السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں! اکثر یہ رواج ہے کہ اگر کوئی صاحب نیا مکان بنائے یا فیکٹری چالو کرے تووہاں پر دینی مدارس کے طلبا کو بلا کر قرآن خوانی کرائی جاتی ہے، نیز آیت کریمہ کا وظیفہ جو سوا لاکھ مرتبہ کھجوروں کی گھٹلیوں پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس کا ورد ہوتا ہے اور بعد میں پڑھنے والا طلباء کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ بعض دفعہ اس کام کے ٹھیکیدار یہ بھی طے کرتے ہیں ہم آپ سے اس کام کا معاوضہ بالکل نہیں لیں گے بس چار ہزار یا آٹھ ہزار وغیر وغیرہ کی رقم ہمارے مدرسہ کو چندہ دے دینا۔
کیا یہ ساری کارگردگی سنت رسول اللہﷺ ہے یا بدعت کے ذیل میں آتی ہے؟ ایسا کرنے کرانے والے کو ثواب ملے گا یا گناہ؟ ایسی مجالس میں شمولیت کیس ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن خوانی نہ تو رسول اللہﷺ سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نہ سلف صالحینؒ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
حالانکہ مکانات اور دکانیں اس وقت بھی تعمیر ہوتی تھیں اور پھر صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ اس کی برکات کے حصول میں ہم سے کہیں زیادہ مشتاق تھے، یعنی مقتضی اور داعیہ اس وقت بھی موجود تھا لیکن بایں ہمہ اس طرح کی قرآنی خوانی کی دعوتوں کا اہتمام قطعاً ثابت نہیں۔ لہٰذا یہ بھی بدعت ہے۔ اہل حدیث کو ان بدعات سے ضرور اجتناب کرنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تو گھٹلیوں پر لا الہ الااللہ کے وظیفہ کو بھی بدعت قرار دیا تھا، جیسا کہ سنن دارمی میں یہ مسئلہ مفصل مرقوم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب