السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے چاہیں یا زیرناف دلائل سے واضح فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سینے پر ہاتھ باندھنا نبی اکرمﷺ کی متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْت مَعَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ» (صحیح ابن خزیمة ۴۷۹ فتح الباری ج۲ص۱۷۸)
’’وائل بن حجرؒ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھے۔
۲۔ عَنْ ھُلْبٍ قَالَ رَاَیْتُ النبیﷺ یَنْصَرِفُ عَن یَّمِیْنِه وَعَنْ یَّسَارِہِ وَرَأَیْتُهُ قَالَ یَضَعُ ھٰذِه ِعَلیٰ صَدْرِهِ۔(مسند احمد ج۵ صفحه ۲۲۶، فتح الباری ج۲ص۱۷۸، تحفة الاحوذی ج۱ص۲۱۶)
’’بلب صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھا ہوا تھا۔‘‘
باقی رہی حدیث علی رضی اللہ عنہ جس میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ بالاتفاق ضعیف ہے۔ امام احمدابو حاتم نے اسے منکر الحدیث کہا ہے ابن معین نے فرمایا لیس بشئ اور امام بخاری نے فرمایا فیہ نظر اور امام بیہقی نے فرمایا لا یثبت اسنادہ تفردبہ عبدالرحمن ابن اسحاق الواسطی وھو متروک اور امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا وھو حدیث متفق علی تضعیفہ کہ اس حدیث کے ضعیف ہونے پر علماء کا اتفاق ہے شرح مسلم (ج۱ص۱۷۳) اور اسی طرح فتح الباری میں ابن حجر نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے (ج۲ص۹۶) اسی التعلیق المغنی (ج۱ص۲۸۶) الداریۃ علی ھامش الھدایۃ (ج۱ص۱۰۱) الارواء (ج۲ص۹۲) نصب الرایۃ (ج۱ص۳۱۴) پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
اور دوسری حدیث جو ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے وائل بن حجرؓ کی پیش کی جاتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے زیر ناف ہاتھ باندھے تو اس حدیث میں تحت السرہ کے الفاظ کا اضافہ ہے۔ علامہ محمد حیات السندی حنفی نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ یہ کاتب کی غلطی سے درج ہوئے ہیں۔ کیونکہ میں نے ایک صحیح نسخہ مصنف ابن ابی شیبہ کا دیکھا ہے۔ اس میں یہی حدیث اسی سند کے ساتھ مذکور ہے لیکن اس میں تحت السرۃ کے الفاط موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح یہی حدیث امام احمد نے مسند احمد کے اندر اور امام بیہقی نے اپنی سنن کے اندر اسی سند سے ذکر کی ہے، لیکن ان میں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں۔ اسی طرح امام زیلعی، عینی، ابن ہمام، ابن امیرالحجاج ابراہیم حلبی اور ملا علی قاری ان تمام حنفی علماء میں سے کسی نے بھی اس کو ذکر نہیں کیا۔ (عون المعبود جلد۱صفحہ ۲۷۶، تحفۃ الاحوذی ج۱ص۲۱۵)
لہٰذا اس سے استدلال درست نہیں غرضیکہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں،
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب