السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جھوٹےاور دھوکے باز امام کی امامت کا حکم کیاہے؟ (سائل: حافظ محمد حیات فروکہ ضلع سرگودھا)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسے دھوکہ باز اور جھوٹے انسان کو پیش امام مقرر کرنا جائز نہیں کیونکہ دھوکہ سے مال بٹورنا حرام ہے۔ مشہور حدیث ہے:
إن دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حرام علیکم عن جابر وفی رواية ابی بکرة قال رسول اللہﷺ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، وَأَبْشَارَكُمْ، عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا۔ (صحیح البخاری ج۲،ص۱؍۱۰۴)
’’تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزتیں اور تمہارے جسم اور چمڑے تم پر حرام ہیں اور دوسری روایت کے مطابق تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزتیں اور تمہارے جسم اور تم پر حرام ہیں۔‘‘
اور اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((من غش فلیس منا)) اور حرام خود آدمی امامت کا اہل نہیں۔
حدیث میں ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول اللہﷺ إِجْعَلُوْا أَئِمَّتَکُمْ خِیَارَکُمْ فَإِنَّھُمْ وَفْدُکُم بَیْنَکُمُ وَبَیْنَ رَبِّکُم۔ (رواه الدار قطنی، نیل الاوطار ج۳ ص۱۶۲۔ وقد اخرجه الحاکم فی ترجمة مرثد الغنوی عنه أن سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤمکم خیارکم فإنھم وفدم فیما بینکم وبین ربکم ویویذ ذلک حدیث ابن عباس المذکور۔ نیل الاوطار، ج۳ص۱۶۴)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنے میں سے اچھے لوگوں کو اپنا پیش امام بناؤ کیونکہ وہ حساب کے دن اللہ کے دربار میں تمہارے نمائندے ہوں گے اور حضرت مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں تو اپنے میں سے بہتر (یعنی متقی) لوگوں کو اپنا امام بناؤ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں تمہاری نمائندگی کریں گے۔
مشکوۃ شریف میں حدیث ہے کہ قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنے والے امام کو رسول اللہﷺ نے امامت کے منصب سے معزول کر دیا تھا، حالانکہ قبلہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا اتنا بڑا گناہ نہیں جتنا بڑا گناہ دھوکہ دے کر لوگوں کا مال بٹورنا ہے اور جھوٹ فراڈ سے لوگوں کا مال کھانا گناہ ہے۔ لہٰذا ایسے پیش امام کو ان کبائر سے توبہ کرنیا چاہیے ورنہ امامت کے منصب رفیع سے ازخود الگ ہوجانا چاہیے بصورت دیگر مقتدی حضرات اس کو امامت کے عہدہ سے الگ کر دیں۔ ورنہ مقتدی بھی تعاون علی الاثم والعدوان میں حصہ دار قرار پائیں گے اور نمازیں بھی ضائع ہوجانے کا خطرہ ہے۔ جواب بشرط صحت سوال تحریر میں لایا گیا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب