سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

گھر کی زینت کے لیے رکھے ہوئے مجسموں کا کیا حکم ہے

  • 14171
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1199

سوال

گھر کی زینت کے لیے رکھے ہوئے مجسموں کا کیا حکم ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسے مجسموں کا کیا حکم ہے جو گھروں میں محض زینت کے لیے رکھے جاتے ہے جبکہ ان کی عبادت نہیں ہوتی؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 گھروں میں دفتروں میں مجالس میں تصاویر یا حنوط شدہ حیوانات آویزں کرنا جائز نہیں۔ لٹکانے حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ چیزیں اللہ سے شرک کا ذریعہ ہیں اور اس لیے بھی اللہ کی مخلوق کی مشابہت اور اللہ کے دشمنوں کی نقالی ہے اور حنوط کردہ جانوروں کو آویز اں کرنے میں مال کے ضیاع کے علاوہ اللہ کی دشمنوں کی نقالی بھی ہے ۔ جس سے جانوروں کی تصویر کشی کا دروازہ کھل جاتا ہے جبکہ شریعت اسلامیہ ایسے ذرائع کو مکمل طور پر بند طور کر دیتی ہے جو شرک یا گناہ کے کاموں کی طرف لے جاتے ہیں۔ نوح ﷤ کی قوم میں ان کے زمانہ کے پانچ بزرگوں کی تصویر کشی کی وجہ سے ہی شرک رائج ہواتھا ان لوگوں نے ان کے مجسمے اپنی مجلسوں میں نصب کر رکھے تھے۔جیسا کہ اللہ سبحانہ نے اپنی کتاب مبین میں اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ:

﴿وَقالوا لا تَذَرُ‌نَّ ءالِهَتَكُم وَلا تَذَرُ‌نَّ وَدًّا وَلا سُواعًا وَلا يَغوثَ وَيَعوقَ وَنَسرً‌ا ﴿٢٣وَقَد أَضَلّوا كَثيرً‌ا ... ﴿٢٤﴾... سورة نوح

’’ اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھورنا اور ود ، سواع یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے‘‘

گویا ایسے لوگوں کیان ناپسندیدہ کاموں سے بـچنا ضروری ہے جس کی وجہ سے وہ شرک میں جا پڑے تھے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺنے حضرت علی بن ابی طالب﷜سے فرمایا:

«لا تَدعْ صورة إلَّا طَمسْتها، ولا قبراً مشرِفًا إلا سوَّ یته»

’’ جو بھی تصویر یا مجسمہ دیکھو اسے مٹادو اور جو قبر اونچی دیکھو اسے برابر کردو۔

مسلم نے  اپنی صحیح میں اس حدیث کی تخریج کی ہے نیز آپﷺ نے فرمایا:

«أَشدُّ النَّاس عذاباً یومَ القیامة المصوِّرون»

’’ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب مصوروں کو ہوگا‘‘

اس حدیث صحت پر اتفاق ہے اور اس  بارے میںاور بھی بہت سی احادیث ہیں… اور توفیق عطاکرنے والا تو اللہ تعالی ہی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

جلد1

محدث فتویٰ

تبصرے