سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(145) نماز ترازيح كے متعلق مغالطے اور ان کی اصلاح

  • 14249
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 3945

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز تراویح کے متعلق  سید عنائت اللہ شاہ بخاری حنفی عالم کے چند مغالطے 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تقلید شخصی اور جمود مذہبی کا برا ہو۔ یہ دونوں جب بڑوں بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں تو ان کو فکر و نظر، عقل شعور، اور خاص کر صحیح فہم حدیث اور جذبہ اتباع سنت سے محروم کر دیتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ تقلید شخصی کا مریض اور جمود مذہبی کا علمبردار نصوص قرآنیہ اور احادیث صحیحہ محکمہ کو منسوخ تک کہہ دیتا ہے۔ ملاحضہ ہو اصول کرخی (اصول 18، 29، ص373) یہ رساکی اصول فقہ حنفی کی مشہور کتاب اصول بزدوی کے آخر میں ملحق ہے۔ جبھی تو کہنے والے نے کتنی پیاری بات کہی ہے:

فأهرب عن التقليد فهو ضلالةٌ أن المقلد في سبيل الهالك

یہ حادثہ محترم جناب سید عنایت اللہ شاہ بخاری حنفی آف گجرات کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔ چنانچہ آپ نے یکم ستمبر ٍ1978 کو رمضان المبارک کے ایک خطبہ جمعہ میں مسئلہ تراویح پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا:

1۔ اکابر علمائے اہل حدیث بیس رکعت تراویح کو سنت کہتے آئے ہیں۔

2۔ آٹھ رکعت تراویح کی بدعت 1284ھ میں شہر اکبر آباد کے ایک غیر مقلد مولوی نے شروع کی۔ پھر 1290ھ میں مشہور غیر مقلد مولوی محمد حسین مبٹالوی نے اس بدعت کو فروغ دیا اور مولوی غلام رسول قلعہ والے نے اہل حدیث ہوتے ہوئے مولوی محمد حسین کا رد کرتے ہوئے اس کو مفتی غالی لکھا۔

3۔ جس روایت میں آٹھ رکعت منقول ہیں وہ تہجد کی نماز ہے۔ تراویح ہرگز نہیں۔

انھی پیئے تے کتی چٹے۔ (یہاں پر شاہ صاحب نے اہل حدیث کو کوڑ مغز بتاتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مقلد فہم حدیث میں اتنے کورے ہیں کہ تہجد کی رکعتوں کو تراویح کی رکعتیں سمجھ بیٹھے اور پھر یہ پھبتی کیسی ہے کہ انھی پیئے تے کتی چٹے۔)

4۔ تمام صحابہ کرام، ائمہ اربعہ اور پوری امت کا بیس رکعت تراویح پر اجماع ہے اور ایسے اجماع کے مخالف پر رب دی پھٹکار پیندی اے۔ رحمت نئیں ہندی۔ گویا شاہ صاحب کے نزدیک آٹھ رکعت کے قائلین لعنتی ہیں۔

5۔ غیر مقلد نوں دوجے بنے دی پھٹ جلدی لگ جاندی اے، چنانچہ مرزا غلام قادیانی اور مشہور منکر حدیث پرویز پہلے غیر مقلد تھے، یعنی شاہ صاحب کے نزدیک ان کی گمراہی کا واھد باعث عدم تقلید ہے۔

6۔ غیر مقلدوں کے مسائل مرزائیوں اور شیعوں کے ساتھ ملتے ہیں جیسے طلاق ثلاثہ اور آٹھ رکعت تراویح وغیرہ۔

7۔ پھر دغا یہ کہ رمضان میں تین وتر پڑھتے اور غیر رمضان میں سارا سال ایک وتر پڑھتے ہیں پھر ان کو گیارہ رکعت والی حدیث یاد نہیں رہتی۔

یہ ہیں وہ ارشادات عالیہ اور ملفوظات سامیہ جو شاہ صاھب نےا ہل حدیث کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں اور ان کی اس تقریر کی کیسٹ ہمارے ایک رفیق محترم ظہیر الدین چوہان کے پاس اب موجود اور محفوظ ہے۔

ذیل کے سطور میں شاہ صاحب حفظہ اللہ کے ان سات الزامات اور مزعومہ دعاوی پر منصفانہ تبصرہ پیش کرنے کی جسات کی گئی ہے۔

ان ارید الا الإصلاح وما توفیقی إلا با اللہ

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

1۔کوئی اہل حدیث عالم بیس کا قائل نہیں رہا:

حضرت شاہ صاحب کا یہ دعویٰ کہ فاضل اہل حدیث علماء بیس رکعت تراویح کے قائل چلے آرہے ہیں۔ ہمارے علم مطالعہ کے مطابق نہ صرف درست نہں بلکہ علمائے حدیث پر سرا سر بہتان اور تہمت ہے۔ اگر شاۃ صاحب مین اخلاقی جرات ہے تو وہ کسی ایسے اہل حدیث عالم کا نام پیش فرمادیں جو علم، مطالعہ، اور تحقیق و تفتیش کے لحاظ سہے ہمارے اکابر علمائے حدیث میں شمار ہوتا ہو اور یہ بھی بتائیں کہ ان کا یہ فتویٰ یا کتاب کب اور کہاں شائع ہوئی تھی۔

علاوہ ازیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب کو اہل حدیث مکتب فکر کی اساس تک کا بھی علم نہیں۔ اگر انہیں اس اساس کا علم ہوتا تو وہ اتنی گری ہوئی بات نہ کرتے۔ کیونکہ اہل حدیث کے نزدیک حجت صرف کتاب وسنت ہی ہیں۔ ان دونوں کے ہوتے ہوئے کسی بھی مجتہد اور امام کا کوئی اجتہاد یا استحسان اور فتویٰ قبول کرنا، ان کے اعتقاد میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے ساتھ بغاوت کے سوا کچھ نہیں          ع

اصل دیں آمد کلام معظم داشتن

پس حدیث مصطفیٰﷺ برجاں مسلم داشتن

اس لئے شاہ صاحب آئندہ کے لئے یاد رکھیں کہ اہل حدیث صرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے فرامین ہی کے پابند ہیں کسی مولوی کے نہیں ع

حدیث بادو ومینا و جام آتی نہیں مجھ کو

نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا

جواب۔ دعویٰ نمبر۲:

آٹھ رکعت تراویح بدعت نہیں سنت ثابتہ ہے اور پھر سنت بھی ایسی کہ تمام اکابر علمائے احناف کو اس کا اعتراف ہے۔ لیجئے پڑھئے مگر تقلید اور تعصب کی عینک اتار کر:

۱۔عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا۔ (صحیح بخاری: باب قیام النبیﷺ ج1ص154وکتاب الصوم ص۲۶۹۔ صحیح مسلم باب صلوۃ اللیل وعدد الرکعات ج۱ص۲۵۴وسنن اربعۃ)

’’حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ رسول اللہﷺ رمضان میں رات کو نماز (یعنی تراویح) کیسے ادا فرماتے تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہﷺ چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان کا، گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ نہایت عمدگی کے ساتھ چار رکعت ادا فرماتے، پھر اس طرح چار رکعت اور پڑھتے، پھر تین رکعت وتر ادا فرماتے۔‘‘

۲۔  عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَأَوْتَرَ , فَلَمَّا كَانَتِ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ , فَلَمْ نَزَلْ فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا , ثُمَّ دَخَلْنَا , فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , اجْتَمَعْنَا الْبَارِحَةَ فِي الْمَسْجِدِ , وَرَجَوْنَا أَنْ تُصَلِّيَ بِنَا , فَقَالَ: إِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ۔ (رواہ ابن حبان وابن خذیمۃ فی صحیحھا والطبرانی فی الصغیر (ص۱۰۸) ومحمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل (ص۱۵۵طبع سانگلہ ھل) وقال الحافظ الذھبی بعد ماذکر ھذاالحدیث اسنادہ وسطہ میزان الاعتدال ج۲ص۲۸۰وفتح الباری ج۳ص۱۲)

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہم لوگوں کو رمضان کے مہینہ میں (تراویح کی نماز) آٹھ رکعت پڑھائیں، بعد میں وتر پڑھے۔ دوسری رات بھی ہم اکٹھے ہو کر آپ کا انتظار صبح تک کرتے رہے۔ امید تھی کہ رسول اللہﷺ نکلیں گے اور نماز پڑھائیں گے۔ مگر آپ تشریف نہ لائے، پھر رسول اللہﷺ کی خدمر میں حاضر ہوئے اور یہ بات بیان کی تو فرمایا کہ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم لوگوں پر فرض نہ ہوجائے۔اس لئے میں گھر سے نہیں نکلا۔‘‘

۳۔ جابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ , قَالَ: وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟ قَالَ: «نِسْوَةُ دَارِي قُلْنَ إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي خَلْفَكَ بِصَلَاتِكَ , فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ. فَسَكَتَ عَنْهُ وَكَانَ شِبْهَ الرِّضَاءِ»ولَم یَقُل شَیئاً۔ (رواہ ابو یعلی: الطبرانی بنحوہ فی الاوسط قال الھبشیفی محمع الزوائد(ج۲ص۷۴) اسنادہ حسن وذکرہ محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل (ص۱۵۵) وشوق النیموی الحنفی فی آثار السنن ج۲ص۵۔ صحیح ابن خزیمة ج۲ص۳۴۰)

’’حضرت جابر کا بیان ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاٖضر ہوکر عرض کیا کہ حضرت آج رات مجھ سے ایک بات ہو گئی ہے۔ فرمایا وہ کونسی؟حضرت ابی نے کہا کہ میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتی ہیں۔ لہٰذا تراویح کی نماز آپ گھر ہی پڑھئے ہم بھی آپ کی اقتدامیں پڑھ لیں گی۔ چنانچہ میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور اس کے بعد وتر کے ساتھ نماز پڑھا دی۔ رسول اللہﷺ خاموش رہ گئے اور ایسا معلوم ہوا کہ آپﷺ نے اس کو پسند فرمایا۔ اس حدیث کی سندبھی حسن ہے۔

پہلی اور دوسری حدیثوں میں رسول اللہﷺ کے عمل کا بیان ہے کہ آپﷺ نے رمضان میں تراویح کی آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ اس کے بعد وتر ادا فرمایا۔ یہ تو رسول اللہﷺ کی فعلی سنت ہوئی۔ تیسری حدیث میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کی عورتوں کو آٹھ تراویح پڑھائیں اور رسول اللہﷺ نے سکوت فرمایا۔ یعنی آپﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔اس لئے دن کے اجالے کی طرح واضح ہوا کہ یہ طریقہ آپ کو پسند تھا۔ یہ رسول اللہﷺ کی تقریری سنت ٹھہری۔ اس طرح فعل نبویﷺ اور تقریر نبویﷺ دونوں سے آٹھ رکعت تراویح کا سنت نبوی ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ یہی اہل حدیث کا مسلک اور عمل ہے۔

اس کے مقابلہ میں کسی صحیح، مرفوع، غیر مجروح حدیث سے بیس یا بیس سے زائد رکعات کا ثبوت موجود نہیں۔ نہ قولاً نہ فعلاً اور نہ تقریراً۔ اس لئے اہل حدیث بیس یا بیس سے زائد تراویح کو سنت نہیں سمجھتے۔

علمائے احناف کی شہادت:

ان تینوں احادیث صحیحہ اور حسنہ سے تراویح کی آٹھ رکعتوں کا سنت نبوی ہونا ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق ہم آپ کی اطلاع کے لئے خود اکابر علمائے احناف ہی شہادت آپ کے سامنے پیش کئے دیتے ہیں۔

ترجمان حنفیہ امام محمدؒ کی شہادت:

آپ امام ابو حنیفہؒ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں اور ایوان حنفیت کے صدر نشین اور انہی کی کتابوں سے آج حنفیت زندہ ہے۔ موصوف نے اپنی کتاب موطا میں یہ عنوان قائم کیا ہے۔ بَابُ قِیامِ شَھرِ رَمَضَانَ وَمَا فِیه مِنَ الْفَضْلِ اور علامہ عبد الحئی حنفی لکھوی نے اس کے حاشیہ میں لکھ کر بتایا ہے وَیُسَمَّی التَّرَاوِیحَ کہ قیام شہر رمضان سے مراد نماز تراویح ہے۔ (التعلیق الممجد ص۱۴۲) امام محمد اس باب میں پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث لائے ہیں جس میں تین روز تک آنحضرتﷺ کی تراویح باجماعت کا ذکر ہے۔ لیکن چونکہ اس میں رکعات کی تعداد کا بیان نہیں ہے، اس لئے اس کے بعد ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ روایت لائے جس کو ہم آٹھ رکعت کے ثبوت میں پہلی حدیث  کے عنوان سے زیب قرطاس کیا ہے۔ امام محمدؒ کی اس صنیع سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پہلے تراویح کی جماعت کا مسنون ہوتا ثابت کیا ہے اس کے بعد مع وتر اس کی گیارہ رکعت کا سنت نبوی ہونا ثابت کیا ہے۔ لیجئے جناب شاہ صاحب یہ آپ کے اس امام کی شہادت ہے جن کا شمار حنفی مذہب کے بانیوں میں ہوتا ہے۔

۲۔ علامہ کمال ابن ہمام کی شہادت:

یہ وہی کمال ابن ہمامؒ ہیں جن کی بابت روالمختار (ج۴ص(۲۸۸)میں لکھا ہے۔ کَمَالُ ابْنُ الْھَمَّامِ بَلَغَ رُتْبة الإجتِھَادِ کہ کمال ابن ہمام درجہ اجتہاد کو پہنچ گئے تھے۔ موصوف نے فتح القدیر شرح الہدایہ میں فریقین کے دلائل ذکر کئے ہیں۔ بیس رکعت والی روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر تسلیم کیا ہے کہ کہ رسول اللہﷺ کی سنت گیارہ رکعات مع وتر ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:

فتحصل من ھذا کله أن قیام رمضان سنة احدیٰ عشرة رکعة بالوتر فی جماعة فعلهﷺ ثم تركه للعذر۔ (فتح القدیر: ج۱ص۴۰۸۔)

۳۔امام جمال الدین زیلعی کی شہادت:

بیس رکعت والی روایت کو ضعیف قرار دے کر لکھتے ہیں:

ثُمَّ إنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟، قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ، عَلَى إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً الخ،۔ (نصب الرایة: ج۲ص۱۵۳)

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیس رکعت تراویح والی حدیث ضعیف ہونے کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مشہور اور بالاتفاق صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے کہ آپﷺ رمضان اور غیر رمضان صرف گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘

۴۔فقیہ ابن نجیمؒ کی شہادت:

فقاہت کے لحاظ سے موصوف کو ابو حنفیہ ثانی اور محررمذہب النعمانی لکھا جاتا ہے، جیسا کہ بحر الرائق کے ٹائٹل سے واضح ہے۔ آپ محقق کمال ابن ہمام کی تحقیق انیق سے سو فی صد اتفاق کرتے ہوئے اعلان فرماتے ہیں۔

وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ۔ (بحر الرائق شرح کنز الدقائق: ج۲ص۶۶۔۶۷)

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوا کہ سنت نبوی مع وتر گیارہ رکعت ہی ہیں۔‘‘

۵۔ علامہ طحطاویؒ حنفی کی شہادت:

آپ محقق کمال ابن ہمام کی تحقیق سے اتفااق کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

فإذن یکون المسنون علی اصول مشائخنا ثمانیۃ منھا والمستحب اثنا عشرۃ۔ (طحطاوی: ج۱ص۲۶۵)

۶۔ صاحب نفحات رشیدی کی شہادت:

وَاختلفوا فی عدد رکعاتھا التی یقوم بھا الناس فی رمضان ما المختار منھا ازلانص فیھا فاختار بعضھم عشرین رکعة سوی الوتر واستحسن بعضھم ستا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث رکعات وھو الامر القدیم الذی کان علیہ االصد رالأول والذی أقول به فی ذلك ان لا توقیت فیه فإن لا بد من الاقتداء فالاقتداء برسول اللہﷺ فی ذلك فإنه ثبه عنهﷺ انه مازادعلی إحدی عشرة رکعة بالوتر شیئا لا فی رمضان ولا فی غیرہ إلا انه کان یطولھا فھذا ھو الذی اختار للجمع بین قیام رمضان والإقتداء برسول اللہﷺ قال اللہ تعالیٰ ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُم فِیْ رَسُولِ اللہ اُسوة حَسَنَة﴾(حواله مذکورہ، انوار مصابیح: ص۴۷ومسك الختام مترجم: ج۱ص۲۸۸۔۲۸۹)

یعنی تراویح کی رکعتوں کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کجہ اس کی کتنی تعداد مختار ہے۔ اس لئے کہ اس کے متعلق کوئی نص موجود نہیں۔ بعض وتر کے علاوہ بیس کو پسند کرتے ہیں اور بعض چھتیس کو۔ یہی امر قدیم ہے۔ اس پر صدر اول کے مسلمانوں کا عمل رہا ہے۔ میرے خیال میں چونکہ یہ ایک نفلی نماز ہے۔ اس لئے اس کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں۔ تاہم اگر کسی کی اقتدا کرنا ضروری ہے تو پھر رسول اللہﷺ  کی اقتدا کرنی چاہیے۔ آپﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ نے مع وتر گیارہ رکعتوں سے زیادہ تراویح نہیں پڑھی ہے۔ البتہ آپ کی یہ نماز لمبی ہوتی تھی۔ میں اس کو پسند کرتا ہوں کیونکہ اس پر عمل کرنے سے قیام رمضان اور اتباع سنت نبوی دونوں کا حق ادا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو رسول اللہﷺ ہی کی پیروی کا حکم دے رکھا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے﴿لَقَدْ کَانَ لَکُم فِیْ رَسُولِ اللہ اُسوة حَسَنَة﴾

ہوتے ہوئے مصطفیٰﷺ کی گفتار

مت دیکھ کسی کا قول وکردار

۷۔ حجۃ الاحناف علامہ عینی کی شہادت:

فَإِن قلت: لم يبين فِي الرِّوَايَات الْمَذْكُورَة عدد هَذِه الصَّلَاة الَّتِي صلاهَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي تِلْكَ اللَّيَالِي؟ قلت: روى ابْن خُزَيْمَة وَابْن حبَان من حَدِيث جَابر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، قَالَ: (صلى بِنَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي رَمَضَان ثَمَان رَكْعَات ثمَّ أوتر) (عمدة القاری: باب مذھب الالمة فی التراویح ج۷ص۱۷۷)

’’اگر تو یہ اعتراض اٹھائے کہ (بخاری کی)ان احادیث میں جن میں رسول اللہﷺ کے تراویح پڑھانے کا ذکر ہے، رکعتوں کی تعداد نہیں بتائی گئی تو میں آپ کے جواب میں کہوں گا کہ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان کی حدیثوں میں اس کا بیان آگیا ہے رسول اللہﷺ نے (ان راتوں میں) صحابہ رضی اللہ عنہم کو وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں۔‘‘

۸۔ ملا علی قاریؒ کی شہادت:

آپ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا یہ فیصلہ بلا کسی ردوانکار کے نقل فرماتے ہیں:

قال ابن تیمیة الحنبلی إعلم انه لم یوقت رسول اللہﷺ فی التراویح عددا معینا بل لایزید فی رمضان ولا فی غیر علی إحدیٰ عشرة رکعة۔ (فتاوی ابن تیمیه طبع قدیم ص۱۴۸ الانتقاد الرجیح ص۶۳، مرقاة ج۳ص۱۹۳ طبع ملتان۔)

’’رسول اللہﷺ نے تراویح کو کوئی خاص تعداد قولاً مقرر نہیں فرمائی ہے تاہم عملاً گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘

نیز محقق ابن ہمام کے اس فیصلہ پر بھی ان کو کوئی اعتراض نہیں۔

تحصل من ھذا کله أن التراویح فی الأصل إحدی عشرة رکعة فعلهﷺ ثم ترکه لعذر۔ (مرقاة: ج۳ص۱۹۴، مشکوة: ص۱۱۰ حاشیہ۵۔)

۹۔ علامہ ابو سعود کی شہادت:

آپ شرح کنز الدقائق میں لکھتے ہیں:

لِاَنَّ النَّبِیَّﷺ لَمْ یُصِلِّھَا عِشْرِیْنَ بَلْ ثَمَانِیاً۔ (شرح کنز الدقائق:ص۲۲۵)

’’اس لئے کہ نبیﷺ نے بیس رکعت تراویح نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت پڑھی ہیں۔‘‘

۱۰۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی شہادت:

لکن المحدثین قالو إن ھذا الحدیث (أی حدیث ابن عباس) ضعیف والصحیح ما روته عائشة انه صلی إحدی عشرة رکعة کما ھو عادته فی قیام اللیل وروی انه کان بعض السلف فی عھد عمر بن عبدالعزیز یصلون باحدی عشرة رکعة قصدا للتشبه برسول اللہﷺ ومترجم ماثبت بالسنة۔(ص۲۲۴)

’’محدیثین (شکر اللہ مساعیھم) کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے گیارہ رکعتیں وتر سمیت پڑھیں ہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا اور یہ بھی منقول ہے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں بعض سلف صالحین کا اس پر عمل تھا سنت نبوی کے اتباع کے شوق میں۔‘‘

۱۱۔ مراقی الفلاح کے محشی طحطاوی کی شہادت:

وصلَاتُھَا بِالجَمَاعة سُنَّة کفایة لما ثبت أنهﷺ صلیٰ بالجماعة احدی عشرة رکعة بالوتر علی سبیل التداعی ولم یجرھا مجری سائر النوافل ثم بین العذر فی الترك۔ (حاشیةطحطاری علی مراقی الفلاح ص۲۳۹)

’’تراویح کی نماز باجماعت سنت کفایہ ہے، کیونکہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اعلان اور جماعت کے ساتھ گیارہ رکعت باوتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پڑھائی تھیں۔‘‘

۱۲۔ علامہ شامی کی شہادت:

أَنَّ مُقْتَضَی الدَّلِلیل کونُ المَسنون منھا ثمانیة والباقی مستحبا۔ (ردالمحتار ۔نشامی ج۲ص۴۵)

’’یعنی دلیل کے لحاظ سے آٹھ رکعت تراویح سنت ہے اور باقی رکعتیں مستحب ہیں۔‘‘

۱۳۔ علامہ عبدالحئی لکھنوی کی شہادت:

رسول اللہﷺ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے: ایک بیس رکعت بے جماعت مگر اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دوسری آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت۔ اور یہ طریقہ رسول اللہﷺ سے تین راتوں کے علاوہ کسی رات میں منقول نہیں۔ (مجموعہ فتاوی: ج۱ص۲۹۷طبع۱۳۳۱۔)

وضاحت: مولانا نے گیارہ رکعت والی روایت پر کوئی جرح نہیں لکھی، لہٰذا معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک یہ روایت بالکل صحیح ہے۔ عمدۃ الرعایہ میں گیارہ رکعت کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وأما العدد فروی ابن حبان وغیرہ انه صلی بھم ثمان رکعات وثلاث رکعات وترا۔(ص۱۷۵)

’’رہا عدد معین کا سوال تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابن حبان وغیرہ محدثین نے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان راتوں میں آٹھ رکعت تراویح اور تین وتر پڑھائے تھے۔‘‘

۱۴۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کی شہادت:

فرماتے ہیں الحاصل قولاً کوئی عدد معین نہیں۔ مگر آپﷺ کے فعل سے مختلف اعدادمعلوم ہوتے ہیں۔ ازاں جملہ ایک دفعہ گیارہ رکعت باجماعت پڑھنا ہے۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے ایک شب میں گیارہ رکعت تراویح باجماعت پڑھی۔ پھر اپنے مسلک کو سنبھالا دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اور اگر یون کہا جاوے کہ اول دفعہ آٹھ رکعت تراویح تھیں اور تین وتر اور دوسری دفعہ اٹھارہ رکعت تراویح اور تین وتر اور تیسری دفعہ بیس رکعت تراویح اور تین وتر سنت ہے اور ہر سہ نفل باوقاتِ مختلفہ صحابہ کو رسول اللہﷺ سے معلوم تھا۔ لہٰذا یہ سب سنت ہیں اور کوئی معارض ایک دوسرے کے نہیں۔ (الرای التحیح: ص۱۳۔۱۸)

اس اقتباس سے معلومن ہوا کہ مولانا گنگو ہی کو بھی آٹھ رکعت تراویح کا سنت نبوی ہونا تسلیم ہے۔

موصوف اپنے رسالہ ’’الحق الصریح‘‘ میں لکھتے ہیں: گیارہ رکعت تراویح مع وتر سرورعالمﷺ سے ثابت موکدہ ہے۔ (ص۲۲)

۱۵۔ علامہ انور شاہ کاشمیریؒ کی شہادت:

وَلَا مَنَاصَ مِن تَسلیم اَنَّ تَرَاویحَه عَلَیه السلام کانت ثمانیة رکعات۔ (العرف الشذی علی الترمذی: ج۱ص۱۶۶)

’’علمائے احناف خواہ کتنا ہی ہیرا پھیری کریں اور ہزار باتیں بنائیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس کے تسلیم کئے بغیر ہمارےلئے کہیں پناہ نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ کی تراویح تو آٹھ ہی رکعت تھی۔‘‘

جعل سازی کی انتہا:

رہا آپ کا یہ ادعا کہ مولان امحمد حسین بٹالوی کے فتویٰ تراویح کے رد میں مولانا غلام رسول قلعہ والے نے اہل حدیث ہوتے ہوئے فارسی زبان میں کتاب لکھی تھی۔ اور مولانا بٹالوی کو مفتی غالی قرار دیا تھا۔ تو یہ آپ کا مولانا موصوف پر نرا بہتان اور افترائے محض ہے۔ کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ کتاب مولانا کی طرف منسوب تو ضرور ہے مگر یہ ان کی تصنیف ہرگز نہیں۔ دراصل یہ کتاب قاضی کوٹ کے قاضی ضیاء الدین حنفی مقلد وغیرہ نے تحریک عمل بالحدیث کو سبوتاژ کرنے کے لئے مولانا غلام رسول کی طرف منسوب کر کے اس وقت شائع کی تھی، جب آپ اس دنیا سے رحلت فرما چکے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت کے فوراً بعد ایک غیور اہل حدیث عالم مولوی غضنفر صاحب پروفیسر اورنٹیل کالج لاہور نے اس کا مسکت جواب بھی دے دیاتھا۔ اوردلائل قویہ معتبرہ کے ساتھ اس جنس شریف کی اس جعل سازی اور افترا پردارزی کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑ کر رکھ دیاتھا۔ اس فاضل پروفیسر نے اپنی کتاب کے آخر میں مولانا موصوف کا ایک مکتوب سامی بنام مولوی محمد علی حمید پوری بھی شائع کر دیا تھا۔ جس میں مولانا موصوف نے محمد علی صاحب کو آٹھ رکعت تراویح کی سنت کے احیا پر مبارک باد پیش فرمائی تھی۔

بالفرض! اگر مولانا صاھب نے ایسا کوئی رسالہ لکھا بھی ہو تا ان کی رائے ہم پر حجت نہیں ہم ان کے مقلد نہیں۔ یہ آپ کی منطق بھی عجیب ہے کہ ایک طرف تو آپ ہم کو غیر مقلد ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور دوسری طرف مولانا غلام رسول کی خلاف سنت تحریر ہمارے سامنے بطور حجت کے پیش کرتے ہیں۔ بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بواکجی ست۔

ناصحا اتنا تو سمجھ دل میں اپنے کہ ہم

لاکھ نادان ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے

لہٰذا اگر اہل حدیث کو قائل کرنا ہے تو اپنے اس مؤقف کا ثبوت کتاب وسنت سے پیش فرمائیں۔ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیئٍ فَرُدُّوہُ إِلَ اللہ وَالرَّسُولِ۔ یہی اہل حدیث کا اصل الاصول ہے۔

نہ شہم نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم

چوں غلام آفتابم ہمہ زآفتاب گویم

فتویٰ صادر فرمائیں:

دیکھئے شاہ صاحب۔ مذکورہ بالا تینوں احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ، محمکہ اور غیر منسوخہ کے صحیح معنی ومدلول کے پیش نظر آپ کے سید الاھناف امام محمد، مجتہد ابن ہمام،حجۃ الاحناف عینی، ناصر حنفیت ملا علی قاری، شیخ عبدالحق، شارح فقہ حنفی عبدالحئی، صاحب تفحات رشیدی، رشید احمد گنگوہی اور انور شاہ کاشمیری ؒ وغیرہ اکابر علمائے احناف یہ حقیقت واقعی مان چکے کہ رسول اللہﷺ سے فعلاً اور تقریراً تراویح کا مسنون عدد فقط آٹھ رکعت ہی ہیں۔ لہٰذا اگر اب بھی آپ کو اپنے اس ادعا پر اصرار ہے کہ آٹھ رکعت تراویح کی بدعت سب سے پہلے ۱۲۸۴ھ میں شہر اکبر آباد کے ایک غیر مقلد مولوی نے جاری کر کے امت میں اختلاف کاشاخسانہ کھڑا کیا تھا۔ اور پھر ۱۲۹۰ھ میں مشہور غیر مقلد مولوی محمد حسین بٹالویؒ نے اس بدعت فروغ بخشا تھا تو پھر جرات کر کے یہ فتویٰ صادر فرمائیں کہ سید الاحناف امام محمد ؒ ابن ہمام، ابن نجیم وغیرہ مذکورہ بلال علمائے احناف اصل حنفی نہ تھے بلکہ دراصل بدعتی، غیر مقلد ہونے کے ساتھ فتنہ باز اور شرپرداز بھی تھے۔ (معاذ اللہ)

۳۔ نماز تراویح کے بعد رسول اللہﷺ سے نماز تہجد ثابت نہیں:

آپ کا یہ ارشاد کہ جس روایت (عائشہ رضی اللہ عنہا صحیح بخاری ومؤطا امام محمد) میں آٹھ رکعت منقول ہیں، جنہیں غیر مقلدین اپنی کج فہمی سے تراویح سمجھ بیٹھے ہیں وہ دراصل نماز تہجد ہے۔ گویا انہی پہیے نے کتی چٹے۔ تو سن لیں ؎

بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش

من انداذ قدت رامے شناسم

ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ آپ نے یہ دام ہمرنگ زمین صرف ناخواندہ اہل حدیثوں کو شکار کرنے کےلئے بچھایا ہے      ؎

برویں دام برمرغ وگرنہ

کہ عنقارا بلند است آشیانہ

تو شاہ صاحب کی اطلاع کے لئے گزرش ہے کہ حسب سابق آپ کا یہ اوعا اور تاویل بھی غلط ہے۔ کیونکہ تراویح اور تہجد فی رمضان دونوں مترادف الفاظ ہیں۔نماز ایک ہے اور نام دوہیں۔ لہٰذا اس نماز کو تہجد کی نماز قرار دینا درست نہیں۔ بلکہ اس سے مراد تراویح ہی ہے۔ رہا یہ کہ اس کی دلیل کیا ہے۔ تو بگوش ہوش سنیے۔ ہم آپ کو آپ کے اکابر کی کتب سے اس کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ   ؎

خوش ترآں  باشد کہ سر دلبراں

گفتہ آید درحدیث دیگراں

دلیل اول امام محمدؒ کا فیصلہ کن طرزعمل:

سید الاحناف امام محمدؒ نے اپنی مجتہدانہ بصیرت اور فقیہانہ حذاقت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو قیام شہر رمضان (موطا امام محمد ص۱۴۲) میں درج فرما کر آپ ایسے مخلص مقلدین کی اس تاویل کا رد کرتے ہوئے اہل حدیث کی حدیث فہمی پر مہر ثابت کر دی ہے کہ آپ کی اس نماز سے تراویح ہی مراد ہے، تہجد ہرگز نہیں۔ ورنہ وہ اس حدیث کو صلوٰۃ اللیل (ص۱۱۹) میں درج فرماتے ہیں۔ قیام شہر رمضان میں اس کو ہرگز نہ لاتے۔

مزید برآں یہ کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کی راتوں میں تین روز صحابہ کرام کو نماز تراویح پڑھا کر کا اس سلسلہ کو جو بندفرما دیا تھا تو اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

أَلا إِنِّی خَشیتُ أَن یُّفرَضَ علیکم وذلک فی رمضان۔ (مؤطا محمد ص۱۴۲، وبذل المجھود ص۳۰۳، ۳۰۲ج۲)

اور دوسری حدیث میں ہے:

وَلٰکِنِّی خَشِیَتُ اَن تُفرَضَ عَلَیکُم صلوۃ اللیل فَتَعجِزُ واعنْھَا۔

اور تیسری روایت ہے:

خَشِیتُ أَن یُفرَضَ عَلَیکُم قِیامُ ھٰذا الشھر۔(فتح العلھم: ج۱ص۳۲۲)

ان راتوں کی نماز کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ یہ تراویح تھی اور اسی نماز کو رسول اللہﷺ نے صلوٰۃ اللیل اور قیام ھذا الشھر فرمایا۔ اور پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ صلوۃ اللیل ہی کا نام تہجد ہے پس ثابت ہوگیا کہ تراویح ہی رمضان میں صلوۃ اللیل بھی ہے، قیام اللیل بھی ہے اور تہجد بھی ہے۔

دوسری دلیل، علامہ عبدالحئی کا اعلان حق:

اس نماز کو نماز تہجد قرار دینا محل نظر ہے۔ فرماتے ہیں:

بریں تقدیر نماز مذکور کہ قبل نوم بودہ ازتہجد شمر دن محل تامل خواہد بود۔

پھر فیصلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بہر تقدیرورشبہا مذکورہ کہ آنحضرتﷺ دراں تراویح بجماعت ادا کردنداداکردن نماز تہجد سوا آن ازحضرت مروی نشدہ۔ (مجموعہ فتاوی ج۱ص۲۹۸طبع۱۳۲۱۔)

نوٹ: مولانا عبدالحئی کے اس مجموعہ فتاویٰ کے  مترجم نے جو کہ غالی حنفی ہیں اس فتوے کو محض اس لئے حذف کر دیا ہے کہ یہ فتویٰ ان کے پنچائتی مذہب کے خلاف تھا۔ یا للعجب یا للعقول الطائشہ           ؎

یہ ٹھہرے ہیں اب دین کے پیشوا

لقب ان کا ہے وارث انبیاء

۲۔  آپ کے قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ارقام فرماتے ہیں:

براہل علم پوشیدہ نیست کہ قیام رمضان وقیام لیل فی الواقع یک نماز است کے دررمضان برائے تسییر مسلمین در اول شب مقرر شدوہنوزعزیمت درادائش آخرشب است۔

کہ اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قیام رمضان (تراویح) اور قیام اللیل (تہجد) فی الواقع دونوں ایک ہی نماز ہیں جو رمضان میں مسلمانوں کی سہولت کے پیش نظر رات کے اول حصہ میں مقرر کر دی گئی ہے۔ مگر اب بھی عزیمت تو یہی ہے کہ رات کےآخری حصہ میں ادا کی جائے۔ مزید لکھتے ہیں:

نزد ہمو قائل فرضیت تہجد برآں حضرتﷺ تراویح نفس تہجد است علی التحقیق۔ دبرائے کسے کہ تہجد برآنحضرتﷺ منسوخ کوید، چنانچہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہست۔ رواہ فی مسلم فی سنہ پس مواظبت تہجد دلیل سنت موکدہ خواہد بود دلائل قولیہ ناظر استاب مگر تہجد رمضان کہ تراویح است بدلیل قولی سنت موکدہ خواہد ماند۔ واللہ اعلم (لطائف فاسعیہ ص۱۳۔۱۸مکتوب سوم۔)

کہ جو لوگ تہجد کو آنحضرتﷺ کے حق میں فرضیت کے قائل ہیں ان کے نزدیک محقق بات یہ ہے کہ تراویح عین تہجد ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تہجد کی فرضیت رسول اللہﷺ کے حق میں بھی منسوخ ہوگئی، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کی قائلہ ہیں۔ ان کے مسلک کے مطابق تہجد پر آنحضرتﷺ کی مواظبت اس کے سنت مؤکدہ ہونے کی دلیل ہوگی اور قولی حدیث استاب پر دلالت کرے گی مگر رمضان کی تہجد جو عین نماز تراویح ہے۔ دلیل قولی کی بنا پر سنت موکدہ ہی رہے گی۔

۳۔حضرت انورشاہ کا اعتراف حق:

ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان بل طول التراويح، وبين التراويح والتهجد في عهده لم يكن فرق في الركعات بل في الوقت والصفة۔ (العرف الشذی علی الترمذی: ج۱ص۱۶۶)

یعنی (علمائےاحناف خواہ کتنا ہی ہیرا پھیری کریں اور ہزار باتیں بنائیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ) اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر ہمارے لئے کہیں پناہ  نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے تراویح تو آٹھ رکعت ہی ادافرمائی تھیں۔ کیونکہ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے تراویح اور تہجد رمضان میں علیحدہ علیحدہ ادا فرمائی ہوں بلکہ رکعات تراویح بوجہ قراءت آپ طویل کرتے تھے اور تعداد رکعات تراویح وتہجد میں کوئی فرق نہ تھا۔ یہاں تک کہ وقت اور طریقہ میں بھی۔

امام محمد، علامہ عبدالحئی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور انور کاشمیری ایسے احناف کے اعاظم رجال اور فاضل علمائے دیوبند کی ان تصریحات واعترافات سے تین باتیں ہوئیں۔ اولاً: یہ کہ مسنون تراویح صرف آٹھ رکعت ہیں کیونکہ رسول اللہﷺ سے تراویح صرف آٹھ ہی رکعت ثابت ہیں۔ ثانیاً: یہ کہ رسول اللہﷺ رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ نہیں پڑھتے تھے۔ یہی قیام، یعنی نماز تراویح آپ کا رمضان میں تہجد تھا۔ ثالثاً: یہ کہ تراویح اور تہجد کی تعداد رکعات اور وقت اور طریقہ میں کوئی فرق نہ تھا۔

تیسری دلیل:

ان سب سے بڑھ کر یہ کہ رسول اللہﷺ نے نماز تراویح آخر شب میں بھی پڑھائی تھی:

عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ، قَالَ: فَقَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ» ، قَالَ: فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ، فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِقِيَّةَ الشَّهْرِ۔ (ابوداؤد مع عون المعبود: باب قیام شھر رمضان ج۱ص۵۲۱۔ سنن النسائی: ج۱ص۱۹۲۔ وقال عیسی الترمذی ھذا حدیث حسن صحیح واخرجہ ابو داود والنسائی وابن ماجۃ وسکت عنہ ابو داود ونقل المنذری تصحیح الترمذی واقرہ وقل ابن حجر المکی ھذا الحدیث صححہ الترمذی والحاکم۔ (تحفۃ الاحوذی: ج۱ص۷۳)

’’حضرت ابوذر غفاری رضی اللہعنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریمﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے۔ حضرتﷺ نے اس رمضانت میں ہمیں کبھی نماز تراویح نہ پڑھائی یہاں تک کہ رمضان کے آخری سات دن باقی رہ گئے۔ یعنی تئیسویں رات کو تہائی شب تک ہمیں نماز پڑھائی، پھر چوبیسویں کو ناغہ فرمایا، پھر جب پچسویں رات آئی تو ہمیں آدھی رات تک نماز تراویح پڑھائی تو میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول کاش! آج ہمیں تمام رات تراویح پڑھاتے تو آپﷺ نے جواب فرمایا کہ نمازی جب امام کے ساتھ رات کی نماز پڑھ کر لوٹے تو اس کے لئے ساری رات کے قیام کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چھبیسویں رات کو آپ نے پھر ناغہ فرمایا۔ جب ستائیسویں رات آئی تو آنحضرتﷺ نے اپنے اہل وعیال، ازواج مطہرات اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع فرمایا اور آپﷺ نے ان کو اس قدر لمبی نماز تراویح پڑھائی کہ ہم ڈر گئے کہ کہیں ہماری فلاح فوت نہ ہوجائے۔ جناب خبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا فلاح کسے کہتے ہیں؟ تو حضرت ابو ذر نے فرمایا فلاح سے مراد سحری کا کھانا ہے۔‘‘

وضاحت: مولانا خلیل احمد سہارنپوری جیسے تندوتیز حنفی نے اس حدیث کی سند پر کوئی کلام نہیں فرمائی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک بھی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (بذل المحھود ج۲ص۳۰۳ط کوئٹہ۔)

مقام غور ے کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ساری رات تراویح پڑھتے رہے حتی کہ سحری کھانے کے لئے بھی بہت ہی کم وقت بچا تھا تو ایسی صورت میں یقیناً نماز تہجد آپﷺ نے پڑھی تھی اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے۔ لہٰذا مانن پڑے گا کہ نماز تراویح ہی نماز تہجد ہے۔ چنانچہ حضرت انور شاہ صاحب اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فعل عمر رضی اللہ عنه فانه کان یصلی التراویح فی بیته فی آخر اللیل مع انه کان امرھم ان یءودوھا بالجماعة فی المسجد ومع ذلك لم یکن یدخل فیھا وذلك لانه کان یعلم ان عمل النبیﷺ کان باداتھا اخر اللیل ثم نبثھم علیه قال ان الصلوة التی تقومون بھا فی اول اللیل مفضولة منھا لو کنتم تقیمونھا فی اخر اللیل فجعل الصلوة واحدة وفضل قیامھما فی اخر اللیل وعامتھم لما لم یدرکو مرادہ جعلوہ علیلا علی تغایر الصلوتین وزعموا أنھما کانت صلوتین۔ (فیض الباری: ج۲ص۴۲۰)

’’اس مسلم کی تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے بھی ہوتی ہے کہ وہ تراویح رات کے آخری حصہ میں اپنے گھر ادا کرتے تھے۔ حالانکہ انہوں نے لوگوں کو خود یہ حکم دیا تھا کہ وہ اس نماز کو باجماعت مسجد میں پڑھا کریں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود اس جماعت میں شرکت نہیں فرماتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ کا طریقہ یہی تھا کہ آپ یہ نماز رات کے آخری حصہ میں ادا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو آگاہ بھی کر دیا کہ جو نماز تم لوگ اول شب پڑھتے ہو اس کو آخر شب میں پڑھا کرو یہ زیادہ افضل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح اور تہجد فی رمضان دونوں کو ایک ہی نماز قرار دیا ہے لیکن عام طور پر علماء ان کی مراد کو نہیں سمجھ پائے۔ اس لئے انہوں نے الٹا اس کو ان دونوں نمازوں میں مغایرت کی دلیل بنا دیا اور گمان کر بیٹھے کہ تہجد اور تراویح دو نمازیں ہیں۔

چوتھی دلیل:

یہ ہے کہ حضرت انور شاہ کے بقول امام محمد بن نصر مروزی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب قیام اللیل میں تصریح فرمائی ہے کہ بعض علمائے سلف اس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص تراویح پڑھے اس کو پھر تہجد نہیں پڑھنا چاہیے۔ اور بعض علماء نے مطلق نفل کو جائز قرار دیا ہے۔ حضرت موصوف کا بیان یہ ہے:

ثم أن محمد بن نصر وضع عدة تراجم فی قیام اللیل وکتب ان بعض السلف ذھبوا الی منع التھجد لمن صلی التراویح وبعضھم قالوا باحة النفل المطلق فدل اختلافھم ھذا علی اتحاد الصلوتین عندھم۔ (فیض الباری: ج۲ص۴۲۰)

لہٰذا علمائے سلف کا یہ اختلاف اس امر کی صاف دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں۔

ہمیں تسلیم ہے کہ علمائے دیو بند اور بریلی عوام الناس کو اتباع سنت سے محروم رکھنے کے لئے نماز تراویح اور نماز تہجد میں کچھ کچے کچے وجوہ مغایرت بیان کیا کرتے ہیں۔ تفصیل سے قطع نظر ہم ان سے سب کا یک اجمالی جواب حضرت انور شاہ صاحب کے لفظوں میں پیش کر دینا کافی سمجھتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

قال عامة العلماء إن التراویح وصلوة اللیل نوعان مختلفان والمختار عندی انھما واحد وان اختلفت صفتاھما کعدم المواظبة علی التراویح وجعل اکتلاف الصفات دلیلا علی اختلاف نوعیھما لیس جید عندی بل کانت تلك صلوة واحد إذا تقدمت سمیت باسم التراویھ وإذا تاخرت سمیت باسم التھجد ولا بدع فی تسمیتھا باسمین عند تغایر الوصفین فإنه لا حجر فی التغایر إلاسمی اذا اجتمعت علیه الامة وانما یثبت تغایر النوعین اذا عن النبیﷺ انه صلی التھجد مع اقامة التراویح۔(فیض الباری: ج۲ص۴۲۰)

’’عام علمائے احناف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تراویح اور تہجد دونوں نمازیں مختلف النوع ہیں، مگر میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ دونوں نمازیں متحدالنوع ہیں اگرچہ دونوں کے اوصاف میں کچھ اختلاف ہے جیسے ۔۔۔۔ مگر صفات کے اختلاف کو نوعی اختلاف کی دلیل ٹھہرا لینا میرے نزدیک درست نہیں ہے۔ درحقیقت یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں۔ رات کے اول حصہ میں پڑھی گئی تو اس کو تراویح کہیں گے اور رات کے آخری حصہ میں پڑھی گئی تو اس کو تہجد کہیں گے۔ اور جب ان دونوں کے اوصاف میں قدرے اختلاف بھی ہے تو اس لحاظ سے اگر اس کے دو نام بھی ہوں تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟البتہ ان دونوں نمازوں کا متغایر النوع ہونا تب ثابت ہوگا جب یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت نبیﷺ نے تراویح کے ساتھ ساتھ نماز تہجد بھی ادا فرمائی تھی۔‘‘

اب چاروں دلائل کو ذہن میں رکھ کر ذرا تکلیف کر کے ایک مرتبہ پسر ائمہ احناف کی ان بارہ شہادتوں کو انصاف اور دیانت کے ساتھ پڑھ لیں جوگزشتہ صفحات میں آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کی جا چکی ہیں۔ اور اندازہ لگائیں کہ احناف کے کیسے کیسے اکابر اور اساطین دیو بند کتنے صاف الفاظ میں اس حقیقت نفس الامری کو شرح صدر کے ساتھ تسلیم کر رہے ہیں کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں تراویح کا ہی بیان ہے مگر حیرت ہے آپ جیسے مدعی علم وفضل کی اس ناواقفیت یا تجاہلی پر             ؎

اِنْ کُنْتَ لَا تَدْرِیْ فَتِلْك مُصِیبَة

إِنْ کُنْتْ تَدرِیْ فَالْمُصِیبَة أَعظَم

شاہ صاحب سوچئے:

کہ کسی حدیث کے معنی ومدلول کے سمجھنے کا سلیقہ احناف میں سید الاحناف امام محمدؒ محقق ابن ہمامؒ ابو حنیفہ ثانی ابن نجیم مصری، حجۃ الاحناف عینی، احمد طحطاوی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، علامہ عبدالحیؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت انور شاہ کاشمیری کو زیادہ حاصل ہے یا آپ کو     ؎

میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر

بن دہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر

اس پھبتی کا ہدف کون؟

مولانا محمد حسین بٹالوی وغیرہ علمائے اہل حدیث، حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے گیارہ رکعت تراویح کا استدلال کرتے ہیں اور آپ کو اصرار ہے کہ اس حدیث میں نماز تہجد کا بیان ہے تراویح کا نہیں۔ اس لئے آپ ان کی حدیث فہمی کا مذاق اڑاتے ہوئے ان پر انہی پیہے تے کتی چٹے کی پھبتی کس رہے ہیں۔ حالانکہ آپ سے کئی صدیاں پہلے آپ کے سید الاحناف امام محمدؒ، محقق ابن ہمامؒ، ابن نجیم مصریؒ، ملا علی قاریؒ اور شیخ عبدالحق وغیرہ اور آپ کے اکابر علمائے دیوبند مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت انور شاہ کاشمیری وغیرہ بھی اس حدیث کا وہی مطلب بیان کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مولانا محمد حسین بٹالوی نے بیان فرمایا ہے مگر تعجب ہے کہ آپ کو اپنے اکابر کی تحریروں کا بھی علم نہیں ؎

اگر ہی بے خبری حضرت والا کی ہوگی

تار وپود پدری تہ وبالہ ہو گی

لہٰذا اکڑوادل کر کے سیدالاحناف امام محمد سے لے کر مولانا رشید احمد گنگوہی تک کی مذکورہ بالا تصریحات کو ایک مرتبہ پھر پڑھ کر دیکھئے کہ انھی کتنے شوق دے نال پیہندی پئی اے تے کتی کتنے مزے لے لے کر کھاندی پئی اے  ؎

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے

نہ کھلتے راز سربستہ نہ یہ رسوائیاں ہوتیں

نام نہاد تعامل کی اصلیت:

رہی آپ کی یہ دھونس کہ ۱۲۸۴ء تک پوری امت بیس رکعت ہی پڑھتی آئی ہے تو آپ کی یہ دھونس نہ ہمیں مرعوب کر سکتی ہے اور نہ ہم پر حجت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم کچھ بھی ہیں بہرحال اہل حدیث ہیں۔ اس لیے ہمارا نعرہ ہے            ؎

ماہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم

الا حدیث یار کہ تکرار مے کینم

ہم کہا کرتے ہیں        ؎

ہوتے ہوئے مصطفیٰﷺ کی گفتار

مت دیکھ کسی کا قول وکردار

ہمارا شیوہ معرفت الحق بالرجال نہیں بلکہ معرفت الرجال بالحق ہے۔ ہمارے اس اصول کی ترجمانی شاہ ولی اللہ یوں فرماتے ہیں:

کان عندھم انه اذا وجد فی المسثلة قرآن ناطق فلا یحوز التحول منه الی غیرہ واذا کان القرآن محتملا فالسنة قاضیة علیه فاذا لم یجدہ فی کتاب اللہ اخذو سنة رسول اللہ ﷺ سواء کان مستفیضا دائرا بین الفقھاء او یکون مختصا بأھل بلد او اھل بیت او بطریقة خاصة وسواء عمل به الصحابة والفقھاء او لم یوملو به ومتی کان فی المسئلة حدیث فلا یتبع فیھا خلاف اثر من الاثار ولا إجتھاد أحد من المجتھدین۔ (حجة اللہ مصری: ج۱ص۱۴۹)

’’اہل حدیث کا اصول یہ تھا جب کسی مسئلہ کے متعلق قرآن حکیم کا حکم ناطق موجود ہو تو اس سے ہرگز انحراف نہیں کریں گے اور کسی دوسری سند کو اس کے مقام میں قابل استناد نہیں سمجھیں گے، لیکن اگر قرآن کی کسی آیت میں متعدد معانی کا احتمال ہو تو اس کا فیصلہ حدیث صحیح سے ہوگا جب کسی مسئلہ کے متعلق قرآن ساکت ہو تو حدیث صحیح پر عمل کیا جائے گا۔ قطع نظر اس سے کہ وہ حدیث مستفیض ہو اور فقہاء مجتہدین کے حلقہ میں متد اول ہو یا فقط کسی خاص شہر یا معین خاندان کے لوگوں نے اس کو نقل کیا ہو۔ چاہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما اور فقہاء نے اس حدیث پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ حدیث صحیح مرفوع کے مقابلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہہم اور تابعین کے آثار اور مجتہدین امت کے اجتہاد کو کچھ بھی وقعت حاصل نہیں۔‘‘

لہٰذا رسول اللہﷺ کی کسی سنت ثابتہ کی بابت ہمارے نزدیک یہ سوال اٹھانا ہی سرے سے اصولاً غلط ہے کہ اتنی مدت سے اس حدیث پر امت نے عمل نہیں کیا۔ یہ تو حدیث صحیح کے انکار کے مترادف ہے۔ یہ حدیث صحیح کے رد کا ایک مقلدانہ حیلہ ہے اور مقلدین کے ہاں یہ حیلہ گری کوئی گناہ نہیں۔ امام فخر الدین رازی متوفی ۲۰۲ھ مقلدین کے جمود وتعصب پر افسوس کرتے ہوئے آیت ﴿إِتَّخَذُقاأَحْبَارَھُم وَرُھْبَنَھُم أَربَا باًمِّنْدُوْنِاللہ﴾(التوبة: ۱۱۷) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مقلدین علماء نے اللہ تعالیٰ کے دین وشرع کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، پھر فرماتے ہیں:

انی قد شاھدت جماعة من مقلدة الفقھاء قراءت علیھم ایات کثیرة من کتاب اللہ تعالیٰ فی بعض المسائل وکانت مذاھبھم بخلاف تلك الایات فلم یقبلو تلك الایات ولم یلتفتو الیھا وبقو ینظرون کالمتعحب۔ یعنی کیف یمکن العمل بظاھر ھذہ الایات مع ان الروایة عن سلفنا وردت علی خلافھا ولو تأملت حق التأمل وجدت ھذا الدراء ساریا فی عروق الاکثرین من اھل الدنیا۔ (مفاتیح الغیب: ج۱۶ص۳۷)

’’میں نے ایک مجلس میں مقلدین کے ایک ٹولے پر بعض مسائل دینیہ کے بارے میں قرآن مجید کی بہت سی آیات پیش کیں تو انہوں نے ان آیات مقدسہ کو قبول کیا اور نہ ان کی طرف التفات کیا اور تعجب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم ان آیات کے ظاہر پر کس طرح عمل کر سکتے ہیں کہ یہ ہمارے امامون کی روایت کے خلاف ہیں، لہٰذا ہم معذور ہیں۔‘‘ یہ مرض بہت سے دنیا دار لوگوں میں چلی آ رہی ہے۔

شیخ الاسلام ابن قیمؒ:

عمل اہل مدینہ کو حجت قرار دینے والوں کی تردید کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

وَالسُّنة ھی العیار علی العمل ولیس العَمَلُ عَیَاراً عَلَی السُّنة۔ (اعلام الموقعین: ج۲ص۲۹۵)

’’یعنی لوگوں کے عمل کو جانچنے کی کسوٹی رسول اللہﷺ کی سنت ہے، یہ نہیں کہ لوگوں کے عمل کو سنت رسولﷺ کی تصحیح کی کسوٹی قرار دیا جائے۔‘‘

علامہ ابن قدامہ:

ایک موقع پر لکھتے ہیں:

وَلو ثبت فسنة النبیﷺ مقدمة علی فعل اھل المدینة۔ (المغنی مع شرح الکبیر: ج۲ص۲۷۷)

’’نبی کریمﷺ کی سنت ثابتہ اہل مدینہ کے عمل پر مقدم ہوگی۔‘‘

شیخ الاسلام ابن قیمؒ نے سو فیصد سچ فرمایا:

وَکَذٰلِك أَھلُ الرأیِ المُحَدِّثَ ینقمون علی اھل الحدیث وَحذب الرسول اخذھم بحدیثه وترکھم مَا خَالَفَه۔

’’جس طرح دوسرے اہل باطل اہل حق سے عناد اور بغض رکھتے ہیں اس طرح اہل الرائے (احناف) کو اہل حدیث کا یہ اصول برا لگتا ہے کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کی حدیث کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی بات کو تسلیم نہیں کرتے۔‘‘

بہرحال حدیث صحیح کی حجیت ائمہ اور تعامل امت کی محتاج نہیں۔ وہ فی نفسہ حجت ہے کہ وہ معصوم کی فرمودہ ہے، لہٰذا اس کے سامنے ائمہ کی اکثریت اور تعامل امت کی کوئی حیثیت نہیں۔

ملامعین (تلمیذ شاہ ولی اللہ) ’’دراسات اللبیب‘‘ میں فرماتے ہیں:

علمت انه کما یجب ترك قول امام واحد مکالف بالحدیث کذلك یجب ترك قول ماة امام مثلا اذا کان مخالفا بالحدیث الصحیح فلو وجدنا حدیثا صحیحا خالفة الائمة الاربعة رحمھم اللہ یجب علینا ترك أقوالھم فورا۔

’’ہمارے مظبوط دلائل کی روشنی میں تجھے علم ہو چکا ہے کہ صحیح حدیث کے سامنے جیسے ایک امام کے قول کو ترک کر دینا واجب ہے۔ اسی طرح سواماموں کا قول بھی ترک کر دینا واجب ہوگا۔ لہٰذا اگر ہم ائمہ اربعہ کے قول کو بھی کسی صحیح حدیث کے خلاف پاتے ہیں تو ہم پر واجب ہے کہ ہم فوراً ان اقوال کو ترک کر دیں اور حدیث پر عمل کریں۔‘‘

بنابریں احادیث صحیحہ کے سامنے اکثر اہل علم، تعامل امت مکہ یا مدینہ والوں کے عمل کی دھونس بے فائدہ ہے ؎

اگرنہیں ہے جستجوئے حق کا تجھ میں ذوق شوق

امتی کہلا کے پیغمبر کو تو رسوا نہ کر

ہے فقط توحید وسنت امن وراحت کا طریق

فتنہ جنک وجدل تقلید سے پیدا نہ کر

بیس رکعت تراویح پر اجماع کی اصلیت:

آپ نے اپنی تقریر دل پذیر میں جو یہ فرمایا ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعینؒ، ائمہ اربعہ اور پوری امت کا بیس پر اجماع ہو چکا ہے اور ایسے اجماع کے مخالف پر’’ رب دی پھٹکار پیندی اے، رحمت نئیں ہندی‘‘ یعنی آٹھ رکعت تراویح کے قائلین آپ کے نزدیک لعنتی ہیں۔ سبحان اللہ! قربان جاؤں آپ کی شیریں بیانی کے   ؎

کچھ مجھ سے سیکھ لو روش گفتگو اے شوخ

پھر دلستاں بنو گے ابھی بے زباں سے ہو

بہرحال آپ کا یہ ادعا بھی فریب دہی یا فریب خوردگی کا مظہر ہے۔ لہٰذا جس کا اجمالی جواب تو تعامل امت کی بحث میں آچکا ہے۔ اب تفصیلی اور تحقیقی جواب ملاحظہ فرمائیے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ائمہ اربعہ اور امت کے اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے مگر ازروئے تحقیق یہ اجماع ثابت نہیں۔

صحابہ رضی اللہ عنہم سے گیارہ رکعت کا ثبوت:

مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ؛ أَنَّهُ قَالَ: [ص:159] أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيماً الدَّيْرِيَّ (1) أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً (2) .

قَالَ: وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ. وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلاَّ فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ. (مؤطا مام مالک: باب قیام شھر رمضان ص۹۸)

’’حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت تمیم داری کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں اور امام تراویح میں سو سو آیات والی سورتیں پڑھتا تھا، حتی کہ طویل قیام کی وجہ سے ہمیں لاٹھیوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ اور ہم نماز تراویح سے فجر کے قریب فارغ ہوتے تھے۔‘‘

فائدہ۔۔۔۔ : امام مالک اس اثر کو نقل کرنے میں متفرد نہیں، بلکہ امام ابن ابی شیبہ، امام سعید بن منصور، امام یحییٰ سعید بن قطان اور امام طحاوی نے بھی اس فرمان عمر رضی اللہ عنہ کو روایت کیا ہے۔

۱۔     مصنف ابن ابی شیبہ کے الفاظ یہ ہیں:

عن السائب بنیزید اخبرہ انَّ عُمَرَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيٍّ وَتَمِيمٍ فَكَانَا يُصَلِّيَانِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَقْرَآنِ بِالْمِئِينَ» يَعْنِي فِي رَمَضَانَ۔ (مصنف ابن ابی شیبة ج۲ص۳۹۲)

۲۔     سنن سعید بن منصور میں الفاظ یہ ہیں:

حدثنا عبداللہ بن محمد حدثنی محمد بن یوسف سمعتُ السائب بن یزید یقول کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب باحدی عشرة رکعة۔ (تحفة الاحوذی: ج۲ص۷۳ وزرقانی: ج۱ص۲۳۹)

’’محمد بن یوسف کا بیان ہے کہ میں نے سائب بن یزید سے سنا وہ کہتے تھے کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔

حافظ عبدالرحمان مبارک پوری ارقام فرماتے ہیں

رواہ ایضا سعید بن منصور وابو بکر بن ابی شیبۃ قال النیسوی الحنفی فی اثار السنن اسنادہ صحیح۔ (تحفة الاحوذی: ج۲ص۷۳)

۳۔          امام طحاوی نے اپنی سند کے ساتھ امام مالکؒ کی پوری عبارت بعینہ روایت فرمائی:

ھذا نصه حدثنا ابو بکرة حدثنا روح بن عبادة قال ثنا مالك عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید قال أمر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة۔ (شرح معانی الاثار: ج۱ص۲۰۲)

ترجمہ گزر چکا ہے۔

۴۔  تابعه (مالکا) عبدالعزیز بن محمد عند سعید بن منصور ویحیی بن سعید القطان عند ابی بکر بن ابی شیبة کلاھما عن محمد بن یوسف الخ۔ (تحفة الأحوذی: ج۲ص۷۴)

امام طحاوی حنفی کی روایت سمیت یہ چار صحیح الاسناد آثار عبدالرزاق کے بیس رکعات والے اثر کو مرجوح ٹھہرا رہے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تمام صحابہ رضی اللہ عنہم مرد اور عورتیں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے۔ جس سے نہ صرف آپ کا بیس رکعت پر اجماع کا دعویٰ باطل ہوا بلکہ گیارہ رکعت پر اجماع صحابہ بھی ثابت ہوا۔ والحمدللہ علی ذلک        ؎

جو بات حق ہے وہ ہم سے چھپی نہیں رہتی

خدا نے ہم کو دیا ہے دل خبیر وبصیر

تابعین سے گیارہ رکعت کا ثبوت:

مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ جَدِّهِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي زَمَنَ عُمَرَ فِي رَمَضَانَ ثَلَاث عشرَة قَالَ بن إِسْحَاقَ وَهَذَا أَثْبَتُ مَا سَمِعْتُ فِي ذَلِكَ وَهُوَ مُوَافِقٌ لِحَدِيثِ عَائِشَةَ فِي صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ۔ (فتح الباری: ج۴ص۲۰۴)

’’سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابی کہتے ہیں کہ ہم صحابہ وتابعین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تیرہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ امام محمد بن اسحاق تابعی فرماتے ہیں کہ تراویح کے بارے میں تیرہ رکعت کا عدد زیادہ ثبوت کو پہنچا ہے۔ اور وہ موافق ہے رسول اللہﷺ کی نماز شب کے۔‘‘

شیخ عبد الحق حنفی:

لکھتے ہیں:

وروی انه کان بعض السلف فی عھد عمر بن عبد العزیز یصلون باحدی عشرة رکعة قصد للتشبیہ برسول اللہﷺ ماثبت بالسنة۔ (ص۲۲۴)

’’بعض روایت میں ہے کہ کچھ سلف صالحین (تابعین) حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت میں گیارہ رکعت تراویح ادا کیا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ تعداد رکعات میں مشابہت اور سنت ثابتہ کی پیروی کی غرض سے۔‘‘

اس روایت سے دو باتیں ثابت ہوئیں: ایک تو دعویٰ! اجماع بیس کا باطل ہوگیا۔ کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ تابعین کا ہے جس میں کبار تابعینؒ بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم میں موجود تھے۔ دوسرے یہ ثابت ہوا کہ سلف صالحین گیارہ رکعت رسول اللہﷺ کی مشابہت کی نیت سے پڑھتے تھےجیسا کہ آج کل اہل حدیث اسی نیت سے گیارہ رکعت تراویح پڑھتے ہیں، فنعم الوفاق  ؎

مقام خویش اگر خواہی دریں دیر

بحق دلبند وراہ مصطفیٰ رو

محمد عربی کو آبرو بروئے ہر دوسرا ست

کسے کہ خاک درش نیست خاک برسراو

شیخ موصوف نے اشعۃ اللمعاتہ میں دو جگہ یہ تصریح فرمائی ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تشبیہ کی نیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔  (اشعۃ اللمعات: ج۱ص۵۸۶)پس اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بعض لوگو تخفیف فراءت کی غرض سے بیس پڑھنے لگے ہوں تو کچھ اس کے منافی نہیں۔ ہم کو اس سے کچھ انکار نہیں، لیکن یہ عدد بہر حال مسنون نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ پہلے اکابر احناف کی شہادتوں میں اسی امر کی مکمل تفقیح ہوچکی ہے وہ مان چکے ہیں کہ مسنون عدد صرف گیارہ مع الوتر ہی ہے۔

صحابہ، تابعین سے بیس سے زیادہ کا ثبوت:

إن معاذا ابا حلیمة القاری کان یصلی بالناس احدی واربعین رکعة۔ (قیام اللیل: ص۱۵۸)

’’ابن سیرین کہتے ہیں کہ حضرت معاذ ابو حلیمہ رضی اللہ عنہ قاری لوگوں کو رمضان میں اکتالیس رکعتیں پڑھایا کرتے تھے۔‘‘

مگر یہ اثر منقطع ہے۔ لہٰذا حجت نہیں لیکن چونکہ احناف کے نزدیک منقطع روایت حجت ہوتی ہے، اس لئے آپ کے دعویٰ کے رد میں اسے پیش کیا گیا اور بس۔ صحابہ کی تراویح کے متعلق ہمارا وہی مؤقف ہے جو اوپر تحریر ہو چکا۔

۲۔ أن عمر بن الخطاب امر ابیا فأمھم فی رمضان وکان یقرءبھم خمس آیات وست آیات فی کل رکعة ویصلی بھم ثمانیة عشر شفعا یسلم فی کل رکعتین۔(قیام اللیل ص۱۵۵)

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی کو تراویح کا امام مقرر فرمایا۔ وہ لوگوں کو ہر رکعت میں پانچ چھ آیات سناتے تھےاور چھتیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔‘‘

اس اثر کے راوی حسن بصری ہیں جو کہ درمیانہ درجہ کے تابعی ہیں۔

۳۔مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی دیوبندی لکھتے ہیں:

کوفہ میں اسود بن یزید المتوفی ۷۵ھ چالیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ یہ واضح رہے کہ اسود حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت حذیفہ، حضرت بلال اور دوسرے صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کے صحبت یافتہ تھے۔ (رکعات تراویح بحوالہ انوار مصابیح: ص۲۵۱)

۴۔          نافع حضرت ابن عمر کے مولیٰ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے تو لوگوں کو چھتیس تراویح اور وتر پڑھتے ہوئے دیکھا اور پایاہے۔ (رکعات تراویح بحوالہ انوار مصابیح:ص۳۵۳)

۵۔          وہب بن کیسان بھی تابعی ہیں، ان کا بیان ہے کہ مازال الناس یقومون بست وثلاثین رکعۃ ویوترون بثلاث إلیٰ الیوم فی رمضان(قیام اللیل ص۱۵۵) یعنی رمضان میں لوگ برابر تراویح کی چھتیس اور وتر کی تین رکعتیں پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ آج تک اس پر عمل جاری ہے۔

۶۔تابعین سے سولہ رکعت کا ثبوت:

کان ابو مجلز یصلی بھم اربع ترویحات ویقرءبھم سبع القرآن فی کل لیلة۔ (قیام اللیل: ص۱۵۸)

’’ابو مجلز(تابعی متوفی ۱۰۹ھ) لوگوں کو چار تراویح (سولہ رکعتیں) پڑھایا کرتے تھے اور ہر رات ان کے ساتھ قرآن پاک کی ایک منزل پڑھتے تھے۔‘‘

مجلز کا نام لاحق بن حمید بصری ہے۔ انہوں نے مندرجہ ذیل صحابہ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ حضرت ابو موسی اشعری، حضرت حسن بن علی، حضرت معاویہ، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابن عباس، حضرت انس اور حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت حفصہ وغیرہ رضی اللہ عنہم۔ (تھذیب التھذیب: ج۱۱ص۱۷۱)

پس ان روایت سے ثابت ہوا کہ بیس رکعت پر تابعین کے اجماع کا دعویٰ محض دھونس اور نری فریب کاری ہے۔ لہٰذا شاہ صاحب کی کدمت میں گزارش ہے                ؎

ان مسائل میں ہے کچھ ژوف نگاہی درکار

یہ حقائق ہیں تماشا ہائے لب بام نہیں

ائمہ اربعہ کا بیس پر اجماع ثابت نہیں:

فَسَوفَ تَریْ إذا اِنْکَشفَ الْغُبارُ

أَفَرْسُ تَحْتَ رِجَلِك اُمْ حمارُ

حافظ سیوطی اپنے رسالہ المصابیح میں حضرت امام مالک کا مسلک اور پسندیدہ عمل بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

قال ابن الجوری ان اصحابنا عن مالك انه قال الذی جمع علیه الناس عمر بن خطاب اھب الی وھو احذی عشرة رکعة وھی صلوة رسول اللہﷺ قیل له احدی عشرة رکعة بالوتر؟ قال نعم وثلث عشرة قریبا منه قال ولا ادری من این احدث ھذا الرکوع الکثیر۔ (تحفة الاحوذی: ج۲ص۷۳۔المصابیح فی صلوة التراویح۔)

’’ہمارے اصحاب سے امام ابن جوزیؒ نقل کرتے ہیں کہ امام مالکؒ نے فرمایا کہ تراویح کی جس تعداد پر لوگوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمع فرمایا تھا وہ تعداد مجھے محبوب تر ہے اور وہ گیارہ رکعات ہیں اور یہی نماز رسول اللہﷺ کی تھی۔ کسی نے امام مالکؒ سے پوچھا کہ کیا وتر سمیت گیارہ ہیں؟ فرمایا: ہاں اور تیرہ رکعات جو لوگوں میں رائج ہیں مجھے اس کی وجہ اور علت معلوم نہیں کہ زیادہ رکعتیں کہاں سے اور کیونکر جاری ہوئیں۔‘‘

علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں:

وقیل احدی عشرۃ رکعۃ وھو اختار مالک لنفسہ واختارہ ابو بکر ابن العربی۔ (عندۃ القاری: ج۵ص۳۵۸، تحفۃ الاحوذی: ج۲ص۷۳)

’’ایک قول گیارہ رکعت کا ہے۔ امام مالکؒ کو یہی تعداد پسند تھی اور اسی تعداد کو مشہور مالکی فقیہ ابو بکر ابن العربی نے پسند فرمایا۔‘‘

مسلک امام شافعیؒ:

آپ کا مسلک بھی گیارہ رکعت مع الوتر کا ہے۔ امام بیہقی کتاب ’’معرفۃ السنن والآوثار‘‘ میں ارقام فرماتے ہیں:

قال الشافعی اخبرنا مالك عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب وتمیم الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة ھذا مذھبنا۔ (معرفة السنن والاثار: ج۱ص۴۴۷۔ وفتاوی علماء حدیث: ج۶ص۳۲۰)

’’حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ہم کو امام مالکؒ نے خبر دی انہوں نے محمد بن یوسف سے روایت کی اور انہوں نے سائب بن یزید سے اور سایب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں، امام شافعی فرماتے ہیں۔ یہی ہمارا مذہب ہے۔(قیام اللیل: ص۲۰۲)

اعتراض: امام ترمذی نے لکھا ہے امام شافعیؒ بیس رکعت تراویح کے قائل تھے۔ لہٰذا ان دونوں اقوال میں جو تعارض ہے اس کا حل کیا ہے؟

جواب:    احتمال ہے کہ پہلے امام شافعیؒ بیس رکعت کے قائل ہوں اور بعد میں دلیل کی پختگی کی وجہ سے گیارہ تراویح کو اپنامذہب قرار دے لیا ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیس کے استحباب کے قائل ہوں۔ چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے:

وَعَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُومُونَ بِالْمَدِينَةِ بِتِسْعٍ وَثَلَاثِينَ وَبِمَكَّةَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ وَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ ضِيقٌ وَعَنْهُ قَالَ إِنْ أَطَالُوا الْقِيَامَ وَأَقَلُّوا السُّجُودَ فَحَسَنٌ وَإِنْ أَكْثَرُوا السُّجُودَ وَأَخَفُّوا الْقِرَاءَةَ فَحَسَنٌ وَالْأَوَّلُ أَحَبُّ إِلَيَّ۔ (فتح الباری، ترتیب شیخ ابن باز: ج۴ص۲۵۳، طبع جدید ص۳۱۹)

’’امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو مدینہ میں ۳۹ رکعت تراویح اور مکہ مکرمہ میں ۲۳ رکعت تراویح پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، چونکہ یہ نفلی نماز ہے، لہٰذا اس میں رکعات کی کمی بیشی میں کوئی حرج نہیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ اگر لوگ رکعات کم پڑھیں اور قراءت زیادہ کریں تو اچھا ہے۔ اور اگر رکعات میں اضافہ کریں اور قراءت کم کر لیں تو بھی اچھا ہے، تاہم پہلی صورت، یعنی رکعات تھوڑی اور قرآن زیادہ پڑھا جائے تویہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔‘‘

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مسلک:

امام اہل السنہ احمد بن حنبلؒ کسی معین عدد کے قائل ہی نہیں۔ وہ اس نماز میں توسع کے قائل ہیں، چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں:

وقال أحمد روی فی ھذا الوان لم یقض فیه بشیء۔ (تحفة الاحوذی: ج۳باب قیام شھررمضان ص۷۶)

’’نماز تراویح کی معین تعداد کے متعلق مختلف روایات منقول ہیں، لہٰذا آپ نے تعداد رکعات تراویح کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔‘‘

امام محمد بن نصر مروزی لکھتے ہیں:

قال اسحق بن منصور قلت لاحمد بن حنبل کم من رکعة یصلی فی قیام شھر رمضان فقال قد قیل فیه الوان نحوا من أربعین إنما ھو تطوع۔ (قیام اللیل: ص۱۵۵،۱۵۱، وتحفة الاحوذی: ج۲ص۱۷۶)

’’اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے امام  احمد بن حنبلؒ سے پوچھا کہ تراویح کی کتنی رکعت پڑھنی چاہییں تو امام صاحب نے میرے جواب میں فرمایا کہ تراویح کی رکعات کے متعلق مختلف روایات آئی ہیں حتی کہ بعض روایات میں چالیس رکعات کا بھی ذکر ملتا ہے دراصل یہ نفل نماز ہے، لہٰذا اس میں توسع ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ:

رقم طراز ہیں:

خَیٌرُ اَحمَدُ بن حَنبِلٍ بَینَ اِحدیٰ عَشَرَة وَ ثَلٰثَ عِشرِیْنَ رَکْعَة۔(المسوی المصفی علی المؤطا: بان قیام شھر رمضان ص ۷۶۔)

شاہ صاحب المصفی میں لکھتے ہیں کہ امام احمد مخیٌر داشتہ است درادائے یا زدہ رکعت وبست وسہ رکعت۔ امام احمد نے گیارہ اور تئیس رکعت تراویح کے پڑھنے میں اختیار دیا ہے کہ ان دونوں میں جونسی تعداد چاہو پڑھ لو۔

ہماری اس طویل گفتگو سے ثابت ہوا کہ حضرت امام مالکؒ نے گیارہ رکعت تراویح مع وتر پسند فرمائیں۔ اور امام کا مذہب بھی یہی گیارہ رکعات کا ہے۔ اور امام احمد بن حنبل گیارہ اور تئیس میں کوئی ایک تعداد کو اختیار کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ بیس رکعات تراویح پرائمہ اربعہ کا جماع کا دعوٰی نرا فراڈ اور حدیث رسول پر عمل نہ کرنے کا بد ترین حیلہ اور ہتھکنڈہ ہے۔   ؎

زاہد نداشت تاب وصال پری رخاں

کنجے گرقت وترس خدارا بہانہ ساخت

آئیے! ہم آپ کو آپ کے حجۃ الاحناف علامہ عینی سے ملائے دیتے ہیں۔ آپ ان سے دریافت کر لیں کہ بیس پر اجماع کے دعوٰی کی انہوں نے قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں:

فِیْه ثَمَانِیَة اَقْوَال: اَلاَوٌلُ (۴۱) اَلثَّانَیْ (۳۶) اَلثَّالِثُ (۳۴) اَلرَّابعُ (۲۸) اَلْخَامِسُ (۲۴) اَلسَّادِسُ (۲۰) اَلسَّابعُ (۱۶) اَلثَّامَنُ (۱۱) وَذَکَرَ اَنَّ الْقَوْلَ الْآ خِیْرَ ھُوَ اَخْتَارَ مَالِك لِّنَفْسِہِ وَاخَتَارَہُ ابْنُ الْعَرَ بِیُّ الْمَالکِی۔

(عمدۃ القاری: ج۵ص۳۰۶،۳۰۸۔)

’’ رکعات التراویح کے بارے میں آٹھ قول مشہور ہیں: (۱) ۴۱ رکعتیں ہیں اہل مدینہ کا اسی پر عمل ہے (۲) ۳۲ رکعت ہیں، یہ بھی اہل مدینہ میں معمول بہ تعداد ہے۔ (۳) ۳۴ رکعت ہیں‘ زارہ بن ابی اوفیٰ عشرہ اخیر میں ۳۴ رکعت پڑھایا کرتے تھے۔ (۴) ۲۸ رکعت ہیں، کہ زارہ بن اوفیٰ پہلے دو عشروں میں اور سعید بن جبیر آخری عشرہ میں لوگوں کو ۲۸ رکعتیں پڑھایا کرتے تھے۔ (۵) ۲۴ رکعت، یہ ت۴تعداد بھی سعید بن جبیر سے مروی ہے۔ (۶) ۲۰ رکعت ہیں ہمارے حنفیہ کا اسی پر عمل ہے۔ (۷) ۱۶ رکعت اور آٹھواں قول گیارہ رکعت مع الوتر ہے۔ امام مالک اور ابن العربی مالکی نے اسی آخری قول کو پسند فرمایا ہے۔

لیجئے جناب:

اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ ائمہ ثلاثہ امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد حنبلؒ  میں سے کوئی بھی آپ کے اس خانہ ساز اجماع کا قائل نہیں۔ مزید برآں آپ کے علامہ عینی حنفیؒ کے الشہب قلم نے آپ کے اس اجماع کا انجر پنجر ہلا کے رکھ دیا ہے، اب آپ ہی فرمائیں کہ آپ کی اس بانگی پر کان دھریں یا ائمہ ثلاثہ اور علامہ عینی کی مذکورہ بالا تحقیق پر صادر کریں۔   ؎

کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے

لائے ہیں بزم یار سے لوگ خبر الگ الگ

لیجئے جناب یہ ہے اصلیت آپ کے اس مزعومہ اجماع کی جس کے برتے پر مخالفین کو ملعون قرار دیے بغیر آپ کو چین نہیں آیا۔

معاف کیجئے ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ نے براہ راست اپنے مذہب کی مسلمہ کتب  کو کبھی دیکھا ہے اور نہ دوادین حدیث کے مطالعہ کی ضرورت محسوس فرمائی ہے۔ مولوی خیر محمد جالندھری ایسے متعصب اور غالی حنفی اور ضیاء الدین ایسے جعل ساز حنفی کے رسالہ کے خام مواد کو حرف آخر باور کر کے اجماع کا دعوی جڑ دیا۔ یا پھر جان بوجھ کر حق و صداقت اور انصاف ودیانت کے خلاف اپنے اندھے مریدوں اور جاہل سامعین کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے تلبیس وتدریس سے کام لیا ہے جو آپ کی شان تقدس کے سراسر منافی ہے ۔ کاش! آپ ایسا نہ کرتے۔

بتائیے لعنتی کون؟

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عمر فاروق، حضرت ابی بن کعب، تمیم داری، سائب بن یزید اور دوسرے وہ تمام صحابہ مرد اور عورتیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بقید حیات تھے۔ ابو حلیمہ قاری محمد بن اسحاق، اسود بن یزید، وہب بن کیسان، ابو مجلز، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، صالح مولیٰ تو امہ داؤد بن قیس، زراہ بن اوفیٰ اور عمر بن عبد العزیز کے عہد کے ہزاروں تابعین (قیام اللیل للمروزی) امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ جیسے فقہاء محدثین، مجتہدین میں سے سوائے امام ابو حنیفہ کے سب کا مسسک اور فتویٰ بہرحال آپ کے مفروضہ اجماع کے خلاف ہے۔ پھر ان میں سے اکثر اہل علم بحکم حدیث عائشہ وفرمان فاروقی اس بات کے قائل وفاعل ہیں کہ تراویح مع الوتر کی تعداد گیارہ ہی ہیں۔ باقی اہل علم ۲۴ سے لے کر ۴۱ رکعت کے قائل ہیں۔ اور پھر امام محمد، ابن ہمام، طحطاوی، ملا علی قاری، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، علامہ عبدالحی لکھنوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، اور حضرت انور شاہ کاشمیری وغیرہ جیسے فقہاء احناف سب کے سب اس بات کے قائل ہیں کہ تراویح کی مسنون تعداد وتر سمیت گیارہ ہی ہیں۔ یعنی یہ سب اعیان علم وفضل حنفی ہوتے ہوئے بھی آپ کے اس لٹے پٹے اجماع کے مخالف ہیں، لہٰذا بتائیے کیا آپ کے فتویٰ شریف کے مطابق حنفی اکابر بھی لعنتی ٹھہرے یا نہیں۔ بینو تو جروا۔ اف رے تقلید تیرا ستیاناس۔     ؎

خزاں کے ہاتھ سے گلشن میں خار تک نہ رہا

بہار کیسی، نشان بہار تک نہ رہا

حرف محرمانہ:

یہ رہی آپ کے پیش کردہ ادعائی اجماع کی اصلیت؟ اگر آپ پسند فرمائیں اور آپ کی تقلید شخصی اس کی اجازت دے تو ہم بھی فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ کی اساس پر منعقد ہونے والے ایک ایسے اجماع کی نشان دہی کرتے ہیں جو ایمان افروز بھی ہے اور شفاعت رسولﷺ کا ضامن بھی۔ نیز یہ ایک ایسا اجماع ہے کہ رسول اللہﷺ کے کسی سچے محبّ اور راسخ فی العلم والاعتقاد مسلمان کو اس کی واقعیت اور صداقت میں پہلے کبھی شبہ گزرا ہے اور نہ قیامت تک گزر سکتا ہے۔ ھاموذ:

قال الامام الشافعی رحمه اللہ اجمع المسلمون علی ان من الستبان له سنة عن رسول اللہﷺ لم یحل له أن یدعھا بقول احد۔(صلوة التراویح للشیخ باصر الدین الالبانی ص ۹۶۔)

’’ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص پر رسول اللہﷺ کی سنت ثابت ہو جائے تو پھر اس کے لئے کسی امتی کے قول واجتہاد کے پیش نظر اس سنت ثابتہ کو چھوڑ دینا حلال نہیں     ؎

علمے کہ نہ ماخوذ رزمشکوۃ نبی است

واللہ کہ سیرابی از وتشنہ لبی است

جائے کہ بود مشعل حق شعلہ فروزا

تابع شدن حکم خرد بولہبی است

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص455

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ