سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(117) كيا نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے ؟

  • 14220
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1353

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء اہل حدیث اس مسئلہ میں کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے اور اس کے آگے کا آدمی نماز سے فارغ ہوچکا ہے۔ کیا نماز سے فارغ شدہ آدمی اٹھ کر جا سکتا ہے، یا کہ وہیں بیٹھا رہے؟ آپ نمازی کے آگے سے گزرنے کی حد ذکر کر کے بتائیں کہ اٹھ کر جانے والا آدمی اس حد سے گزرنے والا گناہ گار تو شمار نہیں ہوگا؟(حافظ محمد خان مکان نمبر ۲۶، گلی نمبر۲، عبداللہ کالونی، سرگودھا شہر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ نماز کا مسئلہ انتہائی اہم اور حد سے زیادہ محتاط کا متقاضی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والے آدمی کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ چالیس روز یا اس سے بھی زیادہ عرصہ تک کھڑا رہے، اس سے مقصود یہ ہے کہ کسی نماز ادا کرنے والے کی نماز توڑنا بہرکیف ایک عظیم گناہ ہے جس سے پرہیز لازم ہے۔ ہاں اگر کسی آدمی کو بہت جلدی ہوا اور وہ نمازی کی فراغت تک نہ ٹھہر سکتا ہو تو پھر حکم یہ ہے کہ وہ نماز ادا کرنے والے کے سامنے سےتین چار صفوں کا فاصلہ چھوڑ کر آگے سے گزر جائے۔ ان شاءاللہ ایسا کرنے میں گزرنے والے کو گناہ لازم نہیں ہوگا اور نہ نماز پڑھنے والے کی نماز میں کوئی خلل آئے گا۔ ان دونوں احادیث میں علماء حدیث نے یہی تطبیق دی ہے۔ یہ دونوں احادیث مشکوۃ المصابیح کتاب الصلوۃ میں موجود ہیں۔

پس فتویٰ تو یہی ہے کہ اتنے فاصلے سے گزر سکتا ہے، مگر تقویٰ یہ ہے کہ نمازی کی فراغت تک وہیں کھڑا رہے۔ یہی اولیٰ اور احریٰ ہے۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص393

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ