السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے گاؤں کی مسجدوں کاقبلہ کمپاس کےمطابق 105اور95درجے کاہے۔ جب کہ کمپاس پرہمارے علاقہ کادرجہ 120پرہے۔ اس طرح ہماری مسجد کاقبلہ مغرب اورجنوب کےدرمیان دکھائی دیتا ہے ۔ ہمیں بتایا جائے کہ ہم موجود مساجد کےمطابق قبلہ رخ لیں یا 120درجہ پررکھیں ؟(سائل:گاؤں کھرانہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہو کہ قبلہ کی سمت متعین کرنے میں اہل مکہ اورغیراہل مکہ کےحکم میں قدرے اختلاف ہے،یعنی تھوڑا ساحکم مختلف ہے۔ بیت اللہ کےمطابق اوراس کے گرد مسجد میں نماز پڑھنے والوں کےلیے وقت نماز عین کعبہ کی طرف نماز پڑھنا ممکن ہے،اس لیے ان کےلیے ضروری ہےکہ وہ بالکل کعبہ کی صحیح سمت ہوکہ نماز پڑھیں۔ مگرغیر اہل مکہ کےلیے خاص خانہ کعبہ کی طرف نماز میں رخ کرنا چونکہ ناممکن ہے ،اس لیے اللہ تعالی نےغیراہل مکہ کی سہولت کےپیش نظر کعبہ کےرخ میں فروخی کرکےساری سمت کوقبلہ بنادیاہے۔ باالفاظ دیگر جن نمازی حضرات کوکعبہ شریف دکھائی دیتاہوتوان کےلیے بوقت نماز عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے مگر جن لوگوں کوکعبہ دکھائی نہ دیتا ہو ان کےلیے عین کعبہ کی طرف رخ کرنا مشکل ترین مسئلہ ہے،لہذا ان کےلیے یہی کافی ہےکہ بوقت نماز ان کارخ جہت کعبہ کی طرف ہو۔ جمہور علماء سلف وخلف اورائمہ اربعہ کا یہی مذہب اورفتوی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
﴿فَوَلِّ وَجهَكَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرامِ وَحَيثُ ما كُنتُم فَوَلّوا وُجوهَكُم شَطرَهُ...﴿١٤٤﴾... سورة البقرة
’’تواپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیرلے اورہم جہاں کہیں ہواپنا منہ اسی طرف پھیرا کرو۔‘‘
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں یہ تصریح فرماتےہیں کہ اگر چہ امام شافعی اوربعض دوسرے اہل علم کامؤقف یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف رخ کرنامقصود ہے ۔ امام شافعی کادوسرا قول یہ ہے کہ قبلہ کی جہت کافی ہے ،جیسا کہ امام حاکم نےروایت کی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شطر المسجد الحرام سے مراد مسجد کی طرف ہے عین کعبہ نہیں۔ (تفسر ابن کثیر:ج1ص20.)
سیداحمد حسن محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں شطر کےمعنی جہت قبلہ ہے۔ (تفسیر احسن التفاسیر ج۱ص۱۲۹)
مفسر ابوبکر جابر الجزائری اس آیت کی تفسیر کرتےہوئے لکھتے ہیں :
وجوب استقبال القبلة في الصلاة وفي أي مكان كان المصلي عليه أن يتجه إلى جهة مكة. (ایسر التفاسیر: ج۱ص۱۲۹)
’’بوقت نماز قبلہ کی طرف منہ کرنا واجب ہے لہذا نماز جہاں بھی ہو اس کےلیے ضروری ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت مکہ کی طرف منہ کرے ۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت اورمفسر ین کی تفسیر کےمطابق ثابت ہواکہ مکہ سے دور بسنے والے نمازیوں پربوقت نماز عین کعبہ کی طرف رخ کرنا فرض نہیں ۔ ان کےلیے جہت کعبہ ہی کفایت کرتی ہے ۔ احادیث رسول میں بھی یہی راہنمائی ملتی ہے ۔
عَن أبی ھریرة رضی اللہ عنه قَال رسول اللہﷺ مَا بَینَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَة (ابن ماجه: باب القبلة ص۲۱ وقال الترمذی ھذا حدیث (عن سعید المقبری عن أبی ھریرہ) حسن صحیح۔ جامع الترمذی باب ما بین المشرق والمغرب قبلة ج۱ص۴۵،۴۶) رواہ الحاکم ایضا وصححه الذھبی۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرق اورمغرب کےدرمیان قبلہ ہے ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے یہ مدینہ والوں کوفرمایا کیونکہ ان کا قبلہ جنوب کو پڑتا ہے تومشرق اورمغرب کےدرمیان جنوب ہوگا۔
اسی طرح ہم پاکستانیوں کا قبلہ مغرب کی طرف ہے تویہ شمال اورجنوب کےدرمیان پڑے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ خاص خانہ کعبہ کی طرف نماز میں منہ کرنا چونکہ ناممکن ہے اس لیے اللہ تعالی نے اس میں فراخی کرکے ساری سمت کو قبلہ بنا دیا ۔
(افادات اسماعیل سلفی رحمتہ اللہ علیہ )
امام شوکانی اس حدیث کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ کعبہ شریف سے دور بستے ہیں ان کےلیے یہی کافی ہے کہ وہ بوقت نماز اپنا منہ کعبہ کی طرف کر لیں ۔ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض نہیں ۔ (نیل الاوطار: باب حجۃ من رای فرض البعید اصابۃ الجھۃ لاالعین ج۳ص۱۶۹)
حضرت ابو ایوب الانصاری سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی بول وبراز کرنے لگے توقبلہ کی طرف منہ نہ کرے اورنہ پیٹھ بلکہ وہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرے ۔ (صحیح البخاری: باب لا تستقبل القبلۃ الخ ج۱ص۲۹)
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں تصریح فرماتے ہیں کہ حدیث شرقو اوغربوا یہ حکم اہل مدینہ کےلیے ہے کیونکہ اہل مدینہ کاقبلہ چونکہ جانب مشرق اورمغرب کےدرمیان بجانب جنوب واقع ہے لہذا بول وبراز کے وقت پڑتا ہے لہذا بول وبراز کےوقت ان کو شمال یا جنوب کی طرف منہ کرکے بیٹھنا چاہیے ۔فرماتے ہیں :
اما من کان فی الشرق فقبلیته فی جهة المعرب وکذلك عکسه (فتح الباری شرح صحیح البخاری: ج۱ص۳۹۶)
کہ اہل مشرق کاقبلہ مغرب کی جہت میں ہے اور اہل مغرب کاقبلہ مشرق کی جہت میں ہے ۔ اس صحیح حدیث یہ ہے بھی ثابت ہواکہ ہم پاکستانیوں کےلیےنماز کےوقت مغرب کی طرف رخ کرنا کافی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیت اللہ قبلہ ہے مسجد حرام والوں کا اورمسجد حرام قبلہ اہل حرم کا اورحرم قبلہ ہے روئے زمین پربسنے والے تمام مسلمانوں کا خواہ وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں میری تمام امت کا قبلہ یہی ہے ۔ (رواہ البیھقی وقال تفردبہ عمر بن حجص وھو ضعیف ، نیل الاوطار ج۲ص۱۶۹ وتفسیر ابن کثیر ج۱ص۲۰۲)
سید احمد حسن دہلوی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں شفر کےمعنی جہت کے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خاص کعبہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے والوں کا قبلہ ہے اورحد حرم کےاندر رہنے والوں کاقبلہ المسجد الحرام ہے اورجہت حرم سب روئے زمین کےرہنے والوں کاقبلہ ہے ۔ بیہقی نے بھی اس حدیث کو روایت کیاہے اوراس حدیث کی سند کوعمر بن حفص راوی کی وجہ سے ضعیف بتلایا ہے ۔ لیکن یہ حدیث کئی سندوں سے روایت کی
گئی ہے جس سے ایک سند کودوسری سندسے قوت حاصل ہوجاتی ہے ۔ اس لیے تین اماموں ابو حنیفہ ، مالک اوراحمدبن حنبل رحمہم اللہ نے اپنے مذہب کامدارس حدیث پررکھا ہے ۔ (احسن التفاسیر: ج۱ص۱۲۹)
اس حدیث سے ثابت ہواکہ روئے زمین کےمشرقی ،مغربی ،شمالی اورجنوبی مسلمانوں کےلیے حرم کی جہت ہی قبلہ ہے ۔ عین کعبہ کی طرف منہ کرناضروری نہیں ۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب یوں قائم فرمایا ہے :
باب التوجه وقال أبو هريرة: قال النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: ((استقبل القبلة وكبر)) (صحیح البخاری: ج۱ص۵۷)
’’ہر مقام اورہر ملک میں آدمی جہاں رہے قبلہ کی طرف منہ کرے اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اورتکبیر کہو۔‘‘
علامہ وحید الزماں اس حدیث کر شرح میں رقم طراز ہیں : امام احمد بن حنبل ،امام مالک اورامام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا یہ قول ہے کہ جہت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے ۔کیونکہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا دوسرے ملک والوں کےلیے بہت مشکل ہے ، البتہ جن لوگوں کو کعبہ دکھائی دیتا ہے ان کوعین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے ۔ (تسیر الباری: ج۱ص۲۹۸)
امام ترمذی اپنی الجامع میں ارقام فرماتےہیں کہ متعدد صحابہ جن میں حضرت عمر ،حضرت علی اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں سے روایت ہے کہ مشرق اورمغرب کےدرمیان قبلہ ہے جن میں حضرت عمر ، حضرت علی اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں ۔ (جامع الترمذی: ج۱ص۴۶)
امام ابن کثیر کےمطابق جناب ابو عالیہ ، مجاہد ،عکرمہ ،سعید بن جبیر،قتادہ اورربیع بن انس وغیرہ تابعین کابھی یہی قول ہے۔ (2۔تفسیر ابن کثیر ج1 ص 206)
امام ابن عبدالبر تصریح فرماتے ہیں :
وَهَذَا صَحِيحٌ لَا مَدْفَعَ لَهُ وَلَا خِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِيهِ.(نیل الاوطارج 2ص169)
کہ قبلہ طرف رخ کرنے میں توسع ہے اوریہ ایسی صائب رائے ہے کہ اس کی تردید ممکن نہیں اورعلماء کا اس میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں ۔
اگرچہ اوپرضمنا ائمہ اربعہ کا مسلک ذکر ہوچکا ہے ۔ اب ذیل میں خود ان کے مذاہب کی مستند کتابوں کے حوالہ جات مع صفحات پیش کیے دیتا ہوں تاکہ کسی کوہمارا مؤقف سمجھنے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
فقیہ مرغینانی حنفی لکھتے ہیں کہ جو مسلمان شہر مکہ سے دوررہتا ہے تونماز کےلیے اس پر صرف جہت کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے ،عین قبلہ کی طرف نہیں اوریہی بات صحیح ہے ۔ کیونکہ شرعی تکلف ( ذمہ داری ) ہر شخص کی وسعت کےمطابق ہے ۔ (ہدایۃ اولین :ج1ص97)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مشرق اورمغرب کے درمیان قبلہ ہے ،جب بیت اللہ کی طرف رخ کرلیا جائے۔(مؤطا،باب القبلۃ)مگریہ اہل مدینہ کےلیے ہے کیونکہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جنوب میں پڑتا ہے ۔ لہذا اس فرمان کے مطابق اہل مشرق کاقبلہ شمال اورجنوب کے درمیان پڑےگا۔ مشرق والوں کاقبلہ مغرب میں اورمغرب والوں کامشرق کی جہت میں پڑےگا۔ چنانچہ علامہ باجی مالکی تصریح فرماتے ہیں ۔
واما من کان من مکة فی المشرق اوفی المغرب فان قبلتھم مابین الجنوب والشمال۔(حاشیة مؤطا:ص183)
جونمازی مکہ مکرمہ سے دور ہواس کےلیے جہت کعبہ ہی کافی ہے ،اس پرعین کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض نہیں ۔ امام احمد نے فرمایا کہ اگر اس کا رخ کعبہ سے تھوڑا سا ٹیڑھا بھی ہوجائے تووہ نماز کا اعادہ نہ کرے۔ تاہم کعبہ کواپنے وسط میں رکھنے کی کوشش ضرور کرے۔ امام ابوحنیفہ یہی فرماتے ہیں اورامام شافعی کاایک قول بھی ہمارے قول کے موافق ہے ۔ (مغنی :1؍457)الشیخ سیدمحمد سابق مصری تصریح فرماتے ہیں :
المشاهد للكعبة يجب عليه أن يستقبل عينها، والذي لا يستطيع مشاهدتها يجب عليه أن يستقبل جهتها، لان هذا هو المقدور عليه، ولا يكلف الله نفسا إلا وسعها.(فی الفقه السنة :1؍109)
’’جونمازی کعبہ کےسامنے ہواس پرواجب ہے کہ وہ عین کعبہ کی طرف منہ کرے۔ اورجسے کوکعبہ نظر نہ آرہا ہوتو اس پرجہت کعبہ کی طرف منہ کرنا واجب ہے کیونکہ وہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنے پرقادر نہیں اوراللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔
حضرت عبید اللہ رحمانی مبارک پوری حدیث بین المشرق والمغرب قبلۃ کو حجت قاطع قرار دیتے ہوئے فیصلہ یوں کرتے ہیں :
فالحديث دليل على أن ما بين الجهتين قبلة، وأن الجهة كافية في الاستقبال،وقوله تعالى: {حيثما كنتم فولوا وجوهكم شطره} [2: 144]يدل على كفاية الجهة، إذ العين في كل محل تتعذر على كل مصل، فالحق أن الجهة كافية لمن تعذر عليه العين(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح باب المساجد فصل ثانی ص422)
’’یہ حدیث اس مسئلہ میں حجت اوردلیل ہے کہ دونوں جہتوں مشرق اورمغرب یا پھر جنوب وشمال کےدرمیان قبلہ ہے اوراستقبال قبلہ کےلیے جہت قبلہ ہی کافی ہے ۔ اللہ تعالی کا یہ ارشاد’’تم جہاں بھی ہو پھیر لو اپنے مونہوں کو قبلہ کی جہت ‘‘جہت کےکافی ہونے پردلالت کرتا ہے ۔ ہرایک جگہ پرہرایک نمازی کےلیے عین قبلہ کی طرف منہ کرنا بڑا مشکل ہے۔ پس حق بات یہی ہے کہ جس آدمی کےلیے عین کعبہ کی طرف منہ کرنا مشکل ہوتواس کے لیے سمت قبلہ ہی کافی ہے ۔‘‘
ہمارے شیخ حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ واسعۃ نے قبلہ کی سمت متعین کرنے کا طریقہ یہ بتلانا تھا کہ قطب ستارہ کے رخ پردائیں سے بائیں طرف سوفٹ خط بنا لیجئے ،پھر اس خط کے قطبی سرے سے دس فٹ خط اوپر کو کھینچ لیجئے۔ ازاں بعد نیچے والے سوفٹ لمبے خط کے جنوبی سرےسے خط کھینچ کراس خط کو جو دس فٹ کاخط ہے اس کے اوپر کے سرے سے ملادیں ۔ اب اس میں ترچھے خط کی سمت قبلہ رخ ہوگئی ۔ نقشہ یہ ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حرم مکہ سے باہر دور دراز کے ممالک کےمسلمانوں کےلیے چونکہ نماز میں عین قبلہ کی طرف منہ کرنا ناممکن اورمشکل ہے ،اس لیے اللہ تعالی نے اس میں فراخی کرکے ساری سمت قبلہ بنادیا ہے ۔ ان مذکورہ بالا آیات ،احادیث صحیحہ،صحابہ وتابعین ،فقہاء محدثین ،امام ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اورایک قول کے مطابق امام شافعی کومذکورہ بالاتصریحات کے تحت ہمارے لیے مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرلینا ہی کافی ہے،خاص خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں ۔ لہذا آپ موجودہ مساجد کے مطابق اپنی مسجد کارخ رکھ سکتے ہیں۔یعنی 105اور110درجےکےدرمیان کوئی ایک درجہ اختیارکرلیں۔احتیاط اسی میں ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب