کیا مؤذن لمبی اذان کہ سکتا ہے؟ (سائل: محمد ندیم عاصم چک ۴۔R؍58 تحصیل ہارون آباد)
مناسب مقدار میں تکبیر کے مقابلہ میں لمبی اذان کہنے کی اجازت ہے مگر بے تحاشہ لمبی اذان بھی مناسب نہیں،اس سے اذان کا جواب دینے والے اکتا کر جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں اور اذان کے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں، جس کی ذمہ داری ایسے متکلف مؤذن پر عائد ہوتی ہے جو بلا وجہ اذان پر پانچ سے دس منٹ تک لگا دیتے ہیں۔ دوسری بات کہ اذان کے کلمات کے حروف بدل جاتے ہیں جس کی وجہ سے الفاظ میں تحریف لفظی واقع ہو جاتی ہے جو کہ بجائے خود ایک خلاف شرح جسارت ہے۔ ہاں مناسب طوالت بلا شبہ جائز ہے۔ حدیث میں ہے:
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے بلال جب تو اذان پڑھے تو ہر ایک کلمہ الگ الگ کہو اور آہستہ آہستہ کہو اور نماز کے لیے اقامت پڑھے تو جلدی جلدی پڑھو۔‘‘
مگر یہ حدیث ضعیف ہے، رَوَاہ الترمذی وقال لا نعرِفُہ إلا من حدیث عَبدالمُنعم وھو إسناد مجھول اور ایک دوسرا راوی عمروبن واقد بھی ضعیف ہے۔
قال الدارقطنی ھو متروک وقال ابن عدی یکتب حدیثہ مع ضعف ولہ شاھد من حدیث أبی ھریرۃ عند أبی الشیخ ومن حدیث أبی بن کعب عند عبداللہ بن احمد وکلھا واھیۃ الا انہ یقوبھا المعنی الذی شرح لہ الاذان فإنہ نداء لغیر الحاضرین فلا بد من تقدیر وقت یتسع للذاھب للصلوۃ ولھذا المعنی مال الحاکم إلی تصحیح الحدیث۔ (تنقیح الرواۃ شرح المشکوۃ: ج۱ص۱۱۴) اس ضعیف حدیث کے دو شاہد بھی ہیں، مگر وہ بھی کمزور ہیں مگر جس مقصد کے لیے اذان کہی جاتی ہے وہ مقصد اس کو قوی بنا دیتا ہے، یعنی چونکہ اذان غیر حاضر نمازیوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینے کے لیے پڑھی جاتی ہے اورا سکے لیے اذان کے کلموں کو الگ الگ اور ٹھہر ٹھہر کر کہنا چاہیے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کانوں میں سنائی دے جبکہ تکبیر (اقامت) مسجد میں موجود نمازیوں کو نماز کی جماعت کھڑی ہونے کے لیے پڑھی جاتی ہے، لہٰذا اس کولمبی کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم طوالت مناسب ہونی چاہیے ورنہ ریا کاری اور کلمات اذان میں تحریف کا خدشہ ہے۔