سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

( 103) ہر فرض نماز کے بعد دعا کرنا

  • 14206
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 4770

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک امام صاحب ہر صاحب ہر فرض نماز کے بعد حسب رواج ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے گریز کرتے اور اسے بدعت تصور کرتے ہیں۔ آپ سے سوال ہے کہ کون سا طریقہ حدیث نبوی کے مطابق ہے ہمیشہ مروجہ دعا نہ مانگنا، یا ہمیشہ یا کبھی مانگ لینا اور کبھی چھوڑ دینا؟ جواب باصواب سے آگاہ فرمائیں۔ نیز یہ کہ آنحضرتﷺ کا نماز کے بعد کیا طریق تھا؟ (سائل: عبدالرزاق بہاولنگر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ہمارے زمانے کے علمائے اہل حدیث اس بارے میں مختلف ہیں، بعض کہتے ہیں کہ چونکہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آنحضرتﷺ نے کسی فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی ہو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر آمین کہی ہو، جیسا کہ آج کل عام رواج ہے۔ لہٰذا ان علمائے کرام کے نزدیک فرضوں کے بعد مروجہ دعا کا طریق بدعت ہے، جیسا کہ امام ابن القیم نے بھی لکھا ہے:

اما الدعاء بعد السلام مستقبل القبلة او المامومین فلم یکن ذلک من ھديةﷺ اصلا ولا روی عنه باسناد صحیح ولاحسن وعامة الادعية المتعلقة بالصلوة إنما فعلھا وأمر بھا فیھا وھذا ھواللائق بحال المصلی فإنه مقبل علی ربه یناجيه مادام فی الصلوة۔ (إنتھی ملخصا من زادالمعاد ص۲۵۷ ج۱ بحث الدعاء بعد السلام من الصلوة)

’’فرضوں کے بعد قبلہ رخ ہو کر یا نمازیوں کے طرف منہ کر کے دعا مانگنا آنحضرتﷺ سے بالکل ثابت نہیں ہے۔ صحیح حدیث کے ساتھ اور نہ حسن حدیث کے ساتھ۔ کیونکہ اکثر متعدد دعائیں آپﷺ نے نماز کے اندر ہی مانگی ہیں اور نماز کے اندر ہی ان دعاؤں کے مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے نمازی نماز کی حالت میں اللہ کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اور اپنے اللہ سے مناجات کرتا ہے۔

لیکن دوسرے علماء اس دعا کے جواز کے قائل ہیں اور مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں:

(۱) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ بَسَطَ كَفَّيْهِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِلَهِي وَإِلَهَ إِبْرَاهِيمَ، وَإِسْحَاقَ، وَيَعْقُوبَ، وَإِلَهَ جَبْرَائِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ، أَسْأَلُكَ أَنْ تَسْتَجِيبَ دَعْوَتِى، فَإِنِّى مُضْطَرٌّ، وَتَعْصِمَنِى فِي دِينِى فَإِنِّى مُبْتَلًى، وَتَنَالَنِى بِرَحْمَتِكَ فَإِنِّى مُذْنِبٌ، وَتَنْفِيَ عَنِّى الْفَقْرَ فَإِنِّى مُتَمَسْكِنٌ، إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يَرُدَّ يَدَيْه خَائِبَتَيْنِ أخرجه الحافظ واللیلی قلت فی سنده عبدالعزیز بن عبدالرحمان القرشی قال فی المیزان إتھمه احمد وقال النسائی وغیرہ لیس بثقة۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۴۶ج۱ باب ما یقول اذا سلم)

حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز کے بعد ہاتھ پھیلا کر یہ دعا پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں کو ناکام نہیں لوٹاتا۔ اس حدیث کا ایک راوی عبدالعزیز بن عبدالرحمان جو سخت مجروح ہے، مولانا مبارک پوریؒ نے میزان الاعتدال سے بہت سے ائمہ حدیث کی اس پر سب جرحیں نقل فرمائی ہیں کسی ایک نے بھی توثیق نہیں کی ہے۔ علاوہ اس کے کہ ایسے مجروح راوی کی روایت کسی درجے میں بھی قبول نہیں کی جاسکتی۔ سوال میں مذکور طریق کا اس میں بھی ذکر نہیں۔ (ع،ح)

(۲) عن محمد یحیی السلمی (تقریب اور تہذیب میں اسلمی ہے۔ع،ح)قال رَأَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَرَأَى رَجُلًا رَافِعًا يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاته، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهَا، قَالَ: «إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِهِ»

ذکرہ الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد قال ورواہ الطبرانی وترجم له فقال محمد بن یحیی السلمی عن عبداللہ بن الزبیر ورجاله ثقات۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۴۵ج۱)

’’محمد بن یحییٰ السلمی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو نماز میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہوئے دیکھا جب وہ فارغ ہوا تو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا کہ بھائی آنحضرتﷺ تو نماز سے فارغ ہو کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تھے۔‘‘

(۳)عن ابی بکرة رضی اللہ عنه ان رسول اللہﷺ قا ل سلوا اللہ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ، وَلَا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر ورجالة رجال الصحیح غیر عماد بن خلد الواسطی وھو ثقة۔ (مجمع الزوائد ص۱۲۹،۱۳۰)  کنز العمان: ص۱۷۵ج۱)

’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ سے سیدھے ہاتھوں کے ساتھ دعا مانگا کرو اور الٹے ہاتھوں سے نہ مانگو۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امام اور مقتدی فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ سکتے ہیں اور اس کو بدعت کہنا صحیح معلوم نہیں ہوتا ہے۔ تاہم اس کا التزام اور اس پر ہمیشگی بدعت ہے کہ آنحضرتﷺ سے اس دعا التزام ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں۔ مذکورہ احادیث بھی چونکہ کچھ ضعیف ہی ہیں، اس لیے ان سے استحباب ثابت ہوتا ہے۔ جیسے کہ ملا علی قاری فرماتے ہیں۔ ألاستحباب یثبت بالضعیف لا بالموضوع۔ ہمارے حنفی بھائی اس دعا کو لازم سمجھے بیٹھے ہیں حالانکہ خود امام ابو حنیفہؒ اور حنفی فقہاء کے نزدیک فرضوں کے بعد مروجہ دعا مانگنا کوئی ضروری نہیں۔ جیسے البحرالرائق میں ہے:

وَلَمْ يَذْكُرْ الْمُصَنِّفُ مَا يَفْعَلُهُ بَعْدَ السَّلَامِ وَقَدْ قَالُوا: إنْ كَانَ إمَامًا وَكَانَتْ صَلَاةً يُتَنَفَّلُ بَعْدَهَا فَإِنَّهُ يَقُومُ وَيَتَحَوَّلُ من مکانه یمينه او یساره او خلفه والجلوس مستقبلا بدعة۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۴۷ج۱)

’’اور نہیں ذکر کیا مصنف نے کہ امام سلام کے بعد کیا کرے۔ تاہم فقہاء کا خیال ہے جس نماز کے بعد نفل ہوں ان میں امام کھڑا ہوجائے اور دائیں بائیں پھر جائے اور قبلہ رخ بیٹھ رہنا بدعت ہے۔‘‘

ایک مرتبہ اللہ اکبر، تین مرتبہ استغفراللہ، آیت الکرسی اور تسبیح فاطمہ یعنی ۳۳بار سبحان اللہ، ۳۳ بار الحمدللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر وغیرہ پڑھا جائے۔

افسوس ہے ان اذکار مسنونہ کی پابندی پر تو توجہ نہیں دی جاتی اور تمام زور صرف مروجہ دعا پر ہی لگا دیا جاتا ہے۔ یہ بات صحیح ن ہیں، دعا اگر مانگنی ہو تو ان اذکار مسنونہ کے بعد مانگنی چاہیے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص368

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ