سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

( 73) دوہری اذان کا کیا حکم ہے؟

  • 14146
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2696

سوال

( 73) دوہری اذان کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دوہری اذان کا کیا حکم ہے۔ کیا پانچوں اذانیں دوہری کہی جا سکتی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوہری اذان سنت ہے، جیسا کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

((عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ، قَالَ: أَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّأْذِينَ هُوَ بِنَفْسِهِ، فَقَالَ: " قُل: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ثم تعود فتقول  أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، الحدیث)) (رواہ مسلم، تنقیح الرواة: ج۱ص۱۱۳)

اس صحیح حدیث میں واضح طور پر شہادت کے کلمات آٹھ دفعہ خود رسول اللہﷺ نے تعلیم فرمائے ہیں اور اس دوہری اذان کو ترجیع کہا جاتا ہے اور اس ترجیع کو ابو داؤد کی حدیث میں بڑی صراحت کے ساتھ سنت کہا گیا ہے، ابو مخدورہ کے الفاظ یہ ہیں: قَال قُلتُ یا رسول اللہﷺ عَلمنی سنة الاذان قال فمسح مقدم راسه پھر فرمایا چار دفعہ اللہ اکبر کہو اور پھر پست آواز کے ساتھ دو دفعہ اشھد ان لا اله الا اللہ اور دو دفعہ اشھد ان محمد رسول اللہ کہو، پھر بلند آواز کے ساتھ شہادتیں کے کلمات کو دو دفعہ دہراؤ اور پھر باقی اذان مکمل کرو۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ دوہری اذان مسنون اذان ہے۔

حضرت ابو مخدورہ رضی اللہ عنہ سے ایک تیسری روایت یوں ہے:

((عن أبی محذورة أن النبیﷺ ألا ذان تسع عشرة کلمة والإقامة سبع عشرة کلمة۔ (رواہ احمد والترمذی وأبوداؤد والنسائی والدارمی وابن ماجه وقال الترمذی ھذا حدیث حسن صحیح))

امام بیہقی نے اگرچہ بوجوہ اس حدیث کی تضعیف کی ہے، مگر امام ابن دقیق العید نے بیہقی کے کلام کو رد کرتے ہوئے حدیث کو صحیح کہا ہے اور اذان کا انیس کلمات پر مشتمل ہونا تب ہی صحیح ہوتا ہے جب اذان میں شہادتیں کے کلمات آٹھ دفعہ کہے جائیں ورنہ اذان پندرہ کلمات میں محدود رہ جائے گی اور یوں اس صحیح حدیث کا انکار لازم آتا ہے اور مزید برآں زیادہ الثقہ مقبول کی بھی خلاف ورزی لازم آتی ہے جو کہ کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ ان احادیث صحیحہ اور حسنہ کے اطلاق اور عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوہری اذان سنت اور پانچوں نمازوں کے لیے کہی جا سکتی ہے اور باوجود تلاش کے مجھے تاحال منع کی کوئی حدیث نہیں ملی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص318

محدث فتویٰ

تبصرے