السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چرم قربانی کی قیمت اگر مساجدکی تعمیر و فرش وغیرہ میں لگائی جائے تو یہ درست ہوگا یا نہیں نیز اموال زکوٰۃ کو مساجدکے اخراجات میں صرف کرنا درست ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی کے چمڑے مساجد کی تعمیر وفرش وغیرہ میں نہیں لگ سکتے کیونکہ قربانی کے چمڑے قربانی کے گوشت کا حکم رکھتے ہیں اور ایک حدیث میں ہے:« من باع جلد اضحیة فلا اضحیة له۔» (ترغیب ترہیب صفحہ 189) جس نے قربانی کا چمڑہ فروخت کیا اس کی قربانی نہیں پس جیسے گوشت فروخت کرکے اس کی قیمت مسجد وغیرہ پر نہیں لگ سکتی۔ اسی طرح وہی حکم قربانی کے چمڑے کا ہے ہاں گوشت او رچمڑہ قربانی کا صدقہ کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ وغیرہ میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو گوشت اور چمڑے جھولیں وغیرہ صدقہ کرنے کا امر فرمایا۔ اب جس پر صدقہ کیا ہے وہ جو مرضی ہوکرے۔ خواہ خود کھائے یابیچے یا کسی اور استعمال میں لائے۔ اگر یہ فروخت کرکے قیمت مسجد کے لیے دینا چاہے تو اس کا کوئی حرج نہیں کیونکہ جس پر صدقہ ہو وہ اس میں ہر طرح کا تصرف کرسکتا ہے او راس کا حکم پہلا نہیں رہتا بلکہ بدل جاتا ہے اور اس طرح اگر چمڑہ قربانی و فروخت کئے بغیر مسجد میں استعمال کرلیا جائے جیسے مسجد کے کنوئیں کا ڈول بنا لے یا نماز کے لئے مصلّٰی بنا لے تو اس کا کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے خود گوشت کھاتا ہے یا کھلاتا ہے۔
اموال زکوٰۃ کو مساجد میں صرف کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ زکوٰۃ کے کسی مصرف میں داخل نہیں صرف فی سبیل اللہ میں داخل ہونےکا شبہ ہوتا ہے مگر اس کی صحیح تفسیر جہاد او رحج ہے۔ جہاد کے داخل ہونے پر تو سب متفق ہیں۔ حج بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔اس کی بابت ابوداؤد میں صریح حدیث موجود ہے اور "نیل الاوطار کتاب الزکوٰة باب الصرف فی سبیل اللہ" میں بعض اور روایتیں بھی ذکر کی ہیں۔ جن میں تصریح ہے کہ حج فی سبیل اللہ میں داخل ہے اور بعض روایتوں میں عمرہ کی بھی تصریح ہے بعض کہتے ہیں فی سبیل اللہ کا لفظ عام ہے کوئی کارخیر ہو اس میں میں خرچ کرسکتے ہیں۔
تفسیر فتح الباری جلد 4 صفحہ 424 میں ہے:
«وقیل ان اللفظ عام فلا یجوز قصره علیٰ نوع خاص و یدخل فیه جمیع وجوه الخیر من تکفین الموتیٰ و بناء الجسور والحصون و عمارة المساجد و غیر ذالک والاول اولیٰ الاجماع الجمهور علیه۔ »
’’یعنی کہا گیا ہے کہ فی سبیل اللہ کا لفظ عام ہے اس کو ایک قسم پر بند کرنا جائز نہیں اور اس میں تمام کار خیر داخل ہیں۔ جیسے مُردوں کو کفن دینا، پل بنانا، قلعے اور مسجدیں تعمیر کرنا وغیرہ او رپہلی صورت (جہاد مع حج مراد ہونا) بہتر ہے کیونکہ اس پر جمہور کا اجماع ہے۔‘‘
تفسیر خازن جلد 2 صفحہ 254 میں ہے:
«وقال بعضهم ان اللفظ عام فلا یجوز قصره علی الغزاة فقط وهذا اجاز بعض الفقهاء صرف سهم سبیل الله الی جمیع وجوه الخیر من تکفین الموتٰی و بناء الجسور والحصون وعمارة المساجد و غیر ذالک قاللان قوله وفی سبیل الله عام فی الکل فلا یختص بصنف دون غیره والقول الاول هو الصحیح لا جماع الجمهور علیه۔»
’’یعنی بعض نے کہا ہے کہ فی سبیل اللہ لفظ عام ہے پس اس کو صرف غازیوں پر بند کرنا جائز نہیں اس لیے بعض فقہاء نے سبیل اللہ کا حصہ ہر کارخیر میں صرف کرنا جائز قرار دیا ہے۔ مثلاً مُردوں کو کفن دینا، پل بنانا، قلعے اور مسجدیں تعمیر کرنا وغیرہ۔ انہوں نے (بعض فقہاء نے) کہا ہےکہ فی سبیل اللہ کا لفظ عام ہے ایک قسم کے ساتھ بند نہیں ہوگا او رپہلا قول صحیح ہے کیونکہ اس پرجمہور کا اجماع ہے۔ اسی قسم کی عبارت تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 414 میں ہے۔‘‘
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ لفظ فی سبیل اللہ عام ہے اور یہ بھی معلوم ہواکہ بعض فقہاء اس طرف گئے ہیں اگر اس پر کوئی عمل کرے تو اس پر اعتراض تو نہیں ہوسکتا مگر چونکہ زکوٰۃ فرضی صدقہ ہے اس کو ایسی طرز پر ادا کرنا چاہیے جس میں تردّد نہ رہے پس بہتر ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد لیا جائے یا حج عمرہ کیونکہ جہاد تو بالا تفاق مراد ہے او رحج عمرہ حدیث نے داخل کردیا ہے۔ باقی کے داخل ہونے میں شبہ ہے۔ لفظ اگرچہ عام ہے مگر جیسا عام ہے ویسا رکھا جائے تو پھر فقراء و مساکین وغیرہ کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی۔ حالانکہ اس آیت میں فقراء و مساکین وغیرہ کا الگ ذکر کیا ہے اس لیے ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد خاص ہے اور خاص بغیر دلیل کے مراد نہیں ہوسکتا اور دلیل یا تو آیت ہے یا اتفاق مفسرین ہے جیسا جہاد کے مراد ہونے پر اتفاق ہے یا حدیث اور تفسیر صحابہؓ ہے جیسا حج و عمرہ مراد ہونے پر ہے باقی کی بابت کوئی دلیل نہیں۔ جہاد جیسا تلوار سے ہوتا ہے ویسا ہی زبان سے بھی ہوتا ہے جیسا کہ حدیث مشکوٰۃ میں ہے:« فمن جاهدهم بیده فهو مومن ومن جاهدهم بلسانه الحدیث۔»’’یعنی جو ہاتھ سے ان کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو زبان سے ان کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو دل سے ان کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہے اور اس کے ذرے رائی برابر ایمان نہیں۔‘‘ پس اس میں مناظرے اور اشاعت اسلام پر خرچ کرنا داخل ہوگیا۔ لیکن اس میں تھوڑی سی تفصیل ہے وہ یہ کہ ایسی شے پر صرف نہ کرے جو وقف ہو جیسے مدرسہ کی عمارت خرید کتب وغیرہ چونکہ اس سے پھر وہی صورت پیدا ہوجائے گی جس میں اختلاف ہے جیسے مسجدوں اور قلعوں کا تعمیر کرنا حالانکہ قلعے دشمن سے جنگ کرنے کے لیے او راس سے حفاظت کے لیے بنائے جاتے ہیں او رمسجدیں نماز اور تعلیم اور تعلّم کے لیے ہوتی ہیں۔ خاص کر قرآن و حدیث کا پڑھنا او رپڑھانا عین اشاعت اسلام ہے مگر پھر بھی جمہور اور مفسرین اس کے خلاف ہیں اس لیے زکوٰۃ کا مال مدارس کی عمارت اور خرید کتب وغیرہ پر صرف ہونے میں شبہ ہے۔ اس میں احتیاط چاہیے ہاں زکوٰۃ کی مد دسے طلباء کی امداد کی جائے وہاں سے کتب خریدیں یا کسی اور ضرورت میں خرچ کریں تو بہت اچھا ہے۔ اس طرح مدرسین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات سے ہوسکتے ہیں لیکن اگر غنی ہو تو اس کو بچنا بہتر ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ وغیرہ اس طرف گئے ہیں کہ جنگ میں وہی شخص زکوٰۃ لے سکتا ہے جس کے پاس خرچ نہ ہو پس جب جنگ میں غنی کی بابت اختلاف ہوا تو تعلیم و تعلّم کا معاملہ تو اس سے بہت نازک ہے کیونکہ فی سبیل اللہ سے اصل مراد تو جنگ ہے اور حدیث کی تصریح نے حج عمرہ کو بھی اس میں داخل کردیا ہے۔ تعلیم و تعلّم مناظرہ وغیرہ کی بابت تصریح نہیں آئی صرف ایک قسم جہاد ہونے کی وجہ سے داخل کیا گیا ہے اس لیے اس میں احتیاط برتنی چاہیے اور غنی کو پرہیز رکھنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب