق امام مالک صبح کی سنتوں کی قضا کے قائل ہیں۔

تیسرا قول: یہ ہے کہ عیدین کی نماز کی قضا دینا ضروری ہے سنن رواتب (موکدہ) کی نہیں۔ یہ امام شافعی کا قول ہے۔

چوتھا قول: یہ ہے کہ قضا اور عدم قضا میں دونوں جائز ہیں امام مالک اور اصحاب رائے اسی کے قاتل ہیں۔

پانچواں قول: یہ ہے کہ اگر عذر اور بھول کی وجہ سے سنن رواتب نہ چڑھ سکے تو ان کی قضا ہے اور اگر جان بوجھ کر چھوڑ دے تو پھر قضا نہیں۔ مگر جمہور علماء کہتے کہ جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی سنن موکدہ کی قضاء اور بھی زیادہ ضروری ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص520

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ