سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) سنت مؤكده كى تفصيل

  • 14208
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 2192

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنن موکدہ (سنن رواتب) کتنی ہیں؟ تفصیل سے تحریر فرمائیے۔ (سائل: رحمت اللہ دکاندار فلیمنگ روڈ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

موکدہ سنتیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے مطابق دس رکعات ہیں:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ [ص:59]: «حَفِظْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ فِي بَيْتِهِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ فِي بَيْتِهِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاَةِ الصُّبْحِ»۔۔۔۔الحدیث۔ (صحیح البخاری: باب الرکعتین قبل الظھر: ج۱ص۱۵۷)

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ کی دس سنتیں یاد ہیں، آپﷺ دو رکعتیں نماز ظہر سے پہلے، دو رکعتیں نماز ظہر کے بعد، دو رکعتیں نماز مغرب کے بعد اپنے گھر میں، دو رکعتیں نماز عشاء کے بعد اپنے گھر میں اور دو رکعتیں نماز فجر سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔‘‘

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لاَ يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الغَدَاةِ» (حواله مذکورہ)

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نماز ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور دو رکعتیں فجر کی نماز سے پہلے کبھی نہ چھوڑتے۔‘‘

امام طبری رحمہ اللہ ان دونوں احادیث صحیحہ کی تطبیق میں فرماتے ہیں کہ عام حالات میں آپ نماز ظہر سے پہلے چار اور سنتیں پڑھا کرتے تھے اور کبھی کبھار دو سنتوں پر بھی اکتفا فرما لیتے تھے۔ گویا کہ چار رکعتیں آپ کا اکثری عمل تھا۔

ظہر کے فرضوں کے بعد چار سنتیں بھی منقول ہیں۔ ابو داؤد میں ہے:

عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا، حَرُمَ عَلَى النَّارِ»

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص ظہر کے فرضوں سے پہلے چار رکعتوں پر اور اسی طرح فرضوں کے بعد چار رکعتوں پر ہمیشگی کرے گا تو اس کو جہنم پر حرام کردیا جائے گا۔‘‘

مگر یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ مکحول کا عنبسہ سے سماع ثابت نہیں۔ ظہر کے بعد کی چار سنتوں میں سے پہلی دو موکدہ ہیں اور باقی دو غیر موکدہ ہیں۔ لہٰذا دو دو کرکے پڑھنی  چاہئیں۔

عصر کے فرضوں سے پہلے چار سنتیں بھی منقول ہیں:

عن ابن عمر قال رسول اللہﷺ رحم اللہ امرََا صلی قبل العصر أربعا۔ (عون المعبود شرح ابی داأد ج۱ص۴۹۱)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اس آدمی پر جو نماز عصر کے فرضوں سے پہلے چار رکعات پڑھتا ہے۔‘‘ اگرچہ عون المعبود  میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عصر کے فرضوں سے پہلے دو رکعت بھی مروی ہیں مگر افضل یہ ہے کہ چار رکعات پڑھی جائیں۔

۱۔ (مسئلہ) مغرب سے پہلے دو نفل

مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعت نفل بھی ثابت ہیں:

عبداللہ المزنی عن النبیﷺ قال صَلُّوْا قَبْلَ صَلوٰۃِ المَغْرِبِ قَالَ فِیْ الثَالثة لمن شاء کراھية أن یتخذھا الناس سنة۔ (صحیح البخاری: باب الصلوة قبل المغرب ج۱ص۱۵۷)

’’حضرت عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نماز مغرب سے پہلے دو نفل پڑھا کرو۔

آپ نے یہ دوبار ارشاد فرمایا تیسری دفعہ فرمایا جو چاہے پڑھے، جو چاہے نہ پڑھے۔‘‘ (یعنی یہ نوافل اختیاری ہیں)

۲۔ (مسئلہ) مغرب کی سنتوں کے بعد چار نفل

نماز مغرب کے دو موکدہ سنتوں کے علاوہ مزید چار موکدہ سنتیں بھی مروی ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى بَعْدَ المَغْرِبِ سِتَّ رَكَعَاتٍ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيمَا بَيْنَهُنَّ بِسُوءٍ عُدِلْنَ لَهُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً۔

قال ابو عیسی حدیث أبی ھریرۃ غریب لانقرقه الا من حدیث زید ابن الحباب عن عمر بن ابی خثعم قال وسمعت محمد بن اسماعیل یقول عمر بن عبداللہ بن أبی خثعم منکرا الحدیث وضعفه جدا۔ (ترمذی مع تحفة الاحوذی باب ما جاء فی فضل النطوع ست رکعات بعد المغرب ج۱ص۳۳۰)

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص نماز مغرب کے بعد دو موکدہ سنتوں سمیت چھ رکعات پڑھے اور ان میں کوئی غلط بات نہ کرے تو اس کو بارہ برس کی عبادت کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘

مگر یہ حدیث سخت ضعیف ہے۔ کیونکہ بقول امام بخاری عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکر الحدیث ہے۔ اور منکر الحدیث سے روایت لینا حلال نہیں۔ ان چھ رکعتوں میں مغرب کی دو موکدہ سنتیں بھی شامل ہیں۔

۳۔ (مسئلہ) اٹھارہ نفل رکعت

مغرب کی دو موکدہ سنتوں سمیت بیس رکعات نوافل بی مروی ہیں:

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى بَعْدَ المَغْرِبِ عِشْرِينَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِى الجَنَّةِ»

أخرجه ابن ماجة من رواية یعقوب بن الولید المدائنی عن ھشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قال المنذری ویعقوب کذبه احمد وغیرہ۔ (الترغیب والترھیب: جلد۱ص۴۰۴)قال الذھبی فی المیزان قال احمد حدقنا حدیثه، وکذبه ابو حاتم ویحییٰ وقال أحمد ایضا کان من الکذابین الکبار یضع الحدیث۔ (تحفة الاحوذی: ج۱ص۳۳۰)

یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے کیونکہ اس کا راوی یعقوب بڑا کذاب ہے۔ امام یحییٰ بن معین نے یعقوب مدائنی کو کذاب اور امام نسائی نے اس کو متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ تاہم مغرب اور عشاء کے درمیان بکثرت نوافل پڑھنے کے بارے میں اتنی کثرت کے ساتھ احادیث ضعیفہ مروی ہیں کہ مجموعی طور قابل اخذ ہیں بالخصوص فضائل اعمال میں۔ (مرعاة المفاتیح ج۲ص۱۵۲)

۴۔ (مسئلہ) عشاء کے بعد نوافل

عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَ: سَأَلْتُهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: «مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ قَطُّ فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلَّا صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتَّ رَكَعَاتٍ۔ (عون المعبود: باب الصلاة بعد العشاء ج۱ص۵۰۲)

شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کی نفلی نماز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمای کہ جب بھی رسول اللہﷺ عشاء کی نماز ادا فرما کر میرے ہاں تشریف لاتے تو عشاء کے  فرضوں اور سنتوں کے بعد چار یا چھ نفل پڑھتے۔

۵۔ (مسئلہ): سنتوں اور نفلوں کی ہر رکعت میں سورۃفاتحہ کے بعد کوئی سورۃ بھی پڑھے۔ (ابن حبان)

۶۔ (مسئلہ): صبح کی سنتوں کے بعد دائیں کروٹ لینا سنت ہے۔ (بخاری، ج۱ص۱۵۵)

۷۔ (مسئلہ): صبح کی سنتوں کے بعد لیٹ کر یہ دعا پڑھنی چاہیے:

اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِى قَلْبِى نُورًا، وَفِى بَصَرِى نُورًا، وَفِى سَمْعِى نُورًا، وَعَنْ يَمِينِى نُورًا، وَعَنْ يَسَارِى نُورًا، وَفَوْقِى نُورًا، وَتَحْتِى نُورًا، وَأَمَامِى نُورًا، وَخَلْفِى نُورًا، وَاجْعَلْ لِى نُورًوفِى لِسَانِى نُورًا وعصبی نورا ولحمی نورا ودمی نورا وشعری نورا وبَشَرِی نورا وَاجْعَلْ فِى نَفْسِى نُورًا، وَأَعْظِمْ لِى نُورًاواعطنی نورا۔ (متفق عليه: مشکوة،ص۱۰۶)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص370

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ