سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(140) كیسا شخص امامت و خطابت کے قابل ہو گا؟

  • 14244
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1791

سوال

(140) كیسا شخص امامت و خطابت کے قابل ہو گا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جھوٹ بولنا، ۲۔وعدہ خلافی کرنا، ۳۔الزام تراشی، ۴۔غیبت،بہتان بازی، شرانگیزی، ۴۔مسجد کے چندہ کا حساب نہ دینا، ۵۔مسجد کی ملکیتی چیزوں کا باوجود روکنے کے ذاتی استعمال میں لانا، ۶۔زیور وجائیداد گروی رکھ کر اس پر(منافع) سود دینا، ۷۔ذاتی مفاد کی خاطر سرکاری کارندوں کو رشوت دینا، ۸۔احتجاج کرنے اور رشوت دینے کے گواہ پیش کرنے پر کہنا کہ سب جھوٹ ہے اور بدزبانی کرنا، ۹۔اپنے آپ کو عالم اور باقی سب کو مجالس میں کئی بار جاہل کہنا۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ترتیب وار رہنمائی کہ ایسا شخص امامت وخطابت کے اہل ہے؟  (سائل: میاں عبدالحق مقصود انسپکٹر ایکسائیز وٹیکسیشن ملتان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال اگر واقعی مذکورہ کبائر اور نقائص اس شخص میں پائے جاتے ہیں تو یہ صاحب امامت جیسے جلیل القدر اور مہتمم بالشان منصب پر فائز رہنے کا ہرگز اہل نہیں اور اب تفصیل وار اپنے مسئلہ کا جواب پڑھیے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔ (صحیح بخاری باب علامة النفاق ج۱ص۱۰ ومشکوة عن ابی ھریرة ص۱۷)

حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص میں مندرجہ ذیل چار ناپاک خصلتیں ہوں گی وہ خالص عملی منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے گی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی اور وہ یہ ہیں (۱) جب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کا ارتکاب کرے (۲) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳) وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (۴) جب جھگڑے تو گالی گلوچ پر اتر آئے وفی روایۃ عنہ اذا وعد اخلف الجامع الصحیح ج۱ص۱۰ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے جب تک وہ ان کبائر سے توبہ نہ کرے گا وہ منافق عملی، یعنی پرلے درجے کا فاسق آدمی ہوگا اور فاسق امامت کے لائق نہیں۔

۲۔ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ قَالَ: «مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ، وَيَدِهِ» (الجامع الصحیح البخاری باب ای الاسلام افضل ج۱ص۶)

ابو موسی اشعریؓ کہتے ہیں کہ صحابہ نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا اسلام افضل ہے؟ تو فرمایا: افضل مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور اس کے ہاتھ کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں۔

قال حذیفة سَمِعتُ رسول اللہﷺ یَقُولُ لا یَدْخُلُ الجنة قتات۔ (الجامع الصحیح باب ما یکره من التميمة ج۲ص۸۹۵)

حضرت حزیفہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہﷺ یہ فرما رہے تھے کہ غیبت کرنے والا جہنمی ہے وہ جنت میں نہیں جائے گا ثابت ہوا غیبت ایسا کبیرہ گناہ ہے جس سے آدمی جہنمی ہو جاتا ہے۔

نمبر۳: اس کا جواب، جواب نمبر۱،۲ میں اذا وتمن خان کے الفاظ میں آچکا ہے کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے۔

نمبر۴: چونکہ مسجد کا چندہ اور مسجد کی دوسری اشیاء اس کے پاس امانت ہیں اور نمازیوں نے اس کو امین جان کر ان اشیاء کا انچارج بنایا ہے۔ لہٰذا چندہ کا حساب نہ دینا اور اسی مسجد کی دوسری اشیاء کو ذاتی مصرف میں لانا صریحاً خیانت ہے جو امامت کے عہدہ کے سراسر منافی۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَ: " لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ " (رواه البیھقی فی شعب الایمان۔ مشکوة ج۱ص۱۵کتاب الایمان فصل ثانی۔)

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ جب کبھی رسول اللہﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تو یہ بھی فرماتے کہ جس میں امانت کی حفاظت کی خوبی موجود نہیں اس کا ایمان کامل نہیں اور اسی طرح اس آدمی کا دین معتبر نہیں جس میں وعدہ کی پاسداری نہیں۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امانت میں خرد برد کرنے والا عملہ فاسق اور ناقص الایمان ہے قرآن میں اِنَّ اللہ یَأمُرُکُمْ ان تَؤَدُّوالامٰنٰت الی اھلھا مزید برآن ہے گویا خائن آدمی قرآن کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے اور قرآن کا نافرمان امامت کااہل کیسے ہوسکتا ہے۔

نمبر۶: قطعی حرام ہے اور سود خود حرام خور ہے قرآن میں ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴿١٣٠﴾...آل عمران

اے ایمان والو  مت کھاؤ سود دونے پر دونا اور ڈرو اللہ سے تا کہ تمہارا بھلا ہو۔‘‘

﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ ...٢٧٥﴾...البقرة

’’جو لوگ کھاتے ہیں سود نہیں اٹھیں گے قیامت کو مگر جس طرح اٹھتا ہے وہ شخص کہ جس کے حواس کھو دئیے ہوں۔ شیطان نے لپٹ کر یہ حالت ان کی کہ انہوں نے کہا کہ سودا گری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود حالانکہ اللہ نے حلال کیا سوداگری کو اور حرام کیا سود کو۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ» ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: «الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ اليَتِيمِ، (الحدیث متفق عليه تنقیح الرواة ج۱ص۸)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا سات ہلاک کر دینے والے گناہوں سے بچو صحابہؓ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! وہ سات گناہ کون سے ہیں؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، قتل ناحق، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جہاد سے فراف، پاکدامن ایمان دار غافل پر زنا کی تہمت لگانا۔‘‘

عن جابر قال لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ وقال ھم سواء۔ (رواہ مسلم واخرجه ایضا احمد والنسائی وفی الباب عن ابن مسعود عند مسلم تنقیح الرواة شرح مشکوة ج۲ص۱۵۹)

’’حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور گواہ بننے والوں پر لعنت کی ہے اور یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا، أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ» (رواہ ابن ماجه والبیھقی فی شعب الایمان والحاکم بتعامه وصححه، تنقیح الرواة ج۲ص۱۶۲)

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں سب سے ہلکا درجہ یہ ہے کہ کوئی بے حیا اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرے۔ غرضیکہ سودخوری نہ صرف اکبر الکبائر گناہ ہے، بلکہ اقبح القبائح، یعنی سب کبیرہ گناہوں سے بدترین گناہ ہے، لہٰذا سود خود امامت کا اہل نہیں ہوسکتا۔

نمبر۷: ناحق مفاد کے لئے رشوت دینا لعنتی فعل ہے حدیث میں ہے۔

عن عبداللہ بن عمرو قال لعن رسول اللہﷺ الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِی (رواه ابو داؤد وابن ماجة ورواه الترمذی عنه واخرج الطبرانی وسعید بن منصور فی سننه بلفظ الراشی والمرتشی فی النار۔ (تنقیح الرواة باب رزق الولاة ج۳ص۱۳۴)

’’حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور طبرانی اور سعید بن منصور کی روایت میں رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ پس ملعون شخص امامت جیسے جلیل القدر کا اہل نہیں ہو سکتا۔

نمبر۸: بدزبانی کرنا اور گالی دینا یہ بھی کبیرہ گناہ ہے جیسے کہ سوال نمبر۱، اور نمبر۲ کے جواب میں اذا خصم فجر کے الفاظ ترجمہ قلم بند کئے جا چکے ہیں مزید سنئے! بخاری ومسلم میں ہے کہ:

عن عَبْدُ اللَّهِ بن مسعود  قال قال رسول اللہﷺ«سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ» (متفق عليه) (تنقیح الرواة باب حفظ اللسان ج۳ص۳۰۹)

کسی مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے اور یاد رہے کفر کے بعد فسوق کا درجہ ہے: یعنی گالی کا گناہ کفر سے چھوٹا اورعصیان سے بڑے درجہ کا گناہ ہے: لہٰذا گالی دینا مسلمان کی شان سے بعید ہے۔‘‘ جیسا کہ حدیث میں ہے۔

عن عبداللہ مسعود قال قال رسول اللہﷺ لیس المومن بِالطَّعَّانِ وَلا بِاللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا البَذِیِّ۔ (رواة الترمذی والبیھقی فی شعب الایمان تنقیح الرواة ص۳۱۵)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مومن شخص نہ کسی کو طعنہ دیتا ہے، نہ لعنت کرتا ہے، نہ گالی دیتا ہے، نہ بےحیا ہوتا ہے، اور نہ بد زبان ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ گالیاں بکنے والا کامل مومن نہیں بلکہ فاسق ہوتا ہے اور فاسق امامت کا اہل نہیں ہوتا۔‘‘

نمبر۹: ایسا شخص دراصل جاہل ہے اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ فوق کل ذی علم علیم حضرت موسی علیہ السلام جیسے مخلص رسول اللہﷺ بایں وجہ کہ چونکہ صاحب تو رات رسول اللہﷺ ہوں کہہ کر بیٹھے کہ آج دنیا میں مجھ سے بڑا عالم کوئی موجود نہیں تو ان کو حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جانا پڑا۔ (صحیح بخاری سورۂ کہف) بہرحال اپنے علم کی تعلی اور ادعا پرلے درجے کی ریاکاری ہے جو کہ کبیرہ گناہ ہے حدیث میں اپنا علم بھگارنے والے کی سخت مذمت وارد ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے:

عن کعب بن مالک قال قال رسول اللہﷺمَنْ طَلَبَ العِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ العُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ۔ (رواه الترمذی ورواہ ابن ماجة عن ابن عمر مشکوة ج۱ص۳۴)

حضرت کعبؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس لئے علم پڑھتا ہے ک علماء پر فخر کرے یا جھلاء کے ساتھ جھگڑا کرے یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے تو ایسے عالم کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل کرے گا۔ اعاذنا اللہ برحمة وفضله۔ آمین!

اسی طرح کی ایک لمبی حدیث صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ریا کارمولوی کو کہا جائے گا:

لَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِى النَّارِ، (صحیح مسلم باب من قائل الربا والسعة استحق النار ج۲ص۱۴۰)

’’اللہ فرمائے گا تو نے اس لئے علم حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لئے پڑھا کہ تجھے قاری القرآن کہا جائے سو تو عالم اور قاری مشہور ہوگیا: پھر اس کو جکڑ کر منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم پھینکا جائے گا اور ریاکار مولوی کے ساتھ معاملہ ریاکاری کاسا ہوگا۔‘‘

عن ابن عباس قال قال رسول اللہﷺ«مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ ، وَمَنْ يُرَائِي يُرَائِي اللَّهُ بِهِ» (صحیح مسلم ج۲ص۴۱۲)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص شہرت کے حصول کے لئے کوئی نیکی کرے گا تو اس کو شہرت مل جائے گی مگر ثواب نہیں ملے گا اور جو ریاکاری کے لئے علم وغیرہ کا ادعا کرے گا تو اس کے ساتھ ریاکاری جیسا سلوک کیا جائے گا۔‘‘

یہ ہے جناب آپ کے نواسئلہ کا ترکی بہ ترکی مدلل جواب اور یہ نو قباحتیں درجہ بدرجہ اقبح ترین قباحتیں ہیں جو عامی مسلمان کی شان مومنانہ سے بعید سے بعید تر ہیں: چہ جائیکہ امامت ایسے رفیع الشان اور جلیل القدر منصب پر فائز امام میں شرع اسلام ایسی قباحتوں کو کیسے برداشت کر سکتی ہے کیونکہ شریعت تو امام کے ہلکے گناہ کو بھی گوارا نہیں کرتی جیسا کہ قبلہ کی جانب تھوکنا اگرچہ سوئے ادبی اور جذباتی سا مسئلہ ہے مگر کبیرہ گناہوں میں شامل نہیں بشرطیکہ اس پر کسی کو اصرار نہ ہو بایں ہمہ رسول اللہﷺ نے قبلہ کی طر تھوکنے والے امام کو بھی منصب امامت سے معزول فرمادیا تھا۔ جیسا کہ سنن ابی داؤد مین ہے کہ:

عَنِ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ أَنَّ رَجُلًا أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِي الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَ: "لَا يُصَلِّي لَكُمْ" فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّيَ لَهُمْ فَمَنَعُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقَالَ: "نَعَمْ إنک اذیت اللہ ورسوله۔ (رواه ابو داؤد مشکوة ج۱ص۷۱ باب المساجد ومواضع الصلوة)

ایک پیش امام کو رسول اللہﷺ نے قبلہ کی سمت تھوکتے دیکھا تو اس کی قوم کو حکم دیا کہ آئندہ یہ شخص تم کو نماز نہ پڑھائے بعد ازاں پھر اس نے ان کو نماز پڑھانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس کو جائے نماز پر کھڑا ہونے سے روک کر کہا کہ رسول اللہﷺ نے آپ کو اس منصب سے معزول کر دیا ہے تو اس نے رسول اللہﷺ سے جب اس بارے میں رابطہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں میں نے روک دیا ہے رضوان اللہ علیہم اجمعین سائب بن خلاد صحابی راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے فرمایا کہ قبلہ کی جانب تھوک کر تو نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف پہنچائی ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگرچہ قبلہ کی طرف تھوکنا کبیرہ گناہ ہے، مگر سود جیسے کبائر میں شامل نہیں، جب قبلہ کی طرف تھوکنے والا امام ہونے کا اہل نہیں تو پھر کوئی شخص مذکورہ بالا نو کبائر کا مرتکب ہو کر امامت کا اہل کیسے ہو سکتا ہے یا اس کو کیسے اس منصب پر برقرار رکھا جا سکتا ہے کیونکہ احادیث کے مطابق ہو شخص امام نماز ہونا چاہیے جو سب مقتدیوں سے زیادہ متقی اور اصلح شخص ہو۔ احادیث ذیل ہیں:

۱۔ عن جابر عن النبیﷺ قال لایَؤُمَّنَّ فَاجِرٌ مُّؤمِناً إِلا ان یَقْھَرَ بِسُلْطَان یَخَافُ سیفه او سَوْطه۔ ( رواہ ابن ماجه نیل الاوطار باب ماجاء فی امامة الفاسق ج۳ص۱۶۲)

’’حضرت جابرؒ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ فاجر آدمی مومن کی امامت نہ کرائے مگر جب اس کی تلوار یا کوڑے یا ڈر ہو، یعنی وہ طاقت کے بل یا زبردستی امامت کرائے تو بامر مجبوری اس کی اقتدا جائز ہے ورنہ ہرگز نہیں۔

۲۔عن ابن عباس قال قال رسول اللہﷺ إِجْعَلُوْا أَئِمَّتَکُمْ خِیَارَکُمْ فَإِنَّھُمْ وَفْدُکُم بَیْنَکُمُ وَبَیْنَ رَبِّکُم۔ (رواه الدار قطنی نیل الاوطار ج۳ص۱۶۲)

’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے سے زیادہ اچھے اور متقی پابند شریعت شخصوں کو اپنا امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان نمائندے ہوں گے۔‘‘

۳۔وقد اخرج الحاکم فی ترجمة مرثد الغنوی عنهﷺ ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤمکم خیارکم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم ویوید ذلک حدیث ابن عباس المذکور فی الباب۔ (نیل الاوطار ج۳ص۱۲۴)

امام حاکم حضرت مرثد غنویؓ کے ترجمہ میں رسول اللہﷺ سے روایت کی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا اگر تم کو یہ بات خوش کرتی ہے کہ تمہاری نماز عنداللہ مقبول ہو تو پھر اپنے میں سے اچھےلوگوں کو اپنے امام نماز مقرر کیا کرو کیونکہ رب تعالیٰ کے حضور وہ تمہارے سفیر اور نمائندے ہوں گے۔

اس طویل بحث کا خلاصہ اور ماحاصل یہ ہے کہ مذکورہ کبائر کا مرتکب شخص امامت جیسے اہم ترین منصب کا ہرگز اہل نہیں اسے چاہیے کہ وہ ان کبائر سے اعلانیہ توبہ کرے ورنہ پھر نمازیوں کو شرعاً حق حاصل ہے کہ ایسے امام صاحب کو امامت کے منصب سے فارغ کر دیں۔ ہاں، اگر اس کی علیحدگی کی صورت میں کسی فتنے کا ڈر ہو تو پھر مناسب وقت کا انتظار کریں جب بھی موقع ملے اس کو امامت سے الگ کرنے میں تاخیر نہ کریں ورنہ ان کی نمازیں مجروح ہوتی رہیں گی۔

یہ جواب بشرط صحت سوال محض احقاق حق اورابطال باطل کے جذبہ سے سرشار ہو کر احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے نہ کسی کو خوش کرنا یا اس کی حمایت مقصود ہے اور نہ امام صاحب مذکور سے راقم کو کوئی کداورپرخاش ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص446

محدث فتویٰ

تبصرے