السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وتر پڑھنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟ مثلاً یہاں پر کوئی ایک وتر پڑھتا ہے، کوئی دو اور کوئی تین اکٹھے بھی پڑھتا ہے، مغرب کی نماز کی طرح۔ اگر تین وتر اکٹھے پڑھنے ہوں تو سنت طریقہ کیا ہے؟ (سائل: خادم حسین پردیسی جدہ سعودی عرب)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں واضح ہو کر نماز وتر کے کئی ایک پہلوؤں میں اختلاف ہے: مثلاً (۱) ان کی کل رکعتیں کتنی ہیں؟ (۲) ان میں سے کون سی تعداد رکعات زیادہ محبوب ہے؟ (۳) فرض ہیں یا نفل؟ (۴) ان کی قضا ہے یا نہیں؟ (۵) مکرر پڑھے جا سکتے ہیں؟ (۶) وتروں کے بعد نوافل ہو سکتے ہیں یا نہیں؟(۷) ان کے لئے بہتر وقت کون سا ہے؟ (۸) سواری پر نماز وتر جائز ہے یا نہیں؟ (۹) اس نماز کی رکعتوں میں کون سی سورتیں پڑھنا مسنون ہیں؟ (۱۰) رسول اللہﷺ نے کن اوقات میں یہ نماز پڑھی تھی؟ (۱۱) اس طرح اس امر کا بھی اختلاف ہے کہ وتر کی تین رکعتیں جائز ہیں یا نہیں۔ اگر جائز ہیں تو اکٹھی پڑھنی چاہئیں یا جدا کر کے یعنی دو سلاموں کے ساتھ دو اکٹھی اور تیسری علیحدہ۔ اکٹھی پڑھنے کی صورت میں درمیانی التحیات پڑھنی ہو گی یا نہیں۔ اگر مؤخر الذکر تینوں باتوں کو سمجھ لیا جائے تو مسئلہ نہایت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ سکتا ہے۔ مختصر جواب یہ ہے کہ نماز وتر تین رکعتیں ہی ہیں۔ موصولاً بھی جائز ہیں اور متفصلاً بھی جائز ہیں اور صرف ایک وتر پر اکتفا بھی جائز ہے کہ یہ بھی سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے۔
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ، (نسائی ج۱ص۲۰۱)
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘
لیکن اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کا یہ فرمان بھی ہے:
لا توتِرُوْا بِثَلاثِ أَوتروا بِخَمسٍ أو سبع لَا تَشبَّھُوْا بِصَلوۃِ الْمَغرب۔
أخرجه الدار قطنی وتواته کلھم ثقات واخرج محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل (ص۱۲۵) من طریق عراك بن مالك عن ابی ھریرة مرفوعا وموقوفا لا توتروابثلاث تشبھوق بصلوة المغرب صححه الحاکم وابن حبان وااعراقی وسکت عليه الحافظ ابن حجر۔ (فتح الباری س۵۳۹ ونیل الاوطار س۲۸۱ج۶ وقال الھاکم ھذاصحیح علی شرط الشیخین واخرج اتضا محد الدین الغیروز آبادی فی سفر السعادة واشار إلی محته الحافظ ابن القیم فی اعلام الموقعین۔)
’’تین وتر نہ پڑھو، پانچ یا سات پڑھو۔ نماز مغرب سے مشابہ نہ کرہ۔‘‘
یہ حدیث بحثیت مجموعی صحیح ہے۔ بہت سے محققین نے اس کی صحت کی تائید کی ہے۔ چونکہ بظاہر پہلی روایت اور اس روایت میں تعارض دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا محدثین کرام نے اس میں اس طرح تظبیق دی ہے کہ تعارض اٹھ گیا ہے۔ اس حدیث کو بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے رسول اللہﷺ نے صرف مشابہت نماز مغرب سے منع فرمایا ہے۔ پس ایسی صورت میں کہ جس سے مشابہت نہ رہے نہی وارد نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ اگر درمایانی التحیات نہ پڑھی جائے اور صرف ایک ہی تشہد پر اکتفا کیا جائے تو پھر نماز مغرب سے مشابہت نہیں رہتی اور یہی دونوں طرف کی روایات کا مطلب ہے ان کی تظبیق کے الفاظ یہ ہیں:
أَنَّ النَّهْيَ عَنِ الثَّلَاثِ إِذَا كَانَ يَقْعُدُ لِلتَّشَهُّدِ الْأَوْسَطِ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ الْمَغْرِبَ وَأَمَّا إِذَا لَمْ يَقْعُدْ إِلَّا فِي آخِرِهَا فَلَا يُشْبِهُ الْمَغْرِبَ وھو جمع حسن۔ (سبل السلام: ج۲ص۷)
’’جب تین وتر دو تشہد سے پڑھے جائیں اس وقت تین رکعت وتر منع ہے۔ (اور یہی مطلب حدیث دار قطنی وغیرہ کا ہے)اور جب ایک ہی تشہد سے پڑھے جائیں اس وقت کوئی حرج نہیں اور یہی روایات ثابتہ کا مطلب ہے۔‘‘
شیخ الاسلام حافظ ابن حجرؒ کی اس تقریر کی تائید میں ایک مرفوع حدیث بھی موجود ہے جس میں تصریح ہے کہ رسول اللہﷺ کی تین رکعت وتر کی نماز ایک تشہد (یعنی آخری تشہد) سے ہوا کرتی تھی۔ (فتح الباری: جلد ۱ ص۵۳۶)
امام محمد بن اسماعیل الامیرارقام فرماتے ہیں:
قد أیده حدیث عائشة عند أحمد والنسائی وانبیھقی والحاکم کان رسول اللہﷺ یوتر بثلاث لا یجلس الا فی اخرھن ولفظ احمد کان یوتر بثلاث لا یفصل بینھن ولفظ الحاکم لا یقعد۔ (سبل السلام: ج۲ص۷ واوردة الفرقانی فی شرح المواھب اللدنیة وصاحب السبل فی حاشية زاد المعاد۔ (فتاوی نذیريه: جص۵۳۵) وبالجماعة ھذہ القرآن تدل علی کون ھذہ الروایة فی النسخ الصحیھة للمستدرك واللہ تعالیٰ اعلم قالہ الشیخ عطاء اللہ البوجانیؒ)
یعنی رسول اللہﷺ تین رکعت وتر صرف ایک ہی تشہد (التحیات) سے پڑھا کرتے تھے۔ اور درمیانی تشہد میں نہیں بیٹھتے تھے۔
تین رکعت وتر کو ایک ہی تشہد سے پڑھنے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ بعض صحابہ جن سے تین رکعت وتر کی نہی ثابت ہے، خود رسول اللہﷺ سے تین رکعت وتر کے راوی ہیں۔ جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے لئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم (ج۱ص۲۵۴)
قَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا» (صحیح مسلم ج۱ ص ۲۰۴)
کہ آپﷺ رمضان اور غیر رمضان میں چار چار رکعت خوبصورت طویل قرأت کے ساتھ پڑھ کر تین رکعت پڑھتے تھے۔
تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایسی تین رکعت سے منع کیا ہے جو نماز مغرب کے مشابہ ہو۔ اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر سے بھی ہوتی ہے۔ جو محلیٰ ابن حزم میں ہے:
عَنْ ابنِ عبَّاس أنَّه قَالَ الوِترُ کصَلوة المغْرِبِ اِلَّا انه لا یقعد الا فِی الثَّالِثَة۔ (ج۳ص۴۶)
بہت سارے سلف سے بھی بالتصریح مروی ہے کہ وہ تین رکعت وتر ایک ہی تشہد سے ادا فرمایا کرتے تھے۔
۱۔ الامام شمس الحق ارقام فرماتے ہیں:
قَدْ فَعَلَهُ السَّلَفُ أَيْضًا فَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ مِنْ طَرِيقِ الْحَسَنِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَنْهَضُ فِي الثَّالِثَةِ مِنَ الْوِتْرِ بِالتَّكْبِيرِ يَعْنِي إِذَا قَامَ مِنْ سُجُودِهِ الرَّكْعَةَ الثَّانِيَةَ قَامَ مُكَبِّرًا مِنْ غَيْرِ جُلُوسٍ لِلتَّشَهُّدِ۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وتروں میں دوسری رکعت سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہ کر سیدھے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور تشہد کے لئے نہیں بیٹھتے تھے۔‘‘
۲۔ حضرت طاؤس بن کیسان عطاء بن ابی رباح اور ایوب وغیرہ کا بھی یہی عمل تھا۔
عَنْ طَاؤسٍ أنَّهُ کَانَ یُوترُ بثَلاثٍ لَا یَقعُد بَینھُنَّ۔ (عون المعبود: ص۵۳۵ج۱) ’’حضرت طاؤس تین وتر پڑھا کرتے تھے اور درمیانی التحیات نہیں بیٹھتے تھے۔‘‘
۳۔ وعن عطاء انه کان یوتر بثلاث رکعات لا یجلس فیھن ولا یشھد الا فی اخرھن۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)
۴۔ وقال حماد کان أیوب یصلی بنا فی رمضان وکان یوتر بثلاث لا یجلس الا فی اخرھن۔ (عون المعبود: ج۱ص۵۳۵)
’’حماد کہتے ہیں کہ حضرت ایوب رضی اللہ عنہ ہمیں رمضان میں وتر کی نماز پڑھایا کرتے تھے اور تین رکعت وتر میں درمیان کا التحیات نہیں بیٹھے تھے۔‘‘
حضرت مولانا عطاء اللہ بھوجیانیؒ ارقام فرماتے ہیں:
’’ہاں اگر دو تشہد سے تین وتر پڑھے جائیں تو دو سلام سے۔ چنانچہ بعض محدثین نے مذکورہ بالا احادیث مین یوں بھی تطبیق دی ہے۔ امام محمد بن نصر مروزی جو امام احمد کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں ان کا عندیہ بھی یہی ہے۔ ان کے نزدیک متصل تین رکعت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچیں۔‘‘
قیام اللیل میں ہے:
لَمْ نَجِدْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرًا ثَابِتًا صَرِيحًا أَنَّهُ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ مَوْصُولَةٍ۔ (نیل الأوطار: ج۳ص۳۶)
اور اکثر شوافع نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں:
وَإِذَا أَرَادَ الْإِتْيَانَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ فَفِي الْأَفْضَلِ أَوْجُهٌ الصَّحِيحُ أَنَّ الْأَفْضَلَ أَنْ يُصَلِّيَهَا مَفْصُولَةً بِسَلَامَيْنِ لِكَثْرَةِ الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ فِيهِ وَاليه ذَھَبَ الاِمامُ احمد۔
’’جب تین رکعت کا ارادہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ دو سلام ہوں، اس لئے کہ بہت سی صحیح حدیثیں اسی طرح کی ہیں۔‘‘
اس کی دلیل میں حسب ذیل دو حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔
۱۔ عن ابن عمر قال: "كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يفصل بين الوتر والشفع بتسليمة ويسمعناها"
رواہ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ السَّكَنِ فِي صَحِيحَيْهِمَا وَالطَّبَرَانِيُّ مِنْ حَدِيثِ إبْرَاهِيمَ الصَّائِغِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهِ وَقَوَّاهُ أَحْمَدُ۔ (تلخیص الحبیر: ج۲ص۱۶)
’’حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ وتر اور اس کے قبل کی دو رکعتوں کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کر لیا کرتے تھے۔‘‘
۲۔ عَن عَائشة قالت کَانَ رسول اللہﷺ فِی الْحُجرۃِ وَأنَا فِی البَیتِ ینفصِلُ عَن الشَّفعِ والوِترِ بِتَسلیم یسمعنا۔ (أخرجه احمد وفيه انقطاع لکن یکفی للتائد۔)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ حجرہ میں نماز پڑھتے تھے اور میں گھر میں ہوتی، آپ وتر اور پہلی دو رکعتوں میں فاصلہ کرتے تھے۔ سلام کے ساتھ اور اپنا سلام ہمیں سناتے۔‘‘ (فتاوی علمائے حدیث: ۱۹۲)
میں کہتا ہوں بعض صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں۔ امام ترمذیؒ اپنی جامع میں تصریح فرماتے ہیں:
وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ: رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ۔ (جامع ترمذی مع التحفة الاحوذی)
’’بعض صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور تیسری رکعت الگ پڑھے۔ امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔‘‘
علامہ ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں:
القول الفيصل في هذا المقام أن الأمر في ما بين الصحابة مختلف، فمنهم من كان يكتفي على الركعة الواحدة، ومنهم من كان يصلّي ثلاثاً بتسليمتين، ومنهم من كان يصلي ثلاثاً بتسليمة، والأخبار المرفوعة أيضاً مختلفة بعضها شاهدة للاكتفاء بالواحدة، وبعضها بالثلاث، والكل ثابت، لكن أصحابنا قد ترجَّحت عندهم روايات الثلاث بتسليمة بوجوه لاحت لهم، فاختاروه وحملوا المجمَل على المفصل.
’’قول فیصل اس مقام میں یہ ہے کہ اس امر میں صحابہ مختلف ہیں، بعض تو صرف ایک ہی رکعت پر اکتفا کرتے تھے۔ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین رکعت دو سلام سے پڑھتے تھے اور کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے اور مرفوع حدیثیں بھی اس مسئلہ میں مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ سب طریقے جائز اور ثابت ہیں لیکن ہمارے حنفی علماء نے بعض وجوہ جو ان کے پیش نظر ہیں کی وجہ سے وہ تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کو راجھ کہتے ہیں اور مجمل روایات کو مفصل روایات پر محمول کرتے ہیں۔‘‘
مگر حضرت علامہ ابوالحسنات کا یہ فرمان کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک تین رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا راجح ہے، ازروئے احادیث صحیحہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ ہم پہلے لکھ آئے کہ حضرت امام محمد بن نصر مروزی جو کہ امام احمد کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں:
لم نجد عن النبیﷺ خبراثابتا سریحا أنه أوتر بثلاث موصولة قال نعم ثبت عنه أنه اوتر بثلاث لکن لم یبین الراوی ھل ھی موصولة أو مفصوله۔
’’ہم رسول اللہﷺ کی ایسی صحیح اور صریح حدیث نہیں پاتے کہ جس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہو کہ رسول اللہﷺ نے تین رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھے ہوں۔‘‘
اگرچہ حافظ عراقی نے امام محمد بن نصر کا تعاقب کیا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک ان کا تعاقب کوئی درخواعتناء نہیں۔ نفس جواز اور چیز ہے۔ بحث افضل اور غیر افضل میں ہے اور احادیث صحیحہ صریحہ کے مطابق افضل یہی ہے کہ تین رکعت وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھے جائیں یا پھر علی الاقل تین رکعت وتر ایک تشہد (التحیات) کے ساتھ پڑھے جائیں تا کہ نماز مغرب کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔
ہمارے الشیخ محترم حافظ محمد محدث گوندلویؒ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے تین وتر دو طرح آئے ہیں: ایک اس طرح کہ درمیانی تشہد نہ بیٹھے اور آخر میں سلام پھیرے۔ جیسا کہ فتح الباری میں ہے مستدرک حاکم کی روایت کے نیچے علامہ ذہبیؒ نے لکھ ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ دو رکعت ادا کر کے سلام پھیر کر تیسری رکعت الگ پڑھے۔ جیسا کہ فتح الباری میں ہے اور یہی بہتر ہے۔ کیونکہ ایک حدیث میں تین رکعت پڑھنے کی ممانعت آئی ہے۔ جیسا کہ فتح الباری میں ہے اس حدیث کا صحیح مطلب یہی ہے کہ ایک سلام سے تین رکعت نہ پڑھے۔ (فتاوی علمائے حدیث: ج۳ص۱۹۳)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب