السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال نمبر1:کیا رسول کریمﷺ سے وترکی نماز میں دعائے قنوت کے لئے ہاتھ اٹھانا ثابت ہے یا نہیں؟ نیز ہاتھ اٹھانے کا صحیح طریقہ بھی بتائیں کیونکہ جماعت اہل حدیث اور حضرات احناف دونوں وتر کی دعا میں ہاتھ اٹھاتے ہیں لیکن دونوں کے طریقوں میں فرق ہے، علمائے اہل حدیث دعا کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہیں اور علمائے احناف تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ دونوں مسالک کے دلائل بھی بتائیں تو مہربانی ہو گی؟
سوال نمبر۲: نبی کریمﷺ اکثر اوقات نماز وتر کتنی رکعت پڑھا کرتے تھے، ایک یا تین یا پانچ وغیرہ؟ (سائل: سیدنا در شاہ، جنگل خیل کوہاٹ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولاً یہ واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی درج ذیل ایک روایت کے علاوہ کسی حدیث صحیح میں قنوت وتر رسول اللہﷺ سے فعلاً ثابت نہیں، سنن ابن ماجہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «كَانَ يُوتِرُ فَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ.وقالَ السِندِیُّ فِی حَاشِية وفِی الزوائد اسناده صحیح ورجاله ثقات۔ (سنن ابن ماجه: ص۲۵۹ ج۱ طبع مصر)
’’رسول اللہﷺ وتروں میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہﷺ سے دعائے قنوت کرنے کا ذکر تو ہے، لیکن تمام محققین اہل علم کے نزدیک رسول اللہﷺ سے دعائے قنوت کے متعلق جو کچھ ثابت ہے وہ صبح کے نماز سے تعلق رکھتا ہے، وتر کی نماز سے نہیں۔ امام ابو طاہر مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادیؒ لکھتے ہیں:
لن یرد فی الصحیح انه صلی اللہ عليه واله وسلم قرأالقنوت فی صلاة الوتر أصلا۔ قال الامام احمد کل ما ثبت فی القنوت فمجموعة فی صلوة الصبح ولم یثبت فی الوتر اصلا بل لم یرو لکن جماعة من الصحابة کانو یقرؤن القنوت فی صلوة الوتر لحدیث مسند الامام احمد عن الحسن بن علی رضی اللہ عنہ قال علمنی رسول اللہ ﷺ کلمات أقولھن فی قنوت الوتر ’’اللھم اھدنی فیمن ھدیت۔۔۔ الخ‘‘۔ (سفر السعادة: ص۳۷)
’’صحیح احادیث کے مطابق نماز وتر میں رسول اللہﷺ سے دعائے قنوت کا ثبوت بہم نہیں پہنچتا۔ ہاں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتروں میں اس حدیث کی رو سے دعائے قنوت پڑھا کرتے تھے جس میں آتا ہے کہ آپﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو أَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ھَدَیْت الخ۔ وتروں میں پڑھنے کے لئے سکھائی تھی۔‘‘
شیخ عبدالحقؒ نے شرح سِفرالسعادۃ میں جو اس پر لکھا ہے وہ قابل غور اور تحقیق کے قریب ہے۔(ع،ح)
ثانیاً: اس دعا میں رفع یدین اس طرح ہو گی جس طرح دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ اور درج ذیل آثار صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعینؒ وغیرہ سے یہی رفع الیدین ثابت ہے:
(۱)عن الأسود أن عبداللہ بن مَسعُود کَانَ یَرفَعُ یَدَيه فِی القُنُوتِ الیٰ صدرہ۔
(۲)عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، كَانَ عُمَرُ، يَقْنُتُ بِنَا فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُخْرِجَ ضَبْعَيْهِ
(۳) کان ابو ھریرة یَرفَعُ یَدَیْيه فِی قُنُوتِه فِی شَھرِ رَمَضَانَ۔
(۴) عن أبی قلابة وَمَکْحُول انّ۔ھُما کَانَا یَرفَعَانِ أیدِیھِمَا فِی قُنُوتِ رَمَضَان۔ (قیام اللیل مروزی: ص۱۳۴۔ تحفة الأحوذی: ص۳۴۳ج۱)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابو قلابہ اور امام مکحولؒ دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ یہ رفع الیدین وہ ہے جو دعا کے آداب میں سے ہے تکبیر تحریمہ کی طرح یہ رفع الیدین نہیں، جیسا کہ حنفیہ کرتے ہیں کیونکہ قنوت دعا ہے۔ چنانچہ محدث عبدالرحمان مبارک پوریؒ لکھتے ہیں۔:
الظَّاهِرُ مِنْهَا ثُبُوتُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ كَرَفْعِهِمَا فِي الدُّعَاءِ۔ (تحفة الأحوذی شرح ترمذی: ۳۴۳ج۱)
مشہور حنفی محدث امام طحاویؒ کے کلام سے بھی قنوت میں دعا کی طرح ہاتھ اٹھانے کا ثبوت مہیا ہوتا ہے۔ چنانچہ مختصر طحاوی میں ہے:
وَقَد کَانَ فی اٰخِرِ عُمُرِہِ رای رفع الیدین فِی الدُعاء فی الوتر۔ (ص ۲۸ طبع مصر)
’’امام ابو یوسف آخری عمر میں دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘
غرض کہ دعائے قنوت میں اگر ہاتھ اٹھارے جائیں تو اسی طرح جو آداب دعا سے ہے، تاہم سینہ کے اوپر وہ بھی نہیں ہونے چاہئیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ قنوت میں رفع الیدین فعلاً اور مرفوعاً صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ اس کی بنا عموم احادیث پر استدلال ہے اور آثار پر صراحت ہے۔ واللہ اعلم
جواب نمبر ۲: صحیح احادیث کے مطابق ۱۱،۹،۷،۵،۳،۱،اور۱۳ رکعت وتر ثابت ہیں۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
قُلتُ فِی قَول أَکثَرِھِم أقلُّ الوِترِ رَکعَة وَأکثرُہُ اِحدی عشرة أو ثلث وما زاد فھو أفضل وعند الحنفیة الوتر ثلاث لا یزید ولا ینقص۔ (مسوی برحاشیه مصفی: ص۱۲۷)
باقی رہی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث :
قَالَ قَالَ رَسُول اللہﷺ لا توتروا بثَلاثٍ لا تشبھُوا بالمَغربِ وَلٰکن أوترُوا بکمس أو بسبع بتسع أو باحدی عشرة أو أکثر من ذلک۔ قال العراقی اسنادہ صحیح۔ (نیل الأوطار: ص۴۱ج۳ باب الوتر برکعة وبثلاث (وخمس وسبع وتسع)
تو اس مطلب ہے کہ ایک سلام کے ساتھ تین رکعت وتر پڑھ کر مغرب کے فرضوں کے ساتھ مشابہت پیدا نہ کرو۔ رسول اللہﷺ کے طرز عمل کا ذکر اس حدیث میں رہے۔ جو بروایت سعد بن ہشام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ وَهُوَ قَاعد فَتلك إِحْدَى عشرَة رَكْعَة يابني فَلَمَّا أَسَنَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَنَعَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِثْلَ صَنِيعِهِ فِي الْأُولَى فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ۔ (مشکوة المصابیح: ۱۱۱ ج۱ باب الوتر)
’’سعد کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جناب رسول اللہﷺ کتنی رکعت پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ رات کو گیارہ رکعت وتر پڑھتے جب آپ بوڑھے ہو گئے تو آپ نو رکعت پڑھنے لگے ان گیارہ رکعتوں میں دس رکعت نفل ہوتے اور ایک رکعت وتر ہوتا تھا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب