السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مرد عورتوں کی امامت کرا سکتا ہے جب کہ ان عورتوں کے ساتھ ایک مرد بھی شریک اقتدا نہ ہو؟(سائل: قاری محمد حنیف استاذ مدرسہ منور نکلسن روڈ لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی بشرطیکہ عورتیں متعدد ہوں اور باپردہ سادے لباس میں ہوں۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے رویت ہے:
جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟» ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا۔ (رواه ابو یعلی ونصیرانی بحوء فی الاوسط قال الھیشمی فی مجمع الزوائد ص۷۴ ج۲ أسناده حسن واخرجه ایضا محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل۔ مرعاة المفاتیح: ج۲ص۲۳۰)
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آج رات میں نے (اپنی سمجھ سے) ایک کام کردیا۔ یہ رمضان کے مہینہ کا واقعہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے دریافت کیا کہ کیا ہوا۔ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم کو قرآن یاد نہیں ہے۔ لہٰذا تراویح کی نماز آپ گھر ہی پڑھئے ہم بھی آپ کے پیچھے پڑھ لیں گی۔ چنانچہ میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور اس کے بعد وتر کے ساتھ نماز پڑھا دی۔ رسول اللہﷺ سن کر خاموش ہو گئے اور ایسا معلوم ہوا کہ آپ نے اس کو پسند فرمایا۔
اس تقریری حدیث (سنت) سے ثابت ہوا کہ مرد عورتوں کی امامت کرا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر حضرت ابی رضی اللہ عنہ کا یہ فعل جائز نہ ہوتا تو رسول اللہﷺ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار ضرور فرماتے۔ کیونکہ علمائے اصول کا قاعدہ ہے تاخیر البیان عند المحاجة لیس بجائز۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب