السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ہر مسلمان پر تبلیغ کرنا فرض ہے؟ اسلام نے اس کے لیے کیا شرائط رکھی ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امت محمدیہ کا ہر ایک فرد نہ صرف تبلیغ کا شرعاً مجاز ہے، بلکہ اسے اس کا مکلف بنایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
۱۔ ﴿قُل هـذِهِ سَبيلى أَدعوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصيرَةٍ أَنا۠ وَمَنِ اتَّبَعَنى...﴿١٠٨﴾... سورة يوسف
ترجمہ: یہ میرا طریق ہے کہ میں بلاتا ہوں اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر (یعنی حجت وبرہان اور بصیرت ووجدان کے ساتھ) میں بھی (لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔
اس آیت شریفہ سے نصف النہار کی طرح ثابت ہوا کہ امت محمدیہ کا ہر فرد بشرطیکہ اسے متعلقہ موضوع سے آگاہی ہو۔ تبلیغ کرنے کا مجاز ہے۔ وبال کسی شرط وقید کے ہر جگہ، ہر ملک اور ہر حالت میں تبلیغ کر سکتا ہے۔
۲۔﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ...﴿١١٠﴾... سورة آل عمران
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ پر بار بار نظر ڈالئے اور غور کیجیئے کہ کیا اس میں کوئی ایسی قید اور شرط دکھائی دیتی ہے جس میں کوئی ایسی استثناء پائی جاتی ہو کہ فلاں فلاں تبلیغ نہیں کر سکتا اور فلاں تبلیغ کر سکتا۔ بلکہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا فریضہ ہے کہ اس میں سرد مہری کی وجہ سے بنی اسرائیل کا ایک گروہ لعنتی بن چکا ہے۔ فرمایا:
۳۔﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ عَلى لِسانِ داوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذلِكَ بِما عَصَوْا وَكانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كانُوا يَفْعَلُونَ﴿٧٩﴾... سورة المائدة
’’کہ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا ان پر داؤد اور مسیح بن مریم کی زبانی لعنت پڑی تھی (اول اس لئے) کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔‘‘ (دوئم اس لئے) کہ جس برائی کے خود مرتکب ہوتے اس سے لوگوں کو بھی نہیں روکتے تھے، بہت برا کرتے تھے۔‘‘
۴۔﴿وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً...﴿١٤٣﴾... سورة البقرة
’’اسی طرح ہم نے تم کو میانہ روش (افراط وتفریط سے محفوظ) امت بنایا تا کہ تم (تمام دنیا کے) لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائیں۔‘‘
اور اسی شہادت کے لئے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حق وعدل کا علمبردار بن جانے کا یہ حکم درج ذیل آیات میں یوں دیا گیا ہے:
۵۔﴿يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ...﴿١٣٥﴾... سورة النساء
۶۔﴿يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ...﴿٨﴾... سورة المائدة
اور اسی حق وعدل کی شہادت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ پرثابت قدم رہنے اور ثابت قدمی کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد ہوا۔
﴿وَالعَصرِ ﴿١﴾ إِنَّ الإِنسـنَ لَفى خُسرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـلِحـتِ وَتَواصَوا بِالحَقِّ وَتَواصَوا بِالصَّبرِ ﴿٣﴾... سورة العصر
’’قسم ہے زمانہ کی تحقیق انسان نقصان میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو سچے دین کی تلقین کرتے رہے اور صبر کی وصیت کرتے رہے۔‘‘
اس عظیم القدر سورۃ کے مضمون سے واضح ہوا اور یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی کہ آخرت کے نقصان سے بچنے کے لئے جس طرح ہر انسان کے لیے ایمان باللہ اور عمل صالح کی راہ اختیار کرنا از بس ضروری ہے، اسی طرح ہر اس شخص پر جو ایمان باللہ کی صراط مستقیم پر گامزن ہو یہ فریضہ بھی عائدہوتا ہے کہ دوسروں کو بھی حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرے اور اس فریضہ کی ادائیگی کا یہ حکم جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس میں اضطرار اور معذوری کے علاوہ کسی شرط وقید اور استثناء کا کوئی ہلکا سا اشارہ تک موجود نہیں۔ لہٰذا بلا ریب دعوت وتبلیغ دین کی یہ ذمہ داری ہر مسلمان پر حسب استطاعت ولیاقت فرض ہے۔ خواہ وہ مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتا ہو۔ اب احادیث ملاحظہ فرمائیے:
۱۔«مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ» عن ابی سعید الخدری۔ (مشکوة: ص۴۳۶)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص تم میں برائی دیکھے اسے چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے۔ سو اگر اس کی طاقت نہ ہوتو اپنی زبان سے اس کے خلاف آواز اٹھائے اگر زبان سے بھی اس کی مذمت نہ کر سکتا تو پھر دل سے اس کو برا جانے یہ ایمان کمزور ترین ایمان ہے۔‘‘
مشہور حدیث۔ بلغو عنی ولو ایۃ۔ بھی ذہن میں رکھئے۔
۳۔ اَنَّ رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ بُلَغَه عَنِ اللہ فَمَنْ بَلغته ایة من کتاب اللہ فَقَدْ بَلَغَه اَمْرُ اللہ۔ (رواہ الطبرانی (بحواله تفسیر ابن کثیر ج۲ ص۱۴۲)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی آیتیں دوسروں تک پہنچاؤ، جس کو کتاب اللہ کی کوئی آیت پہنچ گئی تو خدا کا حکم اس کو پہنچ گیا۔
۴۔ آپﷺ نے حجۃ الوداع کےخطبہ کے آخر میں فرمایا تھا:
((لیبلغ الشاھد الغائب))(صحیح البخاری ج۱، ص۱۶)
’’موجود اور حاضر شخص غیر حاضر شخص تک میرا خطبہ پہنچا دے۔‘‘
غور فرمائیے احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث میں بھی ہر مسلمان کو حسب قابلیت لیاقت اور استطاعت تبلیغ دین کی تلقین فرمائی گئی ہے، بلکہ تاکید کی گئی ہے۔ پس ان آیات اور احادیث کے مطابق نہ صرف ہر مسلمان مبلغ بن سکتا ہے بلکہ حسب استطاعت اور لیاقت تبلیغ دین ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب