سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا

  • 14196
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 7363

سوال

(93) تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قعدہ میں تشہد میں شروع سے لے کرنماز سے فراغت پانے سے انگشت شہادت سےاشارہ کرتے رہنا رسول اللہﷺ کی بڑی بابرکت اور عظیم الشان سنت ثابت ہے اور یہ ایسی متفق علیہ سنت ہاے کہ ائمہ اربعہ بھی اس کے قائل ہیں اورسلف صالحین میں سے کسی کا بھی اس میں اختلاف ثابت نہیں۔ کیونکہ احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ غیر معللہ ولاشاذہ سے ثابت اور وہ احادیث یہ ہیں:

۱۔ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ فِي الصَّلَاةِ، جَعَلَ قَدَمَهُ الْيُسْرَى بَيْنَ فَخِذِهِ وَسَاقِهِ، وَفَرَشَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ»۔ (صحیح مسلم، باب صفة المجلوس فی الصلوۃ وکیفیة وضع الیدین علی الغخذین ج۱ص۲۱۶)

’’حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز میں (تشہد کے لیے) بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے بیچ میں کر لیتے اور داہنا پاؤں بچھاتے اور بائیں گھٹنے پر بایاں ہاتھ رکھتے اور داہنا ہاتھ داہنی ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے۔‘‘

۲۔ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الْوُسْطَى، وَيُلْقِمُ كَفَّهُ الْيُسْرَى رُكْبَتَهُ»۔ (صحیح مسلم صفحہ مذکور۔)

’’عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ جب تشہد پڑھنے کے لیے بیٹھتے تو دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور اپنا انگوٹھا درمیان والی انگلی پر رکھتے اور باہنی ہتھیلی کو باہنا گھٹنا دیتے۔‘‘

۳۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاة وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الْيُمْنَى الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ، فَدَعَا بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهَا»۔ (حوالہ ایضا)

’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز میں (تشہد کے لیے) بیٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی انگلی (کلمہ کی انگلی) کو اٹھاتے۔ اس کو حرکت دیتے اور بائیں گھٹنے پر بچھا کر رکھ دیتے۔‘‘

۴۔ «كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى» (رواھما احمد والنسائی ومسلم واخرج تحوہ الطبرانی، نیل الاوطار: باب الاشارة بالسبابة ج۲ص۲۸۳)

’’رسول اللہﷺ جب تشہد کے لیے بیٹھتے تو اپنی داہنی ہتھیلی داہنی ران پر رکھتے اور تمام انگلیوں کو بند کر لیتے اور انگوٹھے کے ساتھ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے۔‘‘

اس حدیث کو النسائی، ابو عوانہ، ترمذی، ابن ماجہ، عبدالرزاق(ج۲ص۲۴۸) واحمد (ج۲ص۱۴۷) ابن خزیمہ(۷۱۷) اور بیہقی نے (ج۲ص۱۳۰) نے ذکر کیا۔

وفی لفظ إِذَا قَعَدَ فِى التَّشَهُّدِ وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى، وَعَقَدَ ثَلَاثَةً وَخَمْسِينَ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ» (صحیح مسلم صفحه مذکور)

’’جب تشہد میں بیٹھتے تو بایاں ہاتھ اپنے بائیں گٹھنے پر رکھتے اور دایاں ہاتھ اپنی دائیں  ران پر اور ترپن کی گرہ لگاتے اور کلمہ کیاانگلی سے اشارہ کرتے۔‘‘

ترپن کا عدد یہ ہے کہ انگوٹھے کو ساتھ والی سبابہ انگلی کی جڑ پر رکھے اور باقی تینوں انگلیوں کو بند رکھے۔

۵۔ عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، أَخْبَرَنِى أَبِى، أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ، أخْبَرَهُ قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ يُصَلِّي؟ قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ قَامَ فَكَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى، وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ، ثُمَّ قَالَ: لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، رَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَهَا وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَهَا، ثُمَّ سَجَدَ، فَجَعَلَ كَفَّيْهِ بِحِذَاءِ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ قَعَدَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، فَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ قَبَضَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ فَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَهُ، فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا " (رواہ احمد ج۴ص۳۱۸، ابو داؤد (۷۴۷) والنسائی (ج۱ص۱۴۱) والدارمی (ج۱ص۳۱۴) وابن الحارود (ص۱۱۰،۱۱۱)والبیھقی ج۴ص۲۷،۲۸،۱۳۲ من طوق عن زائدة عنه به قال الالبانی وھذا اسناد صحیح علی شرط مسلم وصحه ابن خزیمة کما فی الفتح ج۲ص۳۲۲ وابن حبان کما فی خلاصة البدر المنیر (دق ج۱ص۲۳) وکذا صححه النووی فی المحموع وابن القیم فی زاد المعاد ج۱ص۸۵)

’’حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو بغور دیکھا جب آپ دو رکعت پڑھ کر بیٹھے اور بایاں پاؤں پھیلایا اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا اور دائیں کہنی کا کنارہ دائیں ران پر دو انگلیوں کو قبض کر لیا اور تیسری انگلی سے حلقہ بنایا پھر انگلی کو اٹھایا۔ میں نے دیکھا آپ اسے ہلاتےاور اشارہ کرتے۔ ان احادیث صحیحہ سے نیم روز کی طرح ثابت ہوا کہ تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا بڑی بابرکت اور عظمت سنت ثابتہ ہے اور یہ ایسی متفق علیہ سنت ہے کہ ارمہ اربعہ کو بھی اس میں اختلاف نہیں۔ تمام اہل حدیث کا اس سنت پر عمل رہا۔

امام نوویؒ فرماتے ہیں:

أما الاشارة بِالمُسَبِّحَة  الْيُمْنَى لَا غَيْرُ فَلَوْ كَانَتْ مَقْطُوعَة أَوْ عَلِيلَة  لَمْ يُشِرْ بِغَيْرِهَا لَا مِنَ الْأَصْلِ بِالْيُمْنَى وَلَا الْيُسْرَى۔ (نووی شرح  مسلم: ج۱ص ۲۱۶)

کہ ہم شوافع کے نزدیک تشہد میں شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا احادیث  صحیحہ کی رو سے مستحب ہے۔

ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ نمازی الااللہ کہتے وقت اشارہ کرے۔

اور اشرہ صرف دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت ہی سے کرنا ہے۔ اگر یہ انگلی کٹی ہوئی ہو یا بیمار ہونے کی وجہ سے اشارہ نہ کر سکے تو اس صورت میں دونوں ہاتھوں کی دوسری انگلی سے اشارہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔ امام محمد بن حسن شیبانی شاگرد امام ابوحنیفہ اپنی مؤطا رفع سبابہ کی احادیث میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

قال محمد وبصنیع رسول اللہﷺ ناخذ وھو قول أبی حنفية۔ (موطا امام محمد بحواله فتاوی  نذیریہ: ج۱ص۵۰۴ وعمدة الرعاية حاشية شرح الوقابه: ج۱ص۱۷۰)

’’امام محمد کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے طرز عمل پر عمل پیرا ہیں۔ اور امام ابوحنفیہ کا بھی یہی قول ہے۔‘‘

شیخ کمال ابن ہمام فرماتے ہیں:

لاشك أن وضع الکف مع قبض الاصابع لا یتحقق حقیقة فالمراد واللہ اعلم وضع الکف ثم قبض الاصابع بعد ذلك عند الاشارة وھو المروی عن محمد فی  کیفية الاشارة ۔ وکذا عن ابی یوسف فی الامالی وھذا فرع تصحیح الاشارة۔ (فتاویٰ نذیریه: ج۱ص۵۰۴۔ عمدة الرعاية حاشية شرح الوقاية: ج۱ص۱۷۰)

یہ تو ظاہر ہے کہ ہاتھ کی انگلیاں بند کر کے ہتھیلی ران پر نہیں رکھی جاسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے ران پر رکھے۔ پھر اشارہ کرتے  وقت انگلیاں بند کرے، امام محمد نے اشارہ کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ دونوں آخری انگلیوں کو بند رکھے، انگوٹھے اور بڑی انگلی کا حلقہ بنائے اور سبابہ سے اشارہ کرے اور امالی میں بھی اس طرح مروی ہے اور یہ اشارہ کرنے کی صحیح شکل۔ اسی طرح ملا علی قاری تزئین العبارة فی تحسین الاشارة میں اور شیخ ولی اللہ المحدث مسویٰ شرح موطا میں اور حجۃ اللہ البالغہ میں اور محمد بن عبداللہ الزرقانی مالکی شرح موطا میں اور شیخ عبدالحق حنفی دہلوی شرح مشکوة وشرح سفر السعادت میں اور علاء الدین حصکغی درمختار میں اور ابن عابدین شامی ردالمختار میں فرماتے ہیں۔(فتاویٰ نذیریه: ج ص۵۰۴)

ابو الحسنات عبدالحی حنفی لکھنوی تصریح فرماتے ہیں:

قَدْ ثَبَتَ الإشارة عَن رسول اللہﷺ بروایات کثیرة أکثرھا صریحة صحیحة لامردلھا مخرجة فی الکتب الشھیرة کالسنن الاربعة وصحیح مسلم وسنن البیھقی ومسند احمد ومؤطا مالک وشرح معانی الاثار للطحاوی ومعاجم الطبرانی وسنن سعید بن منصور ومصنف عبدالرزاق وابن أبی شیبة وغیرھا کما بسطه علی القاری فی رسالة تزیین العبارة ورسالة اخری التدھین للتزیین۔ (عمدة الرعایة: حاشیه نمبر۱۱ص۱۶۹)

’’تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا رسول اللہﷺ کی ایسی احادیث صحیحہ صریحہ سے ثابت ہے جن کےانکار کی گنجائش نہیں اور یہ احادیث کتب معتبرہ میں مروی ہیں، جیسے صحیح مسلم، سنن اربعہ، مسند احمد، موطا امام مالک، بیہقی وغیرہ۔ جیسا کہ ملا علی قاری نے اپنے رسالہ تزئین العبارۃ میں بالتفصیل لکھا ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی موطا میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا حدیث روایت فرمائی ہے ، لہٰذا امام مالک بھی اشارہ کے بلا شبہ قائل ہیں۔

حنابلہ کا مسلک:

ثم یبسط کفه الیسری علی فخذه الیسری ویده الیمنی علی فخذه الیمنی ویحلق الإبھام مع الوسطی ویشیر بالسبابة لما روی وائل بن حجر وقدروی عن أبی عبدالله أنه  یجمع اصابعه الثلاث ویعقد الابھام کعقدة الخمسین لما روی ابن عمر أن النبیﷺ عقد ثلاثا وخمسین وأشار بالسبابة۔ (المغنی مع شرح الکبیر ج۱ص۵۷۲،۵۷۳)

رفع سبابہ میں قطعاً اختلاف نہیں:

ان احادیث صحیحہ صریحہ سے روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ رفع سبابہ سنت صحیحہ ثابتہ اور محکمہ ہے اور بقول علامہ محمد عابد حنفی سندھی ثم مدنی یہ سنت ستائیس صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اور یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں، تمام محدیثین، فقہائے اسلام، ائمہ اربعہ اور علمائے مقلدین سب مذاہب متفق ہیں۔ قطعاً کوئی اختلاف نہیں اور منع رفع سبابہ میں کسی ایک صحابی کا کوئی قول مذکور ومنقول نہیں۔

اعتراض: فتاویٰ ظہیریہ، عتابیہ، فتاویٰ بزازیہ، فتاویٰ تاتارخانیہ اور جامع المضمرات کے حنفی مؤلفین نے اشارہ بالسبابہ کو مکروہ لکھاہے، اور کیدانی حنفی نے اپنے خلاصہ کیلانی میں اس کو حرام لکھا ہے اور کہا ہے کہ اشارہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ مسئلہ متفق علیہ کیسے ہوسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علامہ ابوالحسنات عبدالحی حنفی لکھنوی فرماتے ہیں:

والعجب کل العجب من بعض مشائخنا کصاحب الظھیریة والخلاصة والعتابیة والبزاریة والتاتارخانیه وجامع المضمرات وغیرھم انھم إفتوا بعدم استنان الإشارة بل وکراھتھا وزاد علیھم الکیدانی فی خلاصته فی طنبور قعدھا من المحرمان مع انه لا دلیل عندھم علی ما ذکرہ ولاسندلھم لا روایة ولا درایة وھو مع کونه مخالفا للاحادیث الصحیحة الصریحة مخالفا لأرمتنا لأئمتنا ایضا وبالجملة فتقلید المشائخ الذین افتوا بالکراھة مخالفا لفعل نبینا ولاقوال امامنا وتلامیذیھم لاسمیما بعد وضوح الحق وسطوح الصدق لا یلیق بشانف مسلم فضلا عن عالم فلیتنبه۔ (عمدة الرعایة: حاشیہ  نمبر۲ ص۱۷۰)

’’یہ بڑے تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ فتاویٰ ظہیریہ، تاتارخانیہ اور بزازیہ کے مفتیان احناف نے رفع سبابہ کو سنت نہ مانتے ہوئے اس کو مکروہ لکھ دیا ہے اور کیدانی نے اندھا دھند نہلے پر دہلہ مارتے ہوئے اس کو حرام اور مفسد صلوٰۃ کہ دیا ہے، حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے اور نہ سند، نہ نقلی اور نہ عقلی۔ ان کی یہ ہفوات متعدد احادیث صحیحہ صریحہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے ائمہ کے اقوال کے بھی خلاف ہیں۔ ان مشائخ کی تقلید کرنا عالم کو تو جانے دیجئے کسی عامی مسلمان کو بھی جائز نہیں۔ خصوصاً جب کہ ان نام کے مشائخ کا یہ فتویٰ رسول اللہﷺ کے طرز عمل اور ہمارے امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ کے بھی خلاف ہے۔‘‘

ملا علی قاری حنفی اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

اس مسئلہ (رفع سبابہ) میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے سلف میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں، امام ابو حنیفہ اور صاحبین (ابو یوسف اور محمد) کا بھی یہی قول ہے۔ ہمارے متقدمین اور متاخرین مشائخ حنفیہ نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ ماوراء النھر، خراسان، عراق اور بلاد ہند کی اکثریت جس پر تقلید سوار ہے تحقیق اور قول سدیدکی تائید سے بعید ہے، ان کا اس سنت کو ترک کر دینا حجت نہیں۔ جناب ملا علی قاری قاری حنفی کیدانی کی ہفوات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ اس سے خطائے عظیم اور جرم جسیم سرزد ہوا ہے جس کا منشا قواعد اصول اور مراتب فروغ سے جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ اگر اس کے بارے میں حسن ظن سے کام نہ لیا جائے اور اس کی ہفوات کی تاویل نہ کی جائے تو اس کا کفر واضح اور ارتداد (مرتد ہونا) صریح ہے۔ (تزئین العبارۃ فی تحسین الاشارۃ)

علامہ الصغانی فرماتے ہیں کہ کیا کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول اللہﷺ سے ثابت شدہ چیز کو حرام کہے اور ایسی چیز کے کرنے سے منع کرے جس پر عامۃ العلماء پشت درپشت چلے آ رہے ہوں۔ (ارشاد القتاد للصغاتی ج۱ص۲۹)۔(کذا فی کتاب تحقیق صلوة الرسول للفاضل المعاصر الشیخ عبدالرؤف بن عبدالحنان ص۴۰۳)

خلاصہ کیلانی کا عربی محشی لکھتا ہے۔

’’تشہد کی وقت مسبحہ (شہادت کی انگلی) سے اشارہ کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ بات اس شخص پر مخفی نہیں، جسےعلم حدیث سے ادنیٰ سے واقفیت ہے اور اس میں شک وہی کر سکتا ہے جو حدیث نبوی میں جہالت تام رکھتاہو یعنی پرلے درجے کا جاہل ہو۔ (حوالہ ایضاً)

شیخ الکل فی الکل السید نذیر حسین المحدث الدہلویؒ اس سوال کے جواب میں ارقام فرماتے ہیں:

’’ملا علی قاری، ملا عابد سندھی وامین الدین شامی نے ستائیس صحابہ سے روایت کی ہے اور رفع سبابہ میں ائمہ اربعہ وعلمائے مقلدین اہل مذاہب کے سب متفق ہیں۔ اس میں اور ائمہ اربعہ وغیرہ کا اختلاف نہیں اور منع رفع سبابہ میں کوئی قول صحابی مذکوراور منقول نہیں تو اس کا اٹھانا مستحب، آکد اور موجب ثواب کثیر ہے اور خلاصہ کیدانی والے سے ی ااور علماء سے اس باب میں خطا واقع ہوئی ہے، اس کے حرام مکروہ لکھنے میں تو قول مانعین کا اور حرام ومکروہ کہنے والے کا ازوائے دلائل شرعیہ کے محض باطل ہے نزدیک علمائے محققین حنفیہ کے اور جو شخص بعد میں مطلع ہونے کے روایات فقیہ اور احادیث نبویہ کے حرام کہے اور منع کرے وہ مردود اور گمراہ ہے اور خوف کفر کا ہے اس پر ازروئے اہانت اور حقارت کے۔ (فتاوی نذیریہ: ج۱ص۵۰۶)

شیخ مشائخنا المحدث الدہلوی مزید لکھتے ہیں

فإن قیل ألیس عدہ الکیدانی فی الغرائب وغیرھا من المحرمات قلنا قولھم فی مقابلة النص وأقوال الأئمة مردود لایعباء به الخ۔

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیدانی حنفی نے غرائب نامی کتاب میں اس اشارہ کو افعال محرمہ سے شمار کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نص اور اقوال ائمہ کے برخلاف ان کا قول مردود ہے۔ امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے قول کے برخلاف ان کے قول کی کیا حقیقت ہے۔ درمختار کی شرح طوالع الانوار میں ہے کہ تشہد میں انگلی اٹھانے کے متعلق ستائیس صحابہ سے روایات منقول ہیں۔ ملا علی قاری حنفی نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ (فتاویٰ نذیریۃ: ج۱ص۵۰۵)

مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ ارقام فرماتے ہیں:

خلاصہ کیدانی والے نے رفع سبابہ (انگلی اٹھانے) کا انکار کیا ہے لیکن خلاصہ کیدانی کے حاشیہ پر جس طرح اس کی تردید کی گئی ہے، وہ دیکھنے اور سننے کے لائق ہے، اس مختصر حاشیہ میں اس کی گنجائش نہیں۔ ملا علی قاری نے کہا ہے کہ جس انداز سے خلاصہ کیدانی والی نے اس سنت کا انکار کیا ہے اور جس طرح صحیح احادیث کی توہین کی ہے، مجھے اس کا کفر کا خطرہ ہے اور کیدانی کے حاشیہ پر احادیث اورقول فقہاء اور کتب کی عبارتیں درج کر کے اس کا خوب رد کردیاگیا ہے۔ (حاشیۃ مشکوۃ مترجم: ص۵۲۲ج۱)

صرف ایک انگلی کو حرکت دے:

ایک ہی انگلی سے اشارہ کرنا چاہیے، دو انگلیوں سے اشارہ کرنا منع ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَدْعُو بِأُصْبُعَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحِّدْ، أَحِّدْ»(رواه الترمزی والنسائی والبیھقی فی الدعورات الکبیر۔ مشکوة)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی دو انگلیوں سے اشارہ کرتاتھا، رسول اللہﷺ نے دو دفعہ فرمایا ایک انگلی سے اشارہ کرو۔‘‘

یہ آدمی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ فقہ السنہ میں ہے:

عن انس بن مالك رضی اللہ عنه قال مر رسول اللہﷺ بِسَعْدٍ وھو یَدْعُو باصبعین فقال أحد أحد۔ (رواہ احمد وابوداؤد والنسائی والحاکم۔ فقه السنة: ج۱ص۱۴۴)

’’رسول اللہﷺ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ دو انگلیوں سے اشارہ کر رہے تھےتو آپﷺ نے دو دفعہ فرمایا کہ ایک انگلی سے اشارہ کیجئے۔‘‘

تنبیہ:

حضرت وائلؓ کی ایک روایت میں دونوں سجدوں کے درمیان اشارہ کرنے کا ذکر آتا ہے۔ اس کو عبدالرزاق نے (ج۲ص۶۸،۶۹ میں) ذکر کیا ہے، ان سے احمد (ج۴ص۳۱۷) اور طبرانی (ج۲۲ص۳۴،۳۵) نے بھی روایت کیا ہے۔ مگر یہ ایک راوی کی غلطی ہے۔ تفصیل کے لیے الشیخ البانی کی کتاب تمام المنتہ (ص۲۱۴تا۲۱۶) دیکھیں۔ (حاشیہ صلوٰۃ الرسول ص۴۵۶)

کیا انگلی کو حرکت دے:

انگلی کو حرکت دیتے رہنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے:

عن وائل بن حجر عن رسول اللہﷺ قال ثم جلس فافترش رفلہ الیسری ووضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری وحد مرفقه الیمنی علی فَخِذِهِ الْيُمْنَى وقبض ثنتین حَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا: يَدْعُو بِهَا۔ (رواہ ابو داؤد والدارمی والنسائی مشکوة۔ الفصل الثانی)

’’وائل بن حجرؓ رسول اللہﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ دوسرے سجدے سے فارغ ہو کر بیٹھے اور بایاں پاؤں پھیلایا اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا اور دائیں کہنی کا کنارہ دائیں ران پر رکھا۔ دو انگلیوں کو قبض کر لیا اور تیسری انگلی سے حلقہ بنایا پھر انگلی اٹھائی، میں نے دیکھا آپ اسے ہلاتے اور اشارہ کرتے جاتے۔‘‘ اس حدیث کو نسائی نے بھی روایت کیا ہے اور حدیث صحیح ہے لاکلام فی صحته۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انگلی کو حرکت دیتے رہنا چاہیے۔

سوال یا تعارض:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا، وَلَا يُحَرِّكُهَا» (رواہ ابو داؤد والنسائی وزاد ابو داؤد ولا یجاوز بصرہ إشارته۔ عون المعبود: ج۱ص۳۷۵)

’’عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب دعا (تشہد) پڑھتے تو اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے، ہلاتے نہیں تھے۔‘‘ اندریں صورت یہ دونوں احادیث باہم متعارض ہیں۔

اس تعارض کا حل: حافظ ابن قیم فرماتے ہیں: شہادت کی انگلی کو ہلانا ثابت ہے اور ابن زبیر کی روایت میں جو یہ زیادتی ہے، کہ آپ انگشت شہادت کو حرکت نہیں دیتے تھے، اس زیادتی کی صحت میں محدثین کو تامل ہے اور صحیح مسلم میں یہ زیادتی بالکل ذکر نہیں۔ اگر اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو اصول کا مسئلہ ہے کہ مثبت منفی مقدم ہوتا ہے۔ پس وائل بن حجرؓ کی حدیث کو ابن زبیرؓ کی حدیث پر ترجیح ہے کہ وائل کی حدیث مثبت ہے جب کہ زبیر کی حدیث نافی ہے۔ (کذافی زادالمعاد: ص۲۳۸۔۲۳۹)

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لا یحر کھا کے الفاظ میرے نزدیک شاذ یامنکر ہیں۔ کیونکہ محمد بن عجلان اس پر ثابت نہیں رہے۔ انہوں نے کبھی اس اضافہ کو بیان کیا ہے اور کبھی نہیں اور یہی عدم ذکر درست ہے۔ اس حدیث کو محمد بن عجلان کی طرح دوسرے راویوں نے بھی روایت کیا ہےمگر انہوں نے لایحرکھا کے الفاظ کا ذکر نہیں کیا۔ پس اس حدیث کو وائل بن حجرؓ کی حدیث کے مقابلہ میں پیش کرنا روا نہیں۔ تحقیق المشکوٰۃ (ج۱ص۲۸۷) وتمام المتہ (ص۲۱۷،۲۱۸) وتحقیق صلوٰہ الرسول (ص۴۵۲)

ملحوظہ: حدیث وائل پر بعض اہل علم نے قدرے کلام کیا ہے۔ اس کے رد کے لیے بھی تمام المتہ (ص۲۱۸،۲۲۲) ملاحظہ فرمائیں۔

حرکت دینے کی کیفیت اور وقت:

شوافع کے نزدیک أشھد أن لا إلہ إلا اللہ  پر حرکت دینی چاہیے اور بس اور اس کو وہ سنت گردانتے ہیں۔

امام نووی لکھتے ہیں:

وَالسُّنَّةُ أَنْ لَا يُجَاوِزَ بَصَرُهُ إشَارَتَهُ، وَفِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ فِي سُنَنِ أَبِي دَاوُد وَيُشِيرُ بِهَا مُوَجَّهَةً إلَى الْقِبْلَةِ وَيَنْوِي بِالْإِشَارَةِ التَّوْحِيدَ وَالْإِخْلَاصَ. (شرح مسلم: جص۲۱۶)

ورأی الشافعیة أن یشیر بالأصبع مرة واحدة عند قوله إلا اللہ۔ (فقه السنه: ج۱ص۱۴۴)

’’نظر انگلی کے اشارہ سے تجاوز نہ کرے اور انگلی قبلہ کی جانب ہو اور الااللہ پر صرف ایک بار حرکت دے اور بس۔

اور اشارہ کے وقت توحید اور اخلاص کی نیت ہو۔‘‘

علامہ صنعانی کا میلان بھی اسی طرف ہے کہ اشارے کا مقام لا الہ الااللہ کہنے کے وقت ہے، جیسا کہ بیہقی نے رسول اللہﷺ کا فعل مبارک نقل کیا ہے اور اشارے سے توحید واخلاص کی نیت ہونی چاہیے۔

مگر اس حدیث سے دو وجوہ کی بنا پر استدلال درست نہیں۔ (۱) یہ حدیث ضعیف ہے (۲) اس میں ہرگز یہ صراحت نہیں کہ رسول اللہﷺ لا الہ الا اللہ کہنے پر اشارہ کرتے تھے۔

احناف کہتے ہیں کہ لا الہ کے لا پر انگلی اٹھائی جائے اور الا اللہ کہنے پر رکھ دی جائے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ کہنے پر انگلی اٹھانا اور الااللہ پر انگلی کو رکھ دینااس کی کوئی اصل نہیں، حتی کہ اس کے ثبوت میں کوئی موضوع روایت بھی موجود نہیں۔ (تحقیق المشکوۃ ج۱ص۲۸۵) اور صفۃ صلوۃ النبیﷺ میں لکھتے ہیں:

وأما وضع الإصبح بعد الإشارة أو تقدیدھا بوقت النقی والإثبات فکل ذلک مما لا اصل له فی السنة بل ھو مخالف لھا بدلالة ھذا الحدیث أی حدیث وائل۔ (صفة الصلوة: ص۱۴۹)

’’اشارہ کے بعد انگلی کو رکھ دینا یا نفی (لا) کہتے وقت انگلی کو اٹھانا اور اثبات (الااللہ) پر انگلی کو رکھ دینا یہ تمام باتیں بے اصل ہیں حتی کہ اس کے ثبوت میں کوئی من گھڑت روایت بھی موجود نہیں۔ لہٰذا حضرت وائل کی حدیث کے مطابق التحیات شروع کرتے وقت انگلی کو حرکت دینا اور سلام پھرنے تک انگلی کو ہلاتے رہنا ہی صحیح سنت ہے۔‘‘

صرف وائل ہی کی حدیث سےنہیں بلکہ اشارے کے اثبات میں جتنی احادیث آتی ہیں سب سے یہی ثابت ہوتا ہے اور یہی صحیح ہے۔

شیخ الکل السید نذیر حسین المحدث الدہلوی تصریح فرماتے ہیں:

إن المصلی یستمر إلی الرفع إلی آخر الدعاء بعد التشہد وقد نقل صاحب غایة المقصود فتواہ بتمامه۔ (عون المعبود: ج۱ص۳۸۷)

’’نمازی کو التحیات کے آغاز سے لے کر تشہد کے بعد کی آخری دعا پڑھنے تک اشارہ کرتے رہنا چاہیے۔‘‘

حضرت شیخ الکل کا مفصل فتویٰ حسب ذیل ہے:

واضح ہو کہ اٹھانا سبابہ کا آخر تشہد تک کتب احادیث سے ثابت ہے، جیسا کہ محلی شرح مؤطا میں مرقوم ہے:

ونقل عن بعض أئمه الشافعیه والمالکیه انه یریم رفعا الی اخر التشھد واستدل له بما فی أبی داؤد رفع إصبعه فرأیناہ یحرکھا ویدعو وفیه تحریکھا دائما اذا الدعاء بعد التشھد قال ابن حجر (الھیثمی) ویسن أن یستمر الرفع إِلَى آخِرِ التَّشَهُّدِ كَمَا قَالَهُ بَعْضُ أَئِمَّتِنَا، وَإِنِ اعْتَرَضَهُ جَمْعٌ بِأَنَّ الْأَوْلَى عِنْدَ الْفَرَاغِ إِعَادَتُهَا وقال ابن حجر الھیثمی ایضا انه لیسن رفعھا مع انحنائھا قلیلا مخبر صحیح فیه إلی جھة القبلة۔ (کذا فی المحلی شرح مؤطا لمولانا سلام اللہ الحنفی، فتاوی نذیریہ: ج۱ص۵۰۲،۵۰۳)

شافعی اور مالکی بعض ائمہ سے منقول ہے کہ تشہد کے آخر تک پھر انگلی اٹھائے رکھے۔ اور ابوداؤد کے حدیث سے استدلال کیا ہے ک رسول اللہﷺ نے انگلی کو اٹھایا تو پھرا س کو حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔ ابن حجر مکی کہتے ہیں کہ مسنون ہے کہ تشہد کے آخر تک انگلی کو اٹھائے رکھے، جیسا کہ ہمارے بعض ائمہ سے منقول ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اٹھانے کےت بعد پھر اس کو نیچا کرے۔ ابن حجریہ بھی کہتے ہیں انگلی اٹھائے تو کچھ جھکا کر (منحنی) قبلہ رخ رکھے۔ نیز یہ فتویٰ التعلیقات السلفیہ میں بھی موجود ہے۔

اشارہ شیطان کو زخم لگاتا ہے:

عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ، وَأَتْبَعَهَا بَصَرَهُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَهِيَ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيدِ۔ (رواہ احمد،  مشکوة)

’’عبداللہ بن عمر جب تشہد میں بیٹھتے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر  رکھتے اور انگلی سے اشارہ فرماتے اور اپنی نظر وہیں تک محدود فرما لیتے پھر کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ انگلی مسبحہ شیطان کو لوہے (کے برچھے ) سے سخت محسوس ہوتی ہے۔‘‘

اس حدیث کو بزار نے جھی روایت کیا ہے۔ اس کا ایک راوی کثیر بن زید متکلم فیہ ہے، بعض محدثین نے اس کو ثقہ اور بعض نے ضعیف قرار دیا ہے۔ حضرت اسماعیل سلفیؒ اس حدیث کی شرح فرماتے ہیں:

مطلب یہ ہے کہ تشہد میں انگکی کے اشارے سے توحید کی شہادت کی تائید اور تصدیق کرنا شیطان کو برچھے سے بھی زیادہ تکلیف پہنچاتا ہے کیونکہ مومن دل سے تو پہلے ہی توحید کا یقین رکھتا ہے اور اب زبان اور انگکی کے اشارہ سے اس کی تائید بھی کر رہا ہے تو اس وقت شیطان اس سے بالکل ماہوس ہو جاتا ہے کہ اب یہ میرے قابو میں نہیں آئے گا اور اس اشارے کی اس کو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ اگر اس کو برچھا بھی لگ جاتا تو اس کہ اتنی تکلیف نہ ہوتی۔ مومنوں کو چاہیے کہ تشہد میں انگلی ضرور اٹھایا کریں تاکہ شیطان کو تکلیف ہو۔‘‘

انگلی ہلانے کا فلسفہ:

انگلی ہلانے کا فلسفہ یہ ہے کہ جب انگلی کو اٹھایا تو اس نے توحید کی گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، فرد ہے، یکتا ہے اور بےہمتا ہے۔ پھر جب انگلی کا باربار حرکت دینا شروع کیا تو اس نے بار بار ایک، ایک ہونے کے اعلان کا عملی مظاہرہ کیا۔ مثلاً: تشہد کے دوران اگرا نگلی کو نو، دس یا اس سے بھی زیادہ دفعہ ہلایا تو اتنی دفعہ ہی انگلی نے توحید کے اعلان کا عملی مظاہرہ کیا۔ باالفاظ دیگر انگلی کھڑی ہوئی زبان حال سے بول بول کر اللہ احد اللہ احد کا پرچار کرتی رہی اور نمازی کے کیف وحضور کا یہ عالم ہونا چاہیے کہ نظر کے رفع اور حرکت پر محدود رکھے، دماغ وحدانیت کی قطقط دل پر گرائے اور اس آب حیات سے دل اپنی پیاس بجھاتا رہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص352

محدث فتویٰ

تبصرے