السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ اہل حدیث مسجد کا امام کیسا ہونا چاہیے؟ کیاحدیث میں امام الصلوۃ کے لئے کوئی اوصاف مذکور ہیں؟ اگر ہیں تو کیا ہیں؟ صلو خلف کل بروفاجر کا کیامطلب ہے؟ وامام قوم وھم لہ کارھون کی کیا تفسیر ہے؟ اگر کسی مسجد کاامام جماعت میں باعث افتراق ہواور وہ اپنے مفاد کے لیے اس مزید ہوا دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ہم نے علماء سے سنا ہے کہ آنحضرت نے ایک امام کو صرف اس لیے بدل دیا تھا کہ اس نے قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکا تھا، اگر ایسی کوئی حدیث ہے تو اسی کی روشنی میں ایسے امام کو بدلا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے مسجد کے نمازی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ایک اس کے حق میں، ایک اس کےخلاف۔ مخالفین کا الزام ہے کہ وہ امام جھوٹ بولتاہے اور چغل خوری اس کی عادت ہے۔ کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے؟ اگر مسجد کی انتظامیہ صاحب اختیار ہو تووہ کس طرح کا امام منتخب کرے؟ (سائل: عبدالرحمٰن لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سلسلے کی چند حدیثیں ذیل میں درج ہیں جن سے مسئولہ مسئلے پر روشنی پڑتی ہے:
۱۔ وَعَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّة سَوَاءً فَأَقَدْمُهُم هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِنًّا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يَقْعُدُعلی تکرمته الا بإذن اھله۔ (رواه مسند احمد بن حنبل ج۴، ص۱۱۸، ومسلم نیل الاوطار: ص۱۲۸ج۳ ومشکوة، ص۱۰۰)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص قرآن مجید کا زیادہ ماہر ہووہ امامت کرائے، اگر قرآن میں برابر ہوں تو جوحدیث میں زیادہ ماہرہو، اگر حدیث میں بھی برابرہوں توجس نے پہلے ہجرت کیی ہو، اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں توعمرمیں بڑا ہو، اور جہاں کسی کے اختیارات ہوں وہاں دوسرا امامت نہ کرائے اور نہ اس کی عزت کی جگہ میں بیٹھے مگر اس کی اجازت سے۔‘‘
۲۔ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «لَا تَؤُمَّنَّ امْرَأَةٌ رَجُلًا، وَلَا أَعْرَابِيٌّ مُهَاجِرًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ فَاجِرٌ مُؤْمِنًا، إلَّا أَنْ يَقْهَرَهُ بِسُلْطَانٍ يَخَافُ سَيْفَهُ أَوْ سَوْطَهُ» (رواه ابن ماجه: کذا فی سبل السلام: ص۲۸ج۳)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت مردکی امامت نہ کرائے نہ اعرابی مہاجر کی اور نہ فاجرو فاسق مومن کی مگر یہ کہ بزور طاقت امام بن جائے اور مومن (نیک) اس کی تلوار اور چابک سے ڈرتا ہوتو ایسی مجبوری میں مومن کا فاجرکی اقتدا میں نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
۳۔ عن ابن عباس قال قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجْعَلُوا أَئِمَّتَكُمْ خِيَارَكُمْ , فَإِنَّهُمْ وَفْدُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔ (رواہ الدارقطنی (نیل الاوطار: باب ما جاء فی امامة الفاسقص۱۸۴ج)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: اپنے امام بہتر لوگوں کو بنایا کرو۔ وہ تمہارے اورتمہارے رب کے درمیان تمہارے نمائندے ہیں۔‘‘
۴۔ وَقَدْ أَخْرَجَ الْحَاكِمُ فِي تَرْجَمَةِ مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ عَنْهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إنْ سَرَّكُمْ أَنْ تُقْبَلُ صَلَاتُكُمْ فَلْيَؤُمَّكُمْ خِيَارُكُمْ، فَإِنَّهُمْ وَفْدُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ۔ (نیل الاوطار: ص۱۸۶ج۳)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں تو تمہارے امام بہترین لوگ ہونے چاہئیں کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ترجمان ہیں۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امام وہ شخص ہونا چاہیے جو کتاب وسنت کا زیادہ ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ متقی اور پرہیزگار بھی ہو۔ فاجروفاسق (جھوٹے، چغل خور اور کبائر کے مرتکب) کو پیش امام مقرر کرنا قطعاً جائز نہیں۔ ورنہ ایسے امام کو مقرر کرنے والے بھی سخت گناہ گار اور مجرم قرار پائیں گے۔ ایسے امام کو مستقل امامت سے الگ کرنا ضروری ہے تاکہ امامت کا منصب رفیع داغدار نہ ہو۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے قبلہ کی طرف تھوکنے والےامام کو امامت سے برطرف کر دیاتھا، جیسا کہ ابوداؤد باب کراھیۃ البزاق فی المسجد میں ہے۔ نیز دیھئے عون المعبود ج۲ص۱۸۱۔
تھوکنے والے واقعے سے معلوم ہوا کہ امامت جیسا رفیع منصب اتنا نازک ہے کہ قبلہ کی طرف تھوکنے والا آدمی اس کے لائق نہیں رہتا۔ جب کہ معلوم ہے کہ کذب بیانی، غیبت خوری اور افتراق بین المصلین جیسے کبائر کے مقابلے مین قبلے کی طرف تھوکنے کا گناہ بہرحال ایک جھوٹا گناہ ہے۔ لہٰذا جھوٹ بولنے والا، غیبت خور اور نمازیوں میں تفریق ڈالنے والا شخص امامت کے مقدس منصب کا قطعاً اہل نہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی ملحوظ رہے کہ ایسے امام کی اپنی نماز بھی قبول نہیں ہوتی جس کی امامت کو کسی شرعی قباحت کی وجہ سے اس کے مقتدی ناپسند کرتے ہوں۔ چنانچہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ میں ہے۔:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «ثَلَاثَةٌ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُمْ صَلَاةً، مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَرَجُلٌ أَتَى الصَّلَاةَ دِبَارًا» وَالدِّبَارُ: أَنْ يَأْتِيَهَا بَعْدَ أَنْ تَفُوتَهُ، «وَرَجُلٌ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَهُ» (عون المعبود: باب الرجل لیوم القوم وھم له کارھون ص۲۳۱ ج۱ وابن ماجه، ج۱ص۲۸)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں کرتا ایک وہ شخص جو قوم کی امامت کرائے اور لوگ اس کی امامت کو پسند نہ کریں۔ دوسرا جو شخص جماعت سے فارغ ہونے کے بعد آئے۔ تیسرا جس نے کسی آزاد کو غلام بنالیاہو۔‘‘
اسی مضمون کی احادیث حضرت ابوامامہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔ نیل الاوطار میں ہے کہ ابوامامہ کی حدیث کو امام ترمذی اور امام نووی نے حسن کہاہے اور ابن عباسؒ کی حدیث کو حافظ عراقیؒ نے حسن قرار دیا ہے، امام شوکانیؒ ان تینوں احادیث کے بارے میں رقم طراز ہیں:
واحادیث یقوی بعضھا بعضا فینتھض للاستدلال بھا علی تحریم أن یکون الرجل اما ما لقوم یکرھونه۔ (نیل الاوطار ص۲۰۱ج۳)
کہ یہ حدیث مجموعی طور پر اسی امر کی دلیل ہیں کہ ایسے شخص پر ان لوگوں کی امامت کراناحرام ہے جو اس کی امامت کو اچھا نہ جانتے ہوں۔
مگر شرط یہ ہے کہ اس کی امامت کی کراہیت کی وجہ سے کوئی شرعی سبب ہو۔ ورنہ نہیں، جیسا کہ عون المعبود میں اس کی تصریح موجود ہے۔ عون (ص۲۳۱ج۱) اور نیل الاوطار میں ہے:
فَأَمَّا الْكَرَاهَة لِغَيْرِ الدِّين فَلَا عِبْرَة بِهَا، وَقَيَّدُوهُ أَيْضًا بِأَنْ يَكُون الْكَارِهُونَ أَكْثَر الْمَأْمُومِينَ وَلَا اعْتِبَار بِكَرَاهَةِ الْوَاحِد وَالِاثْنَيْنِ وَالثَّلَاثَة إذَا كَانَ الْمُؤْتَمُّونَ جَمْعَا كَثِيرَا لَا إذَا كَانُوا اثْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثَة، فَإِنَّ كَرَاهَتهمْ أَوْ كَرَاهَة أَكْثَرهمْ مُعْتَبَرَة۔ (نیل الاوطار ص۲۰۱ج۳)
’’اگر کسی اما م کی امامت کو مکروہ جاننے کا سبب غیر دینی امر ہو تو اس کا اعتبار نہیں اور پھر یہ بھی شرط ہے کہ نمازیوں کی اکثریت اس کی امامت کو ناپسند کرتی ہو۔‘‘
اس تفصیل سے معلومن ہوا کہ امام وہ شخص ہوناچاہیے جس میں یہ مذکورہ اوصاف موجود ہوں۔ اگر کوئی امام ان اوصاف سے عاری اور محروم ہوتو وہ اہل حدیث مسجد کا امام بننے کا اہل نہیں۔ سوال میں موجودہ پیش امام میں جن کمزوریوں کا ذکر کیاگیا ہے۔ اگر وہ واقعی اس میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی وہ جھوٹ بولتا ہے اور غیبت کرتا ہے اور اس کی امامت کی وجہ سے مسجد کے نمازیوں میں اختلاف اور مخامصت پیدا ہوچکی ہے تو پھر اس کو چاہیے کہ وہ مسجد کے روشن مستقبل اور اپنی عزت نفس کے لیے ازخود امامت سے الگ ہوجائے۔ بصورت دیگرمسجد کے نمازیوں کو چاہیے کہ وہ احسن طریقہ سے اس امام کو امامت سے معزول کر دیں۔ ایسے امام کی حمایت بھی گناہ اور تعاون علی المعصیت والعدوان ہے۔ ہاں: اگر اس کے علیحدہ کرنے میں مزیدفتنے وفسات اور مسجد کی بربادی کا خطرہ متوقع ہوتو پھر مناسب وقت کا انتظار کریں اور بادل نخواستہ بامر مجبوری اس کے پیچھے نماز پڑھتے رہیں۔ صلواخلف کل بروفاجر کا بھی یہی مطلب ہے کہ بامر مجبوری فاسق وفاجر کو مستقل امام مقرر کرنا قطعاً جائز نہیں۔
چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ مَحَلَّ النِّزَاعِ إنَّمَا هُوَ فِي صِحَّةِ الْجَمَاعَةِ خَلْفَ مَنْ لَا عَدَالَةَ لَهُ وَأَمَّا أَنَّهَا مَكْرُوهَةٌ فَلَا خِلَافَ فى ذَلِكَ۔ (نیل الأوطار: ص۱۸۶ج۳)
’’غیر عادل امام کا جماعت کرنا ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا بالاتفق مکروہ ہے۔‘‘
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب