السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسجد میں ایک امام مقرر ہے، پھر کیا کسی مقتدی کو یہ حق ہے کہ اس امام کی موجودگی میں کسی دوسرے آدمی کو مصلی پر نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دے؟ جو شخص مصلی پر کھڑا ہے کیا اس کو نماز پڑھانے کا حق ہے یا نہیں؟ جواب حدیث کی رو سے دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ مقررہ پیش امام کی موجودگی میں نہ تو کسی مقتدی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے غیر مقرر آدمی کو مصلیٰ پر کھڑا کرے، اور نہ اس اکھڑ کئے جانے والے شخص کو نماز پڑھانے کا شرعاً حق حاصل ہے۔ الا یہ کہ مقرر پیش امام بطیب خاطر اس کو نماز پڑھانے کی اجازت دے دے۔ چنانچہ تحفۃالاحوذی باب من أحق بالامامۃ میں حضرت ابو مسعود الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَؤُمُّ القَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي القِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا، وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ» وقال عیسی حدیث ابی مسعود حدیث حسن صحیح والعمل علی ھذا عند اھل العلم وقال الامام عبدالرحمان المبارکفوری وأخرجه مسلم۔ (تحفة الاحوذی: ج۱ص۱۹۷)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ امامت وہ کرائے جو قرآن مجید اک زیادہ عالم ہو، اگر سب علم میں برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جس کو دوسروں کی نسبت حدیث کا زیادہ علم ہو۔ اگر سب نمازی علم حدیث میں بھی برابر کا ملکہ رکھتے ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جس نے سب سے پہلے ہجرت کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اگر وہ ہجرت مین بھی برابر ہوں تو پھر سب سے بڑی عمر کا آدمی امامت کے فرائض سرانجام دے اور کوئی آدمی دوسرے آدمی کی ولایت میں امام نہ بنے اور نہ اس کی مسند پر بیٹھنےکی کوشش کرے۔ ہاں، اگر وہ اجازت دے دے تو پھر یہ دونوں کام کرسکتا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ سلطان کے علاوہ مسجد کا پیش امام دوسروں کے مقابلہ میں امامت کا زیادہ مستحق ہے۔
كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُصَلِّي خَلْفَ الْحَجَّاجِ، وَصَحَّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ إِمَامَ الْمَسْجِدِ مُقَدَّمٌ عَلَى غَيْرِ السُّلْطَانِ۔ (تحفة الاحوذی: ص۱۹۷ج۱)
امام طیبیؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وتحريره أن الجماعة شرعت لاجتماع المؤمنين على الطاعة وتألفهم وتوادهم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانه أفضى ذلك إلى توهين أمر السلطنة وخلع ربقة الطاعة، وكذلك إذا أمّه في قومہ أهله أدى ذلك إلى التباغض والتقاطع وظهور الخلاف الذي شرع لرفعه الاجتماع، فلا يتقدم الرجل على ذي السلطنة لاسيما في الأعياد والجمعات، وعلى إمام الحي ورب البيت إلا بالإذن- (تحفة الاحوذی: ص۱۹۷ج۱)
’’جماعت کے ساتھ نماز کا حکم محض اس لیے دیا گیا ہے تا کہ مسلمانوں کے اندر سلطان کی طاعت اور باہمی الفت ومحبت کا جذبہ پیدا ہو، لہٰذا جب سلطان وقت کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص امامت کرائے گا تو اس سے نہ صرف امور سلطنت میں خلل آئے گا لوگوں کا سلطان کی اطاعت سے بھی دستکش ہونے کا احتمال پیدا ہوجائےگا۔ اور اسی طرح جب کوئی شخص دوسرے کے گھر میں امامت کرائے گا تو ان میں باہمی اتحاد وتنطیم کے لیے ہی مشروع کیاگیا ہے۔ لہٰذاکسی آدمی کے لے یہ جائزنہیں کہ وہ بادشاہ کی موجودگی میں عیدین اور فرائض کی جماعت کرائے اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ محلہ کے پیش امام کی اجازت کے بغیر اس کی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دے۔‘‘
اس تفصیلی گفتگو سے معلوم ہوا کہ محلہ کے پیش امام کی موجودگی میں سلطان وقت کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو امامت کرانے کا حق شرعاً حاصل نہیں، الا یہ کہ وہ پیش امام بطیب خاطر کسی دوسرے کو اجازت دے دے۔ مگر اجازت مصلیٰ پر کھڑے ہونے سے پہلے حاصل کرنی چاہیے، نہ کہ مصلیٰ پر براجمان ہو کر اجازت مانگی جائے۔ جو کہ جائز نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب