السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی رفع الیدین آمین بالجہر اور سورۂ فاتحہ خلف الامام کا قائل نہیں، اگر وہ نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی یا نہیں جبکہ ان درج کردہ چیزوں کے قائل آدمی پیچھے کھڑے ہوں اور وہ بھی نماز پڑھا سکتے ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چونکہ سورہ فاتحہ نماز کی رکن ہے اور اس کا پڑھنا واجب ہے، جیسا کہ امام بخاری نے اپنی الجامع الصحیح کی بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ سے ظاہر باہر ہے اورعن عبادة بن الصامت أن رسول اللہﷺ قال لا صلوۃ إلا بفاتحة الکتاب اس وجوب کی قطعی دلیل اور جلی برہان ہے اور اسی طرح ہے اور اسی طرح رفع الیدین عند الرکوع والرفع عنہ بھی متواتر اور متوارث سنت ہے اور آمین بالجہر بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، لہٰذا ان تینوں کے تارک امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا خطرہ سے خالی نہیں۔ اس لیے ایسے امام کی اقتدا سے گریز میں ہی عافیت اور سلامتی ہے ورنہ نماز میں نقصان خارج ازامکان نہیں۔ ہاں اتفاقاً ایسے امام کی اقتدا میں پڑھی گئی نماز جائز ہوگی۔ شیخ الکل فی الکل السید نذیر حسین محدث دہلوی فرماتےہیں کہ مخالف مذہب امام کی اقتدا جائز کیونکہ جماعت بنے رہنا رحمت ہے اور تفرقہ بازی اللہ کی سزا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا...١٠٣﴾...آل عمران اللہ کی رسی کو تھامے رکھو اور فرقہ نہ بنو، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور تمام مجتہدین کے زمانہ یہی دستور رہا ہے کسی ایک بھی امام سے مخالف مذہب کی اقتدا سے مخالف ثابت نہیں ہوئی۔ وہ ہر مسلمان کے پیچھے اقتدا کو جائز سمجھتے کیونکہ وہ دین کے اصول میں متحد تھے اور فروع میں وہ اجتہاد کرتے تھے۔ ہر ایک یہ کوشش کرتاتھا کہ بہتر سے بہترچیز سامنے لائے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ظنی دلائل میں اپنے آپ کو یقیناً حق پر اور مخالف کو یقینی غلطی پر نہیں سمجھتے تھے۔ وہ ہر ایک کو اجتہاد کا حق دیتے تھے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ ملا علی قاری نے رسالہ الاقتداء بالمخالف میں ایسا ہی لکھا ہے۔ فتاویٰ نذیرہ۔ شرک وبدعت میں امتیاز قائم نہیں اور نہ شرک وبدعت کا بڑا بونگ تھا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب