سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(223) محراب کا مسئلہ

  • 1421
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 3065

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل مسجدوں میں محرابیں ہیں۔ جن میں کھڑے ہوکر امام نماز پڑھاتے ہیں۔ وہ ناجائز ہیں یا جائز۔ اگر جائز ہیں تو مدلل تحریر فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

بعض روائتوں میں محراب کا ثبوت ملتا ہے۔ سنن کبری بیہقی میں ہے۔

«عن وا ئل بن حجر قال حضرت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم نهض الی المسجد فدخل المحراب ثم رفع یدیه بالتکبیر الحدیث»

 یعنی وائل  بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد کی طرف اُٹھ کر محراب میں داخل ہوئے اور نماز کی نیت باندھی۔

بعض اور روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے او رجن روایتوں سے محراب کی ممانعت معلوم ہوتی ہے ان میں تصریح ہےکہ نصاریٰ کی سی محراب سو وہ بے شک منع ہے۔ جیسے گرجوں میں ہوتی ہے۔                                 (عبداللہ امرتسری 15 رجب 1353ھ)

تعاقب: مذکورہ جواب پر مولوی عبدالقادر حصاری نے تعاقب کیا ہے۔ جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

مولوی عبدالقادر نے تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’کہ آنجناب کو بوجہ عدم تامل غلطی لگی ہے کہ مسجد نبوی میں محراب تھا۔ حالانکہ محراب نہیں تھا۔‘‘

چنانچہ امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب اعلام الارانیب میں فرماتے ہیں۔

«لم یکن فی زمانه قط المحراب ولا فی زمان خلفاء الاربعة فمن بعدهم الیٰ آخر المائة الاوّل »

یعنی آنحضرتﷺ اور چاروں خلیفوں کے زمانوں میں محراب نہ تھا۔

علامہ سمہودی خلاصۃ الوفاء صفحہ 132 میں فرماتے ہیں:

«ولیس فی المسجد شرفات ولا محراب و اوّل من احدث المحراب و الشرفات عمر بن عبدالعزیز »

یعنی مسجد مدینہ میں برج او رمحراب نہ تھے سب سے پہلے ان کے بانی عمر بن عبدالعزیز ہیں۔

بعد از تتبع کتب متداولہ یہی امر ثابت ہوا کہ مسجد نبوی میں طاق یعنی محراب متعارف الان موجود نہ تھا۔ چنانچہ علامہ موصوف جو مہاجر اور مورخ مدینہ ہیں۔ اپنی کتاب وفاء الوفاء میں فرماتے ہیں:

«المسجد الشریف لم یکن له محراب فی عهد صلعم ولا فی زمن الخلفاء و بعده و اوّل من احدثه عمر بن عبدالعزیز فی امارة الولید انتهٰی»

 جلد اوّل صفحہ 264 یعنی آنحضرتﷺ کی مسجد شریف میں آنحضورؐ اور خلفاء کے زمانہ میں محراب نہ تھا۔ یہ تو ولید بن عبدالملک کی خلافت میں عمر بن عبدالعزیز نے بنایا تھا۔

«نفس احداث آں در عصر نبوی و عصر صحابه نه بوده۔»

 یعنی زمانہ نبوی اور زمانہ صحابہ میں محرابیں نہ تھیں۔ مولانا عبدالجبار غزنوی مرحوم اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں:

«محراب حکم مسجد ندارد قیام دراں مکروه است۔»

 یعنی محراب کو مسجد کا حکم نہیں ہے اور اس میں کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ جامع البیان کے حاشیہ صفحہ 5 آیت

﴿وَهُوَ قَآئِمٞ يُصَلِّي فِي ٱلۡمِحْرَابِ﴾

 پر ہے۔

« وفی الفتح وقدرویت فی کراهیة ذالک آثار کثیرة من الصحابة»

یعنی فتح البیان میں لکھا ہےکہ محراب کے مکروہ ہونے کے بارہ میں صحابہؓ سے بہت اقوال مروی ہیں۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ صراط مستقیم میں فرماتے ہیں:

«وقالوا (الحنفیه) ایضا یکره القیام فی الطاق لانه یشبه صنیع اهلالکتاب ( الی) وهذا ایضا ظاهر مذهب احمد وغیرہ انتھٰی۔»

 یعنی حنیفہ کہتے ہیں کہ محراب میں قیام کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ اہل کتاب کے مشابہ ہے او رامام احمد وغیرہ ائمہ کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘ عون المعبود وغیرہ میں ملا علی قاری سے جو مشاہیر حنفیہ سے ہیں۔ یہ نقل کیا ہے:

«ان المحاریب من المحدثات بعده صلعم ومن ثم کره جمع من السلف اتخاذها والصلوٰة فیها انتهٰی۔ »

یعنی محرابیں آں حضرتﷺ کے زمانہ میں نہ تھیں بعد میں پیدا ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے سلف کی ایک جماعت نے اس کا بنانا اور اس میں نمازیں پڑھنا مکروہ قرار دیا ہے۔

حدیث وائل جو آنحضرتﷺ نے محراب کے ثبوت میں بحوالہ سنن کبریٰ پیش کی ہے۔ یہ دو وجہ سے قابل استدلال نہیں۔

اوّل تو اس کی اسناد مخدوش ہے چنانچہ علامہ شمس الحق غنیۃ الالمعی میں فرماتے ہیں کہ سندمیں دو راوی مجروح ہیں۔ ایک تو محمد بن حجر حضرمی ہیں۔ ان کے متعلق میزان میں ہے له مناکیر اور دوسرا راوی سعید بن الجبار بن وائل ہے جس کی بابت تقریب میں ہے "ضعیف من السابعة"یعنی یہ ضعیف ہے۔ میزان میں ہے: قال النسائی  لیس بالقوی۔ یعنی  امام نسائی نے کہا ہے کہ یہ راوی قوی نہیں ہے اس تصریح سے ثابت ہوا کہ آپ کی پیش کردہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہے۔

دوم یہ کہ اس حدیث میں لفظ  محراب محتمل الوجوہ ہے۔ زمانہ نبوی میں جب محراب متعارف موجود نہ تھا تو اس لفظ سے محراب متعارف مراد لینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے ورنہ قرآن میں بھی "یصلی فی المحراب" سے محراب متعارف مراد لیا جاسکتا ہے حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔

فتح البیان میں ہے اس محراب سے مراد غرفه یعنی  بالا خانہ ہے۔ جامع البیان میں بھی اسی طرح ہے۔ تفسیر سراج المنیر میں ہے۔"المحراب الغرفة" اسی طرح تفسیر مظہری میں ہے۔ آپ کی پیش کردہ حدیث میں محراب سے مراد مؤقف امام ہے۔ لغت میں محراب کا اطلاق مجلس کی بہترین جگہ پر وارد ہے۔ چنانچہ فتح البیان میں ہے«المحراب فی اللغة اکرم موضع فی المجلس» عون المعبود میں ہے۔ «ولیسمی موقف الامام من المسجد محرابا لانه اشرف مجالس المسجد» یعنی امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو محراب کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اور جگہوں سے اشرف جگہ ہے۔

جامع البیان کے حاشیہ نمبر 5 میں ہے «اخرج ابن المنذر عن السدی المحراب مصلی »تفسیر ابن جریر میں ہے المحراب مصلی قاموس میں ہے «المحراب مقام الامام من المسجد انتهٰی۔» ان عبارتوں کا مطلب ایک ہے کہ محراب نماز پڑھنے کی اس مخصوص جگہ کو کہتے ہیں جو امام کے لئے پیش گاہ ہے۔ اس کے شرف کی وجہ سے  اس کو پیش گاہ کہا جاتا ہے۔ نیز اس وجہ سے بھی کہ وہاں قوم کا سردار شیطان سے محاربہ کرتا ہے۔« فافهم و تدبر ولا تکون من الغابرین» یا محراب سے مراد مسجد ہے کیونکہ  محراب کا اطلاق مسجد پر بھی آیا ہے۔ تفسیر نیشاپور ی جلد 3 صفحہ 183 میں ہے وقیل کانت مساجدهم تصمی المحاریب ۔» یعنی زکریا علیہ السلام کی قوم کی مساجد محرابوں کے نام سے موسوم تھیں تفسیر بیضاوی جلد1 صفحہ 136 میں ہے "المحراب ای المسجد" تفسیر سراج المنیر جلد1 ص207 میں ہے «ویقال ایضا للمسجد محرابا» یعنی مسجد کو بھی محراب کہا جاتا ہے۔

پس حدیث وائل میں مطلب یوں ہوگاکہ مسجد کی طرف اُٹھے اور مسجد میں جاکر نماز پڑھی۔ بہرکیف متعارف الآن پر استدلال صحیح نہیں۔ «اذجاء الاحتمال بطل الاستدلال۔»

علامہ سیوطی رحمہ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کے متعلق ایک رسالہ لکھا ہے۔ جس کا نام  ’’اعلام الارانیب (1)بحدوث بدعة المحاریب‘‘ ہے۔

اسی طرح فتاویٰ مولانا عبدالحئ(2) صاحب جلد1 صفحہ108 و جلد1 صفحہ 148 ضرور زیر نظر رکھیں۔

امام بیہقی رحمہ اللہ علیہ نے حدیث کراہت باب پر پیش کی ہے۔ امام سیوطی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

«عن عبدالله بن عمر رضی الله تعالیٰ عنه قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اتقوا هذه المذابح۔ یعنی المحراب۔»

’’ابن عمر سے مروی ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا۔ ان محرابوں سے بچو یعنی ان کو اپنی مسجدوں میں نہ  بناؤ۔‘‘

سنن کبری، مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔

«عن موسیٰ الجهنی قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لا تزال هذه الامة بخیر او قال امتی بخیر مالم یتخذوا فی مساجد هم مذابح النصاریٰ»

’’یعنی  حضورﷺ نے فرمایا کہ یہ امت ہمیشہ خیر و برکت سے رہے گی جب تک اپنی مسجدوں میں محرابیں نہ بنائے گی۔ جیسے نصاریٰ اپنے گرجاؤں میں محرابیں بناتے ہیں۔‘‘

یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے لیکن اس کا اعتضاد دیگر طرق سے ثابت ہے لہٰذا مقبول ہے۔ اصول کا یہ قاعدہ ہےکہ حدیثوں میں جب تعارض واقع ہو تو اقوال صحابہ ؓ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ سو اقوال صحابہؓ بھی اس کی ممانعت پر وارد ہیں چنانچہ مجمع الزوائد میں ابن مسعودؓ سے مروی ہے۔

«انه کره الصلوٰة فی  المحراب وقال انما کانت للکنائس فلا تشبهوا باهل الکتاب۔ »

’’یعنی ابن مسعودؓمحراب  میں نمازپڑھنا مکروہ جانتے تھے اور فرماتے تھے کہ محراب تو کنیسہ کے ہوتے ہیں تم نصاریٰ کی مشابہت نہ کرو یعنی مسجدوں میں محراب بنا کر ان میں نماز نہ پڑھا کرو۔‘‘

علامہ ہیثمی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’رجاله موثقون‘‘ یعنی اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔

مصنف ابن ابی شیبة میں حضرت علیؓ سے مروی ہے۔ "انه کره الصلوٰة فی الطاق۔" ’’یعنی حضرت علیؓ محراب میں نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے۔‘‘ اس اثر میں لفظ طاق وارد ہے جس کے متعلق "وکایة الروایة" جلد1 ص158 میں وارد ہے «وکره قیام الامام فی طاق المسجد ای فی المحراب »

یعنی مسجد کے طاق سے مراد محراب ہے۔ ابن ابی شیبه میں کعب سے مروی ہے: "انه کره المذبح فی المسجد" ’’یعنی مسجد میں محراب مکروہ ہے۔‘‘ اس اثر میں لفظ مذبح وارد ہے جس کی جمع مذابح آتی ہے ۔ اس کے متعلق حاشیہ جامع البیان میں ہے «اخرج الطبرانی والبیهقی فی سنة عن ابن عمر المحاریب المذابح »یعنی مذابح  مذابح کی تفسیر محاریب سے کی ہے۔

سالم بن ابوجعد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

«لا تتخذوا المرابح فی المساجد یعنی مسجدوں میں محرابیں نه بناؤ» (ابن ابی شیبہ)

عبدالرزاق نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ علیہ سے نکالا ہے۔ «انه کان یکره ان یصلی فی طاق الامام» یعنی محراب میں نماز مکرہ ہے۔ منقولہ از اخبار محمدی دہلی مطبوعہ مارچ 1929ء

 نیز محراب بنانا اجماع صحابہ کی رو سے منع اور قیامت کی نشانی ہے۔ امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوذر سے نقل کیا ہے ۔ «ان من اشراط الساعة یتخذ المذابح فی المساجد» یعنی قیامت کی نشانیوں سے ہے کہ محرابیں مسجدوں میں بنائی جائیں۔ «اخرج عبدالرزاق فی المصنف عن کعب قال یکون فی اخرالزمان قوم یزینون مساجدهم و یتخذون بها مذابح لمذابح النصاری فاذا فعلواه صبت علیهم البلاء» ’’ حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ آخر زمانہ میں ایک ایسی قوم ہوگی جو مسجدوں کو مزین کرے گی تو ان پر مصیبت ڈال دی جائے گی۔‘‘

ابن ابی شیبہ میں ابوجعد سے مروی  ہے۔

«کان اصحاب محمد صلی الله علیه وآله وسلم یقولون ان من اشراط الساعة ان یتخذوا المذابح فی المساجد»

’’الطاقات یعنی سب اصحاب محمد رسول اللہ ﷺ محرابوں کامسجدوں میں بنانا قیامت کی نشانیوں میں شمار کرتے تھے او رمذابح سے مراد طاق ہیں۔‘‘

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث اور اقوال صحابہ اور تابعین کے فرمان اور علماء محققین کے بیان سے یہ مسئلہ سورج کی طرح روشن ہے کہ محراب مسجد میں بنانا بدعت ہے اور قیامت کی نشانی ہے جو موجب مصائب ہے او ریہ نصاریٰ کا فعل ہے کہ وہ اپنے گرجاؤں میں محراب بناتے تھے۔ یہ مشابہت عبادت خانہ میں محراب بنانے کی ہے نفس محراب کی نہیں ہے۔

آنجناب یا آنجناب کے ہم خیال علماء کا یہ فرمانا کہ نصاریٰ جیسے محراب بنانے کی ممانعت ہے۔ مطلق محراب کی ممانعت نہیں ہے غلط ہے۔

اوّل: اس وجہ سے کہ بحث محراب مروجہ سے ہے۔ جو مسجد کے اندر سامنے کی دیوار میں طاق ہے۔ سو یہ آنحضرتؐ اور زمانہ خلفاء میں نہ تھا۔ کما ثبت چناچنہ حاشیہ جلالین میں سورہ سبا کے کلمہ محاریب پر لکھا ہے۔ «المحراب المعروف الان لم یکن فی الصدر الاول کما نقله السیوطی(کمالین)»

 یہ محراب معروف جواب موجود ہے۔ یہ صدر اوّل میں نہ تھا جیسے امام سیوطی نے نقل کیا ہے۔

دوم: اس وجہ سے کہ محراب متعارف بھی بصورت طاق ہے او رمحراب نصاریٰ بھی طاق کی صورت میں ان کے گرجاؤں میں تھا۔

سوم : اس وجہ سے کہ علماء دین اس محراب میں نماز پڑھنا  مکروہ فرماتے چلے آئے ہیں۔

چہارم: یہ کہ یہی محراب بعد زمانہ نبوی کے حسب پیشگوئی ظہور پذیر ہوا ہے۔ دیگر کوئی نہیں۔

پنجم : یہ کہ کوئی دلیل قوی نفس محراب کے ثبوت پر ناطق نہیں ہے جس کی بناء پر محراب کی دو قسمیں بنائی جائیں او رآپ کی پیش کردہ دلیل کمزور ہونے کے علاوہ محتمل الوجوہ ہے اور نہ ہی علماء سلف نے یہ تفریق کی ہے۔

ششم : یہ کہ صحابہ کرام اور تابعین اور علماء محققین  قرنا بعد قرن مطلق محراب بنانے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

(ابوالشکور محمد عبدالقادر حصاری)

جواب تعاقب :

آپ نے رسول اللہ ﷺ اور خلفاء کے زمانہ میں محراب سے  انکار کیا ہے۔ حالانکہ  اس کے ثبوت میں متعدد روایات آئی ہیں۔ سنن کبریٰ بیہقی میں ہے:

«اخبرناابو  سعد احمد بن محمد الصوفی ابنانا ابواحمد بن عدی الحافظ ثنا ابن معاهد ثنا ابراهیم بن سعید ثنا محمد بن حجر الحضرمی حدثنا سعید بن عبدالجبار بن وائل عن ابیه عن امه عن وائل بن حجر قال حضرت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم نهض الیٰ المسجد فدخل المحراب ثم رفع یدیه بالتکبیر ثم وضع یمیته علیٰ یسراه علیٰ صدره» (جلد2 صفحہ30)

وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد کی طرف اُٹھے ۔پس محراب میں داخل ہوئے پھر تکبیر کے ساتھ ساتھ ہاتھ اٹھائے پھر دایاں ہاتھ بائیں پر سینہ پر رکھا۔‘‘

آپ نے اس حدیث کے دو راویوں میں کلام کی ہے۔ محمدبن حجر اور سعید بن عبدالجبار۔ اوّل الذکر کے متعلق آپ نے میزان سے نقل کیا ہے۔ له مناکیر یعنی کئی احادیث اس کی منکر ہیں لیکن میزان میں اس کے بعد یہ بھی لکھا ہے۔ «وقال البخاری فیه بعض النظر» یعنی بخاری نے کہا ہے۔  اس میں کچھ نظر ہے اور ثانی الذکر کے متعلق تہذیب التہذیب میں لکھا ہے «ذکره ابن حبان فی الثقات »یعنی ابن حبان نے اس کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔

جوہر النقی میں اُم عبدالجبار کے متعلق لکھا ہے۔ «هی اُم یحییٰ لم اعرف حالها» یعنی اس کی کنیت اُم یحییٰ ہے۔ مجھے اس کا حال معلوم نہیں۔ جواہر النقی والے نے گویا اس کو مستور الحال قرار دیا ہے۔ اصول حدیث میں لکھا ہے جس سے  دو راوی روایت کریں وہ مستور الحال ہے او رمستور الحال کی روایت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک حجت ہے او رجمہور علماء کے نزدیک حجت نہیں۔ ملاحظہ ہو عراقی وغیرہ مع حواشی اور "تعجیل المنفعه فی رجال الاربعه" صفحہ 564 میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔ «اُم یحییٰ عن انس و عنها عبدالله بن عمر العمری» یعنی اُم یحییٰ انسؓ سے روایت کرتی ہیں اور عبداللہ بن عمر عمری اُم یحییٰ سے روایت کرتا ہے۔ اس کے حق میں  حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے لا تعرف نہیں کہا۔ یعنی غیر معروف شمار نہیں کیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں معمولی کلام ہے جو معمولی تائید سے رفع ہوسکتا ہے اس لیے ہم اس کی موید بعض روایتیں ذکر کرتے ہیں جن سے ثابت ہوجائے گا کہ محراب رسول اللہ ﷺ اور خلفاء کے زمانہ سے چلا آیا ہے۔

پہلی حدیث:

 «عن انس بن مالک قال لما سرق العود الذی کان فی المحراب فلم یجدہ ابوبکر حتی وجدہ عمر عند رجل من الانصار بقباء قد دفن فارض (کذا فی الاصل) اکلته الارضة فاخذله عود افشقه فادخله فیه ثم شعبه فرده فی الجدار وهو العود الذی وضعه عمر بن عبدالعزیز فی القبلة وهو الذی فی المحراب الیوم باق فیه و عند ابی داؤد عن محمد بن اسلم صاحب للقصورة قال صلیت الی جنب انس بن مالک یوما فقال هل تدري لم صنع هذا العود................ فقلت لا والله قال کان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یضع یده علیه فیقول استووا وعدلوا صفوفکم» (وفاء الوفاء جلد اوّل صفحہ 272 بحواله کتاب یحییٰ)

’’یعنی انس بن مالک سے روایت ہے جب وہ لکڑی  چوری ہوگئی جو محراب میں  تھی تو حضرت ابوبکر کونہیں ملی۔ یہاں تکہ حضرت عمرؓ کو قبا میں ایک انصاری کے پاس ملی۔ اس نے زمین میں دفن کررکھی تھی اس کو دیمک نےکھا لیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو دوسری لکڑی سے پیوند کرکے ٹھیک کردیا پھر اس کو وہیں دیوار میں گاڑ دیا او ریہ وہی لکڑی ہے جس کو عمر بن عبدالعزیز نے قبلہ میں رکھا او رآج تک محراب میں موجود ہے اور ابوداؤد میں محمد بن اسلم صاحب حجرہ سے روایت ہے کہ میں نےایک دن انس بن مالک کے پہلو میں نماز پڑھی فرمایا تو جانتا ہے کہ یہ لکڑی کیوں بنائی گئی ہے میں نے کہا نہیں۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ اس پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ سیدھے ہوجاؤ۔ صفیں ٹھیک کرو۔‘‘

دوسری حدیث:

 عن مسلم بن خباب قال لما قدم عمر القبلة فقد العود الذی کان مخروسا فی الجدار فطلبوہ فذکرلهم انه فی مسجد بنی عمرو بن عوف فجعلوہ فی مسجدهم فاخذہ عمر فردہ الی المحراب وکان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اذا قام الی الصلوٰة امسکه بکفه یعتمد علیه ثم فی شقه الایمن فیقول اعدلوا صفوفکم ثم یلتفت الی الایسر فیقول مثل ذالک ثم یکبر للصلوٰة و ذالک العود من طرقاء العابة۔»(وفاء الوفاء جلد اوّل صفحہ 273 بحواله ابن زباله و یحییٰ)

’’مسلم بن خباب سے روایت ہے کہ جب عمرؓ نے قبلہ آگے کردیا یعنی قبلہ کی دیوار قبلہ کی جانب  ہٹا دی تو وہ لکڑی گم پائی جو دیوار میں گاڑی ہوئی تھی۔ اُس کو تلاش کیا پتہ لگا  کہ وہ بنی عمرو بن عوف کی مسجد میں ہے حضر ت عمرؓ نے اس کو لے کر اس کی جگہ محراب میں لوٹا دیا اور رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس کو ہاتھ سے تھام لیتے ۔اس پرسہارا کرکے داہنی جانب والوں کو کہتے اپنی صفیں ٹھیک کرو۔ پھر بائیں جانب توجہ کرتے اور اسی طرح کہتے۔ پھر نماز کے لیے تکبیر کہتے او ریہ لکڑی موضع غابہ کے جھاؤ کی تھی۔‘‘

ان روایتوں سے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے محراب ثابت ہوگئی۔ رہا آپ کا یہ کہنا کہ مسجد کو  بھی محراب کہتے ہیں تو یہ درست ہے مگر  یہاں یہ معنی صحیح نہیں کیونکہ  ان روایتوں میں مسجد کے اندر محراب کا ذکر ہے او ربیہقی رحمہ اللہ علیہ کی روایت میں ’’دخل المحراب‘‘ (محراب میں داخل ہو ئے) اوروفاء الوفاء کی روایت میں لکڑی کا محراب کے اندر ہونا یہ بھی  اس بارہ میں صاف ہے اور قاموس کی عبارت یعنی محراب مسجد سے امام کی جگہ ہے اس پر تاج العروس شرح قاموس جلد اوّل صفحہ 207 میں لکھا ہے:

«قال الازهری المحراب عند العامة الذی یفهمه الناس مقام الامام من المسجد قال الانباری سمی محراب المسجد لا نفراد الاما م فیه و بعده من القوم و منه یقال فلان حرب لفلان اذا کان بینهما بعد و تباغض و فی المصباح و یقال ماخوذ من المحاربة لان المصلی یحارب الشیطان و یحارب نفسه باحضار قلبه  و فی لسان العرب المحاریب صدور المجالس و منه محراب المسجد و منه محاریب غمدان بالیمن والمحراب القبلة و محراب المسجد ایضا صدره و اشرف موضع فیه وفی حدیث انس انه کان یکره المحاریب ای لم یکن یحب ان یجلس فی صدر المجلس و یترفع فیه الناس۔»

’’یعنی عام طور پر محراب کا معنی جو لوگ سمجھتے ہیں وہ مسجد سے امام کی جگہ ہے۔ انباری کہتے ہیں کہ امام  اس میں لوگوں سے الگ کھڑا ہوتا ہے اور مصباح میں ہے کہ کہا جاتا ہے کہ یہ محاربہ سے ہے نما زپڑھنے والا اس میں شیطان اور نفس سے لڑتا ہے او رلسان العرب میں ہے۔ محراب مجلس کی اشرف جگہ کو بھی کہتے ہیں او راس سے محراب مسجد ہے۔ وہ بھی مسجد سے اشرف جگہ  ہے حدیث انس میں ہے کہ وہ محاریب کو مکروہ جانتے تھے یعنی ان میں  بیٹھنا اور لوگوں سے بڑا ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔‘‘

مجمع البحار جلد اوّل صفحہ 249 میں ہے :

«ودخل محرابا بالهم هو الموضع العالی المشرف وصدر المجلس ایضا و منه محراب المسجد وهو صدره و اشرف موضع فیه و منه حدیث انس کان یکره المحاریب ای لم یکن یحب ان یجلس فی صدر المجلس و یترفع علی الناس وهو جمع المحراب۔»

’’یعنی محراب بلند جگہ کو کہتے ہیں جو اور جگہ سے بلندہو اور مجلس میں اشرف جگہ کو بھی کہتے ہیں او راس سے محراب مسجد ہے۔ وہ ساری مسجد سے اشرف ہے او راس سے حدیث انسؓ ہے کہ محراب کو مکروہ جانتے تھے یعنی صدر مجلس میں اور لوگوں سے بڑا ہوکر بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔‘‘

اس سے صاف معلوم ہوا کہ مسجد میں محراب سے عام طور پر امام کی خاص جگہ مراد ہوتی ہے جو عموماً لوگ سمجھتے ہیں۔ پس یہاں «اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال» کا استعمال بے محال ہے۔

اب ان روایات کا حال سنیئے جو ممانعت میں وارد ہوئی ہیں۔ ان روایتوں میں نصاریٰ کی سی محرابوں سے ممانعت ہے۔ چنانچہ بعض روایتوں میں مذابح نصاریٰ کی تصریح ہے او رمذابح النصاریٰ محراب متعارف کا غیرہے۔ مجمع البحار میں ہے:

«اتی بمن ارتدعن الاسلام فقال کعب ادخلوه المذبح و ضعوا التوراة و حلفوه بالله هو واحد المذابح وهی المقاصیر و قیل المحاریب» (مجمع البحار جلداوّل صفحہ 434)

یعنی ایک شخص اسلام سے مرتد ہوگیا۔ کعب نے کہا اس کو مذبح میں داخل کرو اور اس کے سر پر تورات رکھو اور خدا کی قسم کھلاؤ۔ اس روایت میں مذبح کی مذابیح جمع ہے او رمذابح حجروں کو کہتے ہیں او رکہا گیا ہے کہ یہاں محراب مراد ہیں۔

قاموس مع تاج العروس میں ہے :

«والمذابح المقاصیر فی الکنائس جمع المقصوره و یقال هی المحاریب» (جلد 2 صفحہ 38)

’’یعنی مذابح گرجوں میں حجروں کو کہتےہیں او رکہا جاتا ہے کہ وہ محراب ہیں۔‘‘

منجد میں ہے:

«مذابح الکنائس هی المواضع التی یقیم علیها الکهنة القداس الالهی و مذبح الذبیحة غیر الدمویة» (صفحہ 231)

مذابح گرجوں میں وہ مذابح ہیں جہاں ان کے پادری ٹھہرتے ہیں اور غیر خوفی ذبیحہ ذبح کرتے ہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حجرہ کی شکل میں گرجوں کے سے محراب منع ہیں او ریہی قیامت کی نشانی ہیں مطلق محراب منع نہیں ۔

عون المعبود جلد اوّل "باب کراھیة البزاق فی المسجد" صفحہ 180 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبلہ مسجد میں تھوک دیکھی۔ اس کوکھرچ دیا اس کے بعد لکھتے ہیں:

« قال علی القاری ای جدار المسجد الذی یلی القبلة ولیس مراد بها المحراب الذی یسمیه الناس قبلة لان المحاریب من المحدثات بعده صلی الله علیه وآله وسلم ومن ثم کره جمع من السلف اتخاذها والصلوٰة فیها قال القضاعی واول  من احدث ذالک عمر بن عبدالعزیز وهو یومئذ عامل للولیدبن عبدالملک علی المدینة لما اسس مسجد النبی صلی الله علیه وآله وسلم و هدمه وزاد فیه و یسمی موقف الامام من المسجد محرابا لانه اشرف مجالس المسجد و منه قیل للقصر محراب  لانه اشرف المنازل وقیل المحراب مجلس الملک سمی به لا نفراده فیه و کذالک محراب المسجد لا نفرادللامام فیه و قیل سمی بذالک لان المصلی یحارب فیه الشیطان قلت ما قاله القاری من ان المحاریب من المحدثات بعده صلی الله علیه وآله وسلم فیه نظر لان وجود المحراب زمن النبی صلی الله علیه وآله وسلم یثبت من بعض الروایات اخرج البیهقی فی السنن الکبریٰ من طریق سعید بن عبدالجبار بن وائل عن ابیه عن امه عن وائل بن حجر قال حضرت رسول الله  صلی الله علیه وآله وسلم نهض الی المسجد فدخل المحراب ثم رفع یدیه بالتکبیر ثم وضع یمینه علی یسراه علی صدره وام عبدالجبار هی مشهورة بام یحییٰ کما فی روایة الطبرانی فی معجم الصغیر وقال الشیخ ابن الھمام من سادة الحنفیة ولا یخفیٰ ان امتیاز الامام مقرر مطلوب فی الشرع فی حق المکان حتی کان التقدم واجبا علیه و بنی فی المساجد المحاریب من لدن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم  انتهٰی وایضا لا یکره الصلوٰة فی المحاریب ومن ذهب الی الکراهیة فعلیه البینة ولا یسمع کلام احد من غیر دلیل و برهان۔»

’’ملا علی قاری رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں قبلہ مسجد جس میں رسول اللہ ﷺ نے تھوک دیکھی اس سے مراد قبلہ کی جانب سامنی دیوار ہے۔ اس سے وہ  محراب مراد نہیں جس کو لوگ قبلہ کہتے ہیں کیونکہ محرابین بدعت اور رسول اللہ ﷺ کے بعد بنی ہیں۔ اس لیے ایک جماعت سلف نے محرابوں کا بنانا او ران میں نماز پڑھنا مکروہ سمجھا ہے۔ قضاعی کہتے ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز نے محراب بنائی ہے ۔ ان دنوں میں وہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ منورہ پر امیر تھے۔مسجد نبوی گرا کر نئے سرے سے بنائی اور اس کی عمارت بڑھا دی او رمسجد میں امام کےکھڑے ہونے کی جگہ کو اس لیے محراب کہتے ہیں کہ وہ اشرف مواضع مسجد سے ہے اور اسی بناء پر محل کو  بھی محراب کہتے ہیں کیونکہ وہ افضل مکانات سے ہے۔ او رکہا گیا ہے کہ مجلس بادشاہ کو بھی محراب کہتے ہیں کیونکہ وہ اس کی خاص جگہ ہے او رکہا گیا ہے کہ محراب مسجد کو اس لیے محراب کہتے ہیں کہ وہ امام کی خاص جگہ ہے او رکہا گیا ہےکہ  محراب کو اس لیے محراب کہتے ہیں کہ نمازی اس میں شیطان سے لڑتا ہے ۔ میں ( صاحب العون المعبود) کہتا ہوں کہ ملا علی قاری کا محراب کو بدعت کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ  محراب کا ثبوت بعض روایتوں سے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ملتا ہے ۔ بیہقی نے وائل بن حجر سے روایت کیا ہے  کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ مسجد کی طرف کھڑے ہوئے پس محراب میں داخل ہوکر تکبیر کہہ کر ہاتھ اٹھائے اور  دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینہ  پر رکھا۔ اور شیخ ابن ہمام جو سادات حنفیہ سے ہیں۔ فرماتے  ہیں یہ بات واضح ہے کہ جگہ میں امام کا امتیاز ایک محقق امر اور شرع میں مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ امام کاتقدم واجب  ہے او رمساجد میں محرابوں کا بنانا رسول اللہ ﷺ سے چلا آیا ہے نیز محراب میں نماز مکروہ نہیں جو مکروہ کہتا ہے اس کو کوئی دلیل پیش کرنی چاہیے۔ دلیل کے بغیر کوئی دعویٰ مسموع نہیں ہوسکتا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب


(1) اعلام الارانیب دیکھا گیا اس میں وہی روایات ہیں جو آپ نے ذکر کی ہیں۔ ہاں مندرجہ ذیل روایتیں آپ نے  ذکر نہیں کیں۔ «اخمرج ابن ابی شیبة عن ابن مسعود قال اتقوا هذہ المحاریب روی الطبرانی فی الاوسط عن جابر بن اسامة الحہنی قال لقیت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فی اصحابه بالسوق فقلت این یارسول الله قال نرید ان نخط لقومک مسجد افاتیت وقد خط و غرزنی قبلته خشبة فانها قبلة۔»

(2) فتاویٰ مولوی عبدالحئ صاحب بھی دیکھا اس میں زیادہ تر علامہ سیوطی کے رسالہ اعلام الارانیب کی عبارات ذکر کی ہیں اور ایقاظ النیام کے حوالہ سے حرمین شریفین میں حدوث محاریب پر علماء کا انکار نقل کیا ہے۔مگر یہ ایک مسجد میں متعدد محراب اور کثرت  جماعت پر انکار ہے، جیسے مکہک میں ہوتا رہا ہے۔ سو اس قسم کا افتراق کے نزدیک بھی درست نہیں۔12

فتاویٰ اہلحدیث

مساجد کا بیان، ج1ص307 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ