سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(229) مسجد کا مال ضرورت کے لیے دوسری جگہ استعمال کرنا

  • 1427
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1243

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد کی عمارت گر جائےتو کیااس مسجد کا سامان اور زمین کسی دوسری جگہ ضرورت کے لیےاستعمال ہوسکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مسجد وقف کی قسم سے ہے اور وقف عقد لازم ہے یہ فسخ نہیں ہوسکتی۔ حدیث میں ہے: «لا یباع اصلها ولا یوهب ولا یورث »یعنی وقف نہ فروخت ہوسکتی ہے نہ ہبہ کی  جاسکتی ہے او رنہ وراثت میں لی جاسکتی ہے۔ اس بناء پر مسجد کی عمارت خواہ بالکل خراب ہوجائے وہ چٹیل میدان وقف ہی رہے گا۔ لیکن اب دیکھنا چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھانے کی صورت کیا ہے۔ اگر مسجد کی صورت میں اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے تو یہ اوّل نمبر ہے۔ اگر وہاں مسجد بننےکی کوئی صورت نہیں مثلاً وہ کسی وجہ سے مسجد کے قابل نہیں رہی یا اس کو بنانے کے لیے پیسوں کا انتظام ہونا مشکل ہے اور نما زکے لیے دوسری مسجد موجود ہے یا کوئی اور وجہ ہے تو اس مسجد کو کسی اور وقف میں تبدیل کردیا جائے جس سےدوسری مسجد کو فائدہ پہنچے مثلاً یہ جگہ کرایہ پر یا ٹھیکہ پر دے دی جائے یا اس میں کھیتی کی جائے یا کوئی شخص اپنے پیسوں سے یہاں دکان یا مکان بنائے اور اس کے کرایہ سے اپنا قرض پوراکرکے اس کو چھوڑ دے یا کرایہ ادا کرتا رہے۔

اگر وقف رہنے کی صورت میں دوسری مسجد کو فائدہ نہیں تو پھر فروخت کرکے اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کردی جائے ۔ اگر دوسری مسجد پر ضرورت نہ ہو تو درس و تدریس یا کسی او رنیک مصرف میں لگا دی جائے بہر صورت جو شے خدا کی ہوچکی حتی الوسع کسی نہ کسی طرح اس کو اسی راہ میں صرف کرنا چاہیے۔ ضائع نہ ہونے دے۔ اگر کوئی اور صورت نہ ہو تو قبرستان ہی سہی کیونکہ یہ بھی مسلمانوں کے عام فائدہ کی شے ہے ہاں اگرمعاملہ طاقت سے باہر ہوجائے تو جدھر جاتی ہے جانے دے۔

«منتقیٰ باب ما یصنع بفاضل مال الکعبة» میں ہے:

«عن عائشة قالت سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول لولا ان قومک حدیثو عهد بجاهلیة او قال بکفر لا نفقت کنز الکعبة فی سبیل الله ولجعلت بابها بالارض ولادخلت فیها من الحجر» (رواہ مسلم)

’’یعنی عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے اگر تیری قوم جاہلیت کے ساتھ نئے زمانے والی نہ ہوتی تو میں بیت اللہ  کا خزانہ نکال کر فی سبیل اللہ تقسیم کردیتا او ربیت اللہ کا دروازہ زمین کے ساتھ ملا دیتا او رحجر کا کچھ حصہ بیت اللہ میں داخل کردیتا۔‘‘

بیت اللہ کے خزانہ سے مراد وہ مال جو لوگ بیت اللہ کی خاطر نذر دیاکرتے تھے جیسے مساجد میں لوگ دیتے ہیں۔ یہ خزانہ بیت اللہ میں اسی طرح دفن ہے۔ رسول  اللہ ﷺ نے جب دیکھا کہ یہ بیت اللہ کی حاجت سے زائد بے کار ہے تو خیال ہوا کہ اس کو فی سبیل اللہ تقسیم کردیا جائے لیکن کفار چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔خطرہ تھا کہ کہیں وہ بدظن نہ ہوجائیں اس لیے چھوڑ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب وقف کی حالت ایسی ہوجائے کہ ضائع جاتی نظر آئے تو اس کی کوئی ایسی صورت بنانی چاہیے جس سے وہ ضائع نہ ہو۔

کشف القناع عن متن الاقناع جلد 2 صفحہ 471 میں ہے:

«واحتج الامام بان ابن مسعود رضی الله تعالیٰ عنه قدحول المسجد الجامع من التمارین ای بالکوفة۔»

’’یعنی امام محمد رحمہ اللہ علیہ نے تبدیل وقف پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے جامع مسجد کھجوروں کے  تاجروں سے بدل دی یعنی بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے۔‘‘

اور حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ شارع عام تنگ ہوگیا تو انہوں نے مسجد  کا کچھ حصہ راستہ میں ڈال دیا۔ ملاحظہ ہو فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ جلد 3 صفحہ 288  غرض اس قسم کے تصرفات اوقاف او رخیرات میں درست ہیں جن سے وہ ضائع نہ ہو بلکہ بڑھے یا محفوظ ہوجائے بلکہ حنفیہ کا بھی آخری فتویٰ اس پر ہے چنانچہ ردّ المختار جلد3 صفحہ 407 میں اس کی تصریح کی ہے او رامام محمد رحمہ اللہ علیہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وقف بیکار ہوجائے تو اس کے اصل مالک یا وارثوں کے ملک میں ہوجائے گی۔ خلاصہ یہ کہ وقف کی غرض پر مدار ہے حتی الوسع اس کو ضائع نہ ہونے دے ورنہ حوالہ خدا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

مساجد کا بیان، ج1ص322 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ