عن عبداللہ ابن عمرو عن النبیﷺ قال إذا کنت مع الامام فاقراء بام القران قبلہ اذا سکت۔ (کتاب القراءۃ: ص۵۴)
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تو امام کے ساتھ نماز پڑھارہا ہو تو اس کے پیچھے سکتہ میں یہی سورۃ فاتحہ پڑھ لیا کر۔‘‘
’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے مقتدیوں (صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب ہو کر)فرمایا:
جب امام پرھتا ہے تو کیا تم اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ ایسا مت کیا کرو، تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھ لیا کرے۔‘‘
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔ وہ نماز ناقص ہے (مردہ ہے) مکمل نہیں ہے۔
فاتحہ کے علاوہ کوئی قراءت مقتدی پر واجب نہیں:
’’حضرت عبداللہ اپنے باپ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میرے پیچھے پڑھتے ہو؟ ہم نے کہاہاں، آپﷺ نے فرمایا: سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔‘‘
امام االانبیاء ﷺ کا فرمان اور فرضیت فاتحۃ:
’’حضرت ابو سعید حذری رضی اللہ عنہ نے فرمای کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیاہے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھاکریں۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع اور فرضیت فاتحہ:
’’ابو نضرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (صحابہ رضی اللہ عنہم) سورۃ فاتحہ جو میسر ہو پڑھا کریں۔‘‘
سورۃ فاتحہ کی شان اور تارک کا نقصان:
’’حضرت ابو امامہ کے خادم ابو عنبسہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے امام کے پیچھےسورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ناقص (مردہ) ہے۔‘‘
فرض تو صرف سورۃ فاتحہ ہی ہے:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریمﷺ کھڑے ہوئے، پس پڑھیں آپ نے دو رکعتیں ان میں سوائے سورۃ فاتحہ کی قراءت نہ کی۔‘‘
امام ومقتدی دونوں پر فاتحہ پڑھنا واجب ہے:
’’فرمایا رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پیچھے پڑھتے ہو؟ لوگوں نے کہا ہاں، ہم لوگ جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: نہ پڑھو مگر سورۃ فاتحہ۔‘‘
ترک فاتحہ سے ہر نماز بے کار ہے:
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔ اس کی نماز نہیں ہے۔‘‘
سورۃ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز مقبول نہیں:
ہر نمازی کے لیے ہر نماز میں فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے:
جواب: سوال نمبر ۲: سورۂ فاتحہ کے ارکان میں سے ایک رکن اور فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ نماز خواہ نفلی ہو یا فرضی، پڑھنے والا مقامی ہو یا مسافر، امام ہو یا مقتدی، یعنی ہر نمازی کے لیے ضروری کہ وہ اپنی ہرنماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھے ورنہ اس کی نماز نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مجتہد مطلق امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی صحیح میں یوں باب باندھا ہے:
’’امام اور مقتدی کے لیے تمام حضری اور سفری نمازوں میں سورۃ فاتحۃ کا پڑھنا واجب ہے۔ چاہے جہری قراءت والی نماز ہو یا سری قراءت والی۔‘‘
اور پھر یہ حدیث لائے ہیں:
’’یعنی نماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔ خواہ امام ہو یا مقتدی ہو، نماز نفل ہو یا فرض، سفری ہو یا حضری۔
یہی حدیث انہی الفاظ میں صحیح مسلم (ص۱۶۹ج۱ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ وانہ اذا لم یحسن الفاتحۃ۔ الخ) ابو داؤد (ص ۱۱۸ باب من ترک القراءۃ إلا بفاتحۃ الکتاب) نسائی (ص ۹۳ج۱ باب إیجاب قرائۃ فاتحۃ الکتاب فی الصلوۃ) ابن ماجہ (ص۶۰ ج۱ باب القراءۃ خلف الامام) میں موجود ہے۔
’’یعنی آنحضرتﷺ نے ایک دفعہ صبح کی نماز پڑھانے کے بعد فرمایا کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو، تو ہم نے کہا ہاں، تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سورۂ فاتحہ کے علاوہ امام کے پیچھے کچھ نہ پڑھا کرو سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے اور بغیر فاتحہ کے نمازنہیں ہوتی۔ واللہ اعلم
احناف کے ایک استدلال کا جواب:
قارئین کرام! غور فرمائیے کہ اگر علمائے اسلام بالخصوص علمائے احناف، آیت ﴿یٰاَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوْااِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِن یَّومَ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلیٰ ذِکرِ اللہ وَذَرُوالْبَیْعَ﴾ میں وارد رتمام مسلمانوں پرجمعہ کی فرضیت کے عام حکم میں سے ازروئے حدیث غلام، عورت، مسافر اور مریض وغیرہ اور احناف کے ایک گروہ علمائے بریلویہ کے نزدیک، عورت، بچہ، غلام، بیمار، مسافر، دیہاتی، نابینا اور لنگڑا پر ست جمعہ کی فرضیت کو مستثنیٰ قرار دے لیں اور پھر اس استثنا کو صحیح قرار دیں تو پھر وَاِذا قُرِئَ القُرآن کے عام حکم سے ازروئے احادیث صحیح کثیرہ، امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے استثنا کو کیوں صحیح اور درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
پس جس طرح مذکورہ ﴿يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ﴾کے عام حکم سے ازروئے حدیث (اور وہ بھی ضعیف حدیث کے) غلام، مریض، عورت، مسافر وغیرہ پر جمعہ کی عدم فرضیت کی استثنا درست اور صحیح ہے، اسی طرح وَاِذَا قُرِئَ القرآن کے عام حکم سے ازروئے اھادیث صحیحہ کثیرہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کی استثنا درست اور صحیح ہے۔﴿ فَمَا جَوَابُکم فَھوَ جَوَابنَا﴾
پس ثابت ہوا کہ امام کے پیچھے مقتدی کے لیے بھی سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے۔ البتہ مقتدی امام کی قراءت کے وقت صرف سورت فاتحہ ہی پڑھے، سورت فاتحہ سے آگے مزید قرآن نہ پڑھے اور سورت فاتحہ آہستہ طور پڑھے۔
الحاصل امام، مقتدی، منفرد ہر نماز کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ ضرور پڑھے۔ جو نمازی اپنی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے گا اس کی وہ نماز نہیں ہوگی۔
اگر کوئی ضدی متعصب حنفی ان مذکورہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کے دلائل وبراہین ہونے کے باوجود اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر مصر رہے کہ واذا قرئ القرآن والی آیت کی وجہ سے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے سے آیت کے معنی میں تعارض وتخالف پیدا ہوتا ہے ، کیونکہ آیت کے الفاظ کے معنویت کا نقاضا ہے کہ جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اس کی سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔ تو ہم اس کی خدمت میں گزارش کریں کے یہ تعارض وتخالف تو جب ہوگا اگر مقتدی بھی امام کی طرح اونچی آوز میں سورۃ فاتحہ پڑھے، جیسا کہ نبی علیہ السلام کی امامت میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس مسئلہ کی لاعلمی سے آپ کے پیچھے اونچی آواز سے قرات کی تھی۸۔ جس کی وجہ سے آپ کو پڑھنے میں دشواری پیش آگئی تھی تو نماز سے فراغت کے بعدآپ نے ان کو فرمایا:
’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ ہم نے کہا، ہاں(ہم آپ کے پیچھے پڑھتے ہیں) اے اللہ کے رسول۔ توآپﷺ نے فرمایا: تم (ایسا) نہ کرو۔ (یعنی تم نہ پڑھا کرو) مگر سورت فاتحہ (پڑھا کرو)۔ کیونکہ اس کی کوئی نماز نہیں جس نے اس کو نہ پڑھا۔
حدیث ہذا سے ثابت ہوا کہ نبیﷺ نے نماز میں اپنے پیچھے اونچی آﷺاز سے قراءت کرنے والوں کو اونچی آواز سے قراءت کرنے سے منع کر دیا تھا اور آپ نے ان کو حکم فرما دیا تھا کہ آہستہ آواز سے سورت فاتحہ پڑھا کرو۔ سورت فاتحہ سے مزید قراءت نہ کیا کرو۔ (اس کی صراحت ووضاحت سابقہ تفصیل سے گزر چکی ہے) غور کیجیے۔ جب مقتدی امام کی قرات کو سنے بھی اور خاموش بھی رہے اور سورت فاتحہ کو آہستہ طور پر پڑھے کہ دوسرا آدمی اس کے فاتحہ پڑھنے کو سن سکے تو پھر اس آیت کے معنی میں تعارض وتخالف کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ اسی لیے تو کئی صحیح احادیث میں مقتدی کو اقرأ بھا فی نفسک (تو اس (سورت فاتحہ) کو آہستہ پڑھا کر) سے پابند کیا گیا ہے کہ مقتدی جہری نمازوں میں بھی سورت فاتحہ پڑھے، لیکن آہستہ آواز سے پڑھے۔ جیسا کہ اس معنی ومفہوم کی کئی احادیث کا سابقاً ذکر ہو چکا ہے۔ میں حیران ہوں کہ علمائے احناف ذیل کی صورتوں میں حکم عام میں سے ذیل والی چیزوں کے پڑھنے کی استثنا کی ممانعت ومخالفت پر اصرار کر رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟
(۱) واذا قرء القران آیت کے مطابق قراءت قرآن کے وقت سامع کو سننے اور خاموش رہنے کے حکم عام ہونے کے باوجود امام کی قرات کے وقت احباب احناف مقتدی کو دعا وثناء «سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ» پڑھنا عین جائز قرار دے رہے ہیں۔ (فتاوی عالمگیری: ج۱ص۱۲۳، قنیۃ ص۸۳)
(۲) نماز فجر باجماعت ہونے کی حالت میں امام کی قراءت کے وقت صفوں کے پیچھے مسجد کے کسی ستون کے پاس کھڑے ہو کر فجر کی دو سنتیں پڑھ لینا جائز ہے۔ (ردالمحتار ص۴۸۱)
(۳) جمعہ کا خطبہ سننا فرض ہے، لیکن اگر کسی کو دوران سماعتِ خطبہ یاد آگیا کہ اس نے فجر کی نماز نہیں پڑھی ہے تو عام علمائے احناف کے نزدیک خطبہ جمعہ کے وقت اور امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک نماز جمعہ ہونے کی حالت میں بھی فجر کی نماز پڑھنی چاہیے۔ اگر فجر کی نماز پڑھنے کے دوران ہی نماز جمعہ ختم ہوگئی تو اب اس کو نماز ظہر پڑھنی چاہیے۔ (ردالمحتار)
مذہب حنفیہ بھی کیا خوب ہے۔ واذا قرئَ القران کے حکم عام کی وجہ سے احادیث صحیحہ کثیرہ ہونے کے باوجود امام کے پیچھے مقتدی کو آہستہ طور پر سورت فاتحہ پڑھنے کو علماء احناف ممنوع قرار دیں، لیکن جمعہ کے خطبہ کا سننا جو فرض ہے، خطبہ جمعہ کے وقت خاموش رہنا فرض ہے، جمعہ کی نماز میں شامل ہونا فرض ہے، لیکن ان تینوں عام حکموں کی فرضیت کا قائل ہونے کے باوجود نماز فجر پڑھنے کے استثنا کو جائز قرار دینا حتی کہ نماز فجر پڑھتے پڑھتے اگر نماز جمعہ ختم ہوجائے تو نماز فجر پڑھنے والے کو نماز ظہر پڑھ لینے کو صحیح قرار دینا صرف علماء حنفیہ کا ہی کارنامہ ہے۔
(۴) جمعہ کا خطبہ سننا فرض ہے، دوران خطبہ اگر خطیب ﴿یٰأَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّواعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْما﴾ آیت پڑھےتو عند الحنفیہ سامعین کو آہستہ آواز میں آپ پر درود سلام پڑھنا چاہیے۔ (شرح وقایہ ص۷۵، رمز الحقائق شرح کنز الدقائق ص۴۵)
قارئین کرام! غور کیجیئے کہ جب علماء احناف کے نزدیک:
(۱) امام کے پیچھے اس کے مطلق قراءت کے وقت یا صرف قراءت بلاسیر کے وقت دعا وثناء پڑھنا جائز ہے اور یہ وإذا قرئ القرآن والی آیت سے ممنوع وناجائز اور ممنوع ہوا؟ جو جواب دعاوثناء کے جواز کا ہو گا وہی جواب ہماراہوگا۔
(۲) جب فجر کی نماز میں امام کی قراءت کے وقت علماء احناف فجر کی مکمل دو سنتوں کو مسجد کے کسی ستون وغیرہ کے قریب پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور امام کی قراءت کے وقت مقتدی کا ان دونوں رکعتوں کا پڑھنا آیت وإذا قرئ القرآن سے ممنوع وحرام نہیں تو پھر امام کی قراءت کے وقت مقتدی کا صرف سورت فاتحہ پڑھنا کیوں ممنوع وناجائز ہے؟ جو علماء احناف کا جواب سنت فجر کا ہوگا وہی جواب سورت فاتحہ کا ہوگا۔
(۳) اگر خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ کے وقت فجر کی نماز (دو سنت، دو فرض رکعات) کی قضا پڑھنے کو جائز قرار دیں اور آیت وإذا قرئ القرآن سے ممنوع نہ سمجھیں تو پھر امام کے پیچھے صرف سورت فاتحہ پڑھنے کو کیوں ممنوع وناجائز سمجھیں۔ جو جواب فجر کی نماز پڑھنے کا ہے وہی جواب امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کا ہے۔
(۴) اگر خطبہ جمعہ کے وقت خطیب کے ﴿یٰأَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّواعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْما﴾پڑھنے پر سامع (سننے والا) آہستہ سے آپ پر درود سلام پڑھ لے اور آیت واذا قرئ القران کا خلاف نہ ہو اور خطبہ جمعہ کے سننے کی فرضیت کا خلاف نہ ہو تو امام کے پیچھے مقتدی کے آہستہ آواز میں سورت فاتحہ کا پڑھ لینا کیسے ممنوع وناجائز ہوگا؟ خطبہ جمعہ کے وقت آپ پر درودوسلام پڑھنے کا جو جواب ہوگا وہی جواب امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورت فاتحہ پڑھنے کا ہوگا۔
قرآن وحدیث کے ان دلائل وبراہین سے ثابت ہوا کہ سورت فاتحہ اگرچہ قرآن مجید کی ایک سورت ہے۔ لیکن شان وعظمت کے اعتبار سے اسے باقی قرآن پر ایک گونہ امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سات آیتوں والی سورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام سبع مثانی اور قرآن عظیم رکھا ہے۔ بالیقین یہی ایک سورت ہے جو دنیائے جہاں کے پر مسلمان نمازی کو اس کی ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا گیاہے۔ یہی وہ عظیم الشان عظیم المرتبت سورت ہے جس کے پڑھے بغیر نہ کوئی نماز ہوتی ہے: اور نہ کوئی رکعت۔ چونکہ یہ سورت فاتحہ ہرنمازی کی ہر نماز کی ہر رکعت میں باربار دہرائی جاتی ہے اس لیے یہ سورت سع مثانی اور قرآن عظیم نام سے عین اسم بامسمی ہوئی۔ یہی وہ عظیم الشان سورت ہے جو نماز میں اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان مناجات ومکالمہ کا سبب بنتی ہے اور نمازی اس کے پڑھنے سے مناجات الٰہی کے شرف سے مشرف ہوتا ہے۔ یہی وہ صورت ہے جو پورے قرآن مجید کے مفصل مضامین کا مجموعہ، خلاصہ اور لب لباب ہے۔
احناف کے اپنے گھر کی شہادت:
﴿وَاِذَ قُرِیئَ القُرْانُ﴾ کے شان نزول اور اس سے لیے جانے والے ہمارے مذکورہ معنی ومفہوم اور موقف کی تائید وتوضیح حنفیہ کے اپنے گھر کی شہادت سے بھی ہورہی ہے۔ چنانچہ مشہور دیوبندی مفسر مولانا عبدالماجد دریاآبادی۔ وإذا قرئ القران فاستمعوا لہ وأنصتوا لعلکم ترحمون کے شان نزول کے متعلق یوں لکھتے ہیں:
حکم کے مخاطب ظاہر ہے کہ کفار ومشرکین ہیں اور مقصود اصلی یہ ہے کہ جب قرآن بہ غرض تبلیغ وغیرہ پڑجھ کر تم کو سنایا جائے تو تم اسے توجہ وخاموشی کے ساتھ سنو۔ تاکہ اس کا معجزہ ہونا اور اس کی تعلیمات کی خوبیاں تمہاری سمجھ میں آجائیں اور تم ایمان لا کر مستحق رحمت ہوجاؤ۔ اصل حکم تو اسی قدر تھا لیکن علمائے حنفیہ اس کے مفہوم میں توسیع پیدا کر کے اس سے حالت نماز میں مقتدی کے لیے قرآنی سورت فاتحہ کی ممانعت بھی نکالی ہے۔ صیغہ امر کو استحباب کے لیے سمجھا جائے۔ (تفسیر ماجدی: ص۳۷۳ حاشیہ ۲۹۹)
کیوں جناب! جب دیو بندی حنفی مفسرین اس آیت کے حکم کو عام تبلیغ پر محمول کرتے ہیں اور اس آیت کا یہی مقصود اصلی سمجھتے ہیں اور صیغہ امر کو استحباب پر محمول کرتے ہیں تو پھر دیگر متعصب علماء احناف اس آیت سے مقتدی کے لیے امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کو کیوں ممنوع وناجائز قرار دیتے ہیں؟
مزید برآن دیگر کتب فقہ حنفیہ میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ وإذا قرئ القرآن سے نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھنے کا ثبوت پیش کرنا لغو اورساقط الاحتجاج ہے۔ جیسا کہ صاحب نورالانوار نے آیت وإذا قرئ القران ۔۔۔الخ سے عدم قراءت فاتحہ پر دلیل پکڑنے کو آیت فاقرؤ ما تیسر من القران۔۔۔۔الخ کے معارض قرار دے کر ساقط الاحتجاج والاعتبار ٹھہرایاہے۔ لکھتے ہیں:
لِأَنَّ الْاٰ تَتَیْنِ إِذَا تَعَارَضَتَا تَسَاقَطَتَا۔ (نوو الانوار: ص۱۹۱)’’دو آیتیں جب باہم متعارض ہوں تو ان میں (کسی ایک) سے استدلال کرنا باطل ہوجاتا ہے۔‘‘
اسی طرح فقہ حنفیہ کی کتاب تلویح (ص۴۱۵ باب المعارضۃ والترجیح) میں لکھا ہے کہ یہ دونوں آیتیں﴿ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْانُ۔ الخ فَاْقرؤا ماتیسر من القران۔ الخ﴾ ایک دوسرے کی معارض ہونے کی وجہ سے ساقط الاحتجاج ہیں۔ (تلویح: ص۴۱۰)
پس جب حنفیہ کے اپنے گھر کی ان شہادتوں سے فاقرؤ ما تیسر من القران کی وجہ سے واذا قرئ القران والی آیت کا حکم ساقط الاحتجاج ٹھہرا ہے تو پھر وإذا قرئ القران والی آیت کے حکم کو امام کے پیچھے سورت فاتحہ نہ پڑھنے پر ہرگز محمول نہیں کیا جا سکتا۔
چونکہ وإذا قرئ القران والی آیت کے نزول کے بعد رسول اللہﷺ نماز میں مقتدی کے لیے سورت فاتحہ کا حکم دیا ہے۔ اس لیے مقتدی کو ہر رکعت میں سورت فاتحہ کا پڑھنا نہایت ضروری ہے۔ نماز میں سورت فاتحہ پڑھنے اور اس کے بغیر نماز نہ ہونے کی صراحت ووضاحت اور تائید وتوضیح کے لیے کتب صحاح ستہ اور امام بیہقی کی کتاب ’’کتاب القرأۃ‘‘ اور امام بخاری کی کتاب ’’جزء القرأۃ‘‘ میں بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں۔ جن سے اظہر من الشمس واضح ہے کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں امام، مقتدی، منفرد سب کے لیے سورت فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے۔ سورت فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے۔