السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں رمضان شریف کے آخری عشرے کی طاق راتوں لیلۃ القدر کا ثواب حاصل کرنے کا طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ڈھولک بجایا جاتا ہے، پھر ایک قاری صاحب تشریف لاتے ہیں دو رکعت پڑھا کر چلے جاتے ہیں، پھر دوسرے قاری صاحب دو رکعت پڑھاتے ہیں، رکعات تراویح مع وتر پڑھاتے ہیں، رکعات تراویح مع وتر پڑھانے والے متعدد امام ہوتے ہیں۔ ہر دو رکعت یا چار رکعات پڑھانے کے بعد وعظ وتقریر کا سلسلہ بھی خوب ہوتا ہے۔ نیز مذکورہ بالا وقتوں کے درمیان کھانے پینے کا جشن بھی ہوتا ہے۔ جس پر ہزاروں روپے خرچ کئے جاتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رمضان المبارک کی طاق راتوں میں قیام اور توبہ استغفار بلا شبہ حصول مغفرت اور بلندی درجات کا موجب ہے۔ رسول اللہﷺ ان راتوں میں نہ صرف خود پہلے سے زیادہ مستعد ہو کر عبادت کیا کرتے تھے، بلکہ اپنی ازواج مطہرات کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ شَدَّ مِیزَرَهُ وَاَیقَظَ اَھْلَهُ کے الفاظ اسی مستعدی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، مگر اعلان (ڈھولک وغیرہ) اور اشتہار بازی کے ساتھ لوگوں کو مسجد میں اکٹھا کرنے کا اہتمام قطعاً ثابت نہیں۔ ڈھولک تو شریعت میں ویسے ناجائز ہے اس کی بات تو الگ رہی۔ مشاہدہ یہی ہے کہ مساجد میں مردوزن اور بچوں کے اکتلاط میں عبادت کی روح اور اس کے آثاروثمرات بالکل حاصل نہیں ہوتے اور سوائے بیداری کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لہٰذا سلامتی کی راہ صرف یہ ہے کہ ان راتوں کی برکات سمیٹنے کے لئے اشتہار بازی اور کھانے کے لالچ کے بغیر پوری سادگی اور علیحدگی میں عبادت کی جائے نوافل پڑھے جائیں۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تَحِبُّ الْعفْوَ فَاعْفُ عَنِّی کا وظیفہ کثرت سے پڑھا جائے، تاہم قرآن کی تلاوت کرنا سب سے افضل عمل ہے۔ بہر حال مروجہ تکلفات شدہ شدہ سنت کا روپ دھار لیں گے اور یوں ہم تحریف دین کے مرتکب ہو کر اپنی عاقبت برباد کر لیں گے۔ اگر یہ اہتمامات اور تکلفات شرعاً مستحسن ہوتے تو ہمارے گرامی قدر اسلاف ان سے قطعاً غافل نہ رہتے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب