سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) راجح مصلحت کے تحت مسجد کی جگہ تبدیل کرنا جائز ہے

  • 14144
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4803

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین درایں مسئلہ کہ ایک آدمی نے کچھ جگہ مسجد کے لیے وقف کر دی، لیکن اس جگہ پر آبادی نہیں ہے اور نہ ہی جلدی آبادی ہونے کی توقع ہے۔ وہ اس جگہ پر مسجد بنانے کو موجود حالت میں مناسب نہیں سمجھتے۔ کیا وہ وقف شدہ جگہ فروخت کر کے کسی آبادی والی جگہ جہاں پر مسجد کی ضرورت ہے ’’وہاں جگہ خرید سکتے ہیں یا مسجد کی تعمیر پر لگا سکتے ہیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں دلائل کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں۔ (سائل: محمد طارق جاوید رچنا ٹاؤن فیروز والا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر واقعی صورت حال وہی ہے جو سوال نامہ میں مرقوم ہے تو اس وقف میں مفید تبدیلی کی شرعاً اجازت اور گنجائش ہے۔ ورنہ کسی قسم کی تبدیلی ہرگز جائز نہیں، کیونکہ مسجد وقف کی قسم ہے اور وقف عقد لازم ہے۔ یہ تبدیل نہیں ہو سکتا حدیث میں ہے انہ لا یباع ولا یوھب ولا یورث یعنی وقف نہ فروخت کیا جا سکتا ہے، نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ وراثت میں لیا جا سکتا ہے، اس بنا پر مسجد کے لیے وقف پلات مسجد ہی کے لیے رہے گا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پلاٹ سے فائدہ اٹھانے کی صورت کیا ہے، اگر یہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے تو مسجد ہی تعمیر کرنی ہوگی۔ ہاں اگر ہوں مسجد بنانے کی کوئی صورت نہیں۔ یا یہاں مسجد کی ضرورت ہی نہٰں یا وہاں نماز ہی نہیں اور نماز کے لیے دوسری مسجد موجود ہے یا کوئی اور شرعی وجہ ے تو اس مسجد کو کسی اور وقف میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس سے دوسری مسجد کو فائدہ پہنچے، مثلاً: یہ جگہ کرایہ پر یا ٹھیکہ پر دے دی جائے یا اس میں کھیتی باڑی کی جائے یا پھر فروخت کر کے اس کی قیمت سے کسی ایسی جگہ مسجد تعمیر کردی جائے جہاں مسجد کی ضرورت ہو یا درس وتدریس وغیرہ، کسی نیک مصرف پر صرف کر دی جائے۔ بہر صورت جو چیز اللہ وقف ہو چکی حتی الوسع جیسے بھی ممکن ہو اس کو اسی راہ میں صرف کرنا چاہیے۔ ضائع نہ ہونے پائے بالآخر وہاں قبرستان بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی مسلمانوں کے عام فائدہ کی چیز ہے۔ صحیح مسلم ونیل الاوطار میں ہے:

((عن عائشة انھا قالت سمعت رسول اللہﷺ یقول لولا ان قومك حدیث عھد بجاھلیة او قاص بکفر لانفقت کنز الکعبة فی سبیل اللہ ولجعلت بابھا بالارض ولا دخلت فیھا من الحجر)) (صحیح مسلم باب لقض الکعبة ج۱ص۴۲۹ ونیل الاوطار ج۶ص۳۱)

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سنا آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت کو نہ چھوڑے ہوتی یا کفر کو تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں صرف کر دیتا (یعنی جہاد میں) اور اس کا دروازہ زمین کی سطح کے برابر بنا دیتا اور حطیم کو کعبہ میں شامل کردیتا۔

بیت اللہ کے خزانے سے وہ مال مراد ہے جو لوگ بیت اللہ کی خاطر نذر کرتے تھے۔ جیسے مسجد میں لوگ دیتے ہیں۔ یہ خزانہ بیت اللہ میں یوں ہی مدفون پڑا ہے۔ رسول اللہﷺ نے جب دیکھا کہ یہ بیت اللہ کی ضرورت سے فاضل ہے تو اس کو فی سبیل اللہ خرچ کر دینا مناسب سمجھا لیکن اہل مکہ چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اندیشہ تھا کہ کہیں وہ بدظن نہ ہو جائیں۔ اس لیے اسے جوں کا توں چھوڑ دیا۔ آپ کے اس ارادہ سے ثابت ہوا کہجب کوئی وقف ضائع ہوتا نظر آئے تو اس کی کوئی ایسی صورت بنا لینی چاہیے جس سے وہ ضائع نہ ہو پائے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ تصریح فرماتے ہیں:

والمسجد إذا تخرب ما حوله، فينقل إلى مكان آخر، أو يباع ويشترى بثمنه ما يقوم مقامه (فقه السنة ج۳ص۳۸۶)

’’جب مسجد کے اردگرد ویرانہ ہو جائے تو اسے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا یا وہ بیچ دیا جائے گی اور اس کی قیمت سے اس کے قائم مقام کچھ اور خرید لیا جائے گا۔‘‘

مزید لکھتے ہیں:

واحتج أحمد بأن عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه، نقل مسجد الكوفة القديم إلى مكان آخر، وصار الاول سوقا للتمارين (1) ، فهذا إبدال لعرصة المسجد وأما إبدال بنائه ببناء آخر، فإن عمر وعثمان رضی اللہ عنه بنیا مسجد النبیﷺ علی بناء الاول۔

’’احمد نے استدلال کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قدیم مسجد کوفہ دوسری جگہ منتقل کی اور پہلی جگہ کھجور منڈی بن گئی یہ (مثال) مسجد کی زمین بدلنے کی ہے اور مسجد کی عمارت بدلنے کی مثال یہ ہے کہ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما نے مسجد نبوی کی عمارت تبدیل کی قدیم بنیادوں پر۔‘‘

ولو خرب المسجد وما حوله وتفرق الناس لا یعود الی الملك والواقف عند ابی حنفیه وابی یوسف فیباع باذن القاض ویصرف ثمنه الی بعض المسجد۔ (رد المختار ج۳ص۳۸۳)

’’اگر مسجد اور اردگرد ویران ہو جائے اور لوگ منتشر ہو جائیں تو ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک وقف کرنے والےکی ملکیت نہیں بن جائے گی بلکہ قاضی کی اجازت سے پیچ دی جائے گی اور دیگر مساجد پر اس کی قیمت خرچ کر دی جائے گی۔‘‘

خلاصہ بحث یہ کہ مذکورہ بالا حدیث اور فقہی فتاویٰ کی روشنی میں  مسئولہ وقف شدہ پلاٹ فروخت کر کے اس کی قیمت سے دوسری ضرورت والی جگہ میں مسجد تعمیر کر لینی بلا شبہ شرعاً جائز ہے یا پھر اس کی قیمت کو کسی دوسری ضرورت مند مسجد پر صرف کر سکتے ہیں اور وقف خواہ ذہنی ہو یا قانونی ہو دونوں قسم کا وقف، شرعاً وقف ہی ہے کیونکہ اصل نیت ہے اور مقصود رضا الٰہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص315

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ