السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت امامت کے فرائض سرانجام سکتی ہے؟ (سائلہ: عاصمہ محمد علی غازی آباد لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت اپنی اقتدا کرنے والی عورتوں کی صف کے وسط میں کھڑی ہو کر امامت کروا سکتی ہے۔ اس کے جواز میں قطعاً کوئی شبہ نہیں۔ جیسا کہ سنن ابی داؤد (باب امامة النساء) میں حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی امامت کا ذکر ہے۔
عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَنْصَارِيَّةِرضی اللہ عنھا وکانت قد قرائت القران فَاسْتَأْذَنَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَّخِذَ فِي دَارِهَا مُؤَذِّنًا، فَأَذِنَ لَهَا، وَجَعَلَ لَهَا مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لَهَا، وَأَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَأَنَا رَأَيْتُ مُؤَذِّنَهَا شَيْخًا كَبِيرًا۔ (سنن ابی داؤد: ج۱ص۹۴،۹۵)
’’حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قرآن مجید پڑھ چکی تھیں۔ لہٰذا رسول اللہﷺ سے اپنے گھر ایک مؤذن مقرر رکھنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہﷺ نے اس کو مؤذن مقرر کرنے کی اجازت دے دی۔ اور دوسری روایت مین ہے کہ رسول اللہﷺ ان (ام ورقہ) کے گھر اس کی ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ اور آپ نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر فرمایا اور اسے اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم دیا۔ اس حدیث کے راوی عبدالرحمان بن خلاء کہتے ہیں کہ میں نے اس کے مؤذن کو دیکھا ہے۔ وہ بوڑھا شخص تھا۔
الشیخ البانی اس حدیث کی تخریج میں لکھتے ہیں:
رواہ ابو داؤد وابن الجارود فی المنتقی والدار قطنی والحاکم والبیھقی (ج۳ص۱۳۰) وأحمد (ج۶ص۴۰۵) وأبو القاسم الحامص فی المنتقی (ج۳) وأبو علی الصواف قلت وفی اسنادہ عبد الرحمن بن خلاد فمجهول الحال , وأورده ابن حبان فى " الثقات " على قاعدته! لكن هو مقرون بليلى فأحدهما يقوى رواية الآخر , لا سيما والذهبى يقول فى " فصل النسوة المجهولات ": " وما علمت فى النساء من اتهمت , ولا من تركوها۔ والحق انه حسن واللہ اعلم۔ (ارواء الغلیل: ج۲ص۲۵۵،۲۵۶)
کہ اگرچہ اس کا ایک راوی عبدالرحمٰن بن خلاد مجہول ہے: تاہم لیلیٰ بنت مالک تو ایسی مجہولہ راویہ نہیں، لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے کی روایت کو تقویت دے رہے ہیں، لہٰذا یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔
۲۔ عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ قَوْمِهِ اسْمُهَا حُجَيْرَةُ قَالَتْ: أَمَّتْنَا أُمُّ سَلَمَةَ قَائِمَةً وَسَطَ النِّسَاءِ۔ (مصنف ابن أبی شیبة: باب المراة تؤم النساء ج۳ص۸۳)
’’حضرت حجیرہ کہتی ہیں حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کے درمیان کھڑے ہو کر ہماری امامت کرائی۔‘‘
۳۔ عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: تَؤُمُّ الْمَرْأَةُ النِّسَاءَ فِي صَلَاةِ رَمَضَانَ تَقُومُ مَعَهُنَّ فِي صَفِّهِنَّ۔ (مصنف ابن أبی شیبة: ج۳ص۸۳)
’’امام عامر شعمی رحمہ اللہ (جو بہت بڑے تابعی اور پانچ سو صحابہ سے ملاقات کا شرف رکھتے ہیں) فرماتے ہیں یہ عورت رمضان کی نماز کی امامت کرا سکتی ہے، مگر وہ عورتوں کی صف میں کھڑی ہو، مرد امام کی طرح آگے کھڑی نہ ہو۔‘‘
۴۔ حدثنا حمید بن عبدالرحمان أنه قال لا باس أن تَؤُمُّ النِّسَاءَ تَقُومُ مَعَهُنَّ فِي الصَّفِّ۔ (مصنف ابن أبی شیبة صفحه مذکورہ)
’’عورت کی امامت میں کوئی حرج نہیں جب وہ عورتوں کی صف مین کھڑی ہو کر نماز پڑھائے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث اور آثار صحابہ وتابعین سے ثابت ہوا کہ عورت کی امامت بلاشبہ جائز ہے، لیکن عورتوں کی صف کے درمیان کھڑی ہو۔ عليه الفتویٰ وبه یفتیٰ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب