السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نیو کاسل سے خواجہ مبشر احمد نے مدینہ کے کسی شیخ احمد کے خواب کےبارے میں وہ اشتہار بھیجا ہے جس میں توبہ کی ترغیب ہے اور جسے لوگ یہاں تقسیم کرتے رہتےہیں۔ خواجہ صاحب نے اس خواب کی دینی حیثیت کے بارےمیں دریافت کیا ہے کہ اس پر عمل نہ کیا جائے تو کیا مسلمان واقعی قیامت کے دن اللہ کی رحمت سےناامید ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
: برصغیر پاکستان و ہندوستا ن میں گذشتہ کئی سالوں سے شیخ احمد کے خواب کے نام سے ایک اشتہار تقسیم کیا جارہا ہے جو محض ایک من گھڑت کہانی ہے۔ اس کے اندر دی گئی بشارتیں اور دھمکیاں کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتیں۔ معمولی دینی سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی ایسے خوابوں کی حقیقت سے آشنا ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود کم علم اور توہم پرست قسم کے لوگ اس وصیت کو آسمانی وحی سمجھ کر اس پر نہ صرف ایمان لے آتے ہیں بلکہ اس کو پھیلانے کےلئے محنت بھی کرتے ہیں۔
(۱)پہلی بات تو یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ وصیت مشہور کی گئی اس زمانے میں شیخ احمد کے نام سے مدینہ منورہ میں کسی آدمی کو کوئی سراغ نہیں ملتا اور خود اہل مدینہ اس بارےمیں بے خبر نظر آتےہیں۔
(۲)دوسری یہ کہ رسول اکرم ﷺ دنیا سے جب تشریف لے گئے تو دین اسلام مکمل ہوچکا تھا۔ آپ انسانوں کی راہ نمائی اور ان کی دنیا و آخرت میں بھلائی کی ہر چیز کو بیان فرماگئے ہیں اس میں ترغیب بھی ہے ترہیب بھی ۔ جنت کے وعدے بھی کئے گئے اور جہنم کے عذاب سے ڈرایا گھی گیا۔ توبہ کرنے کی باربار تاکید بھی کی گئی اور گناہوں کے بد انجام سے خبر دار بھی کیاگیا ۔ دین مکمل ہونے کے بعد آپ خود یہ ارشاد فرماگئے کہ میں دو چیزیں تم میں چھوڑ کرجارہا ہوں ۔ جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھام کر رکھو گے تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ کیا اتنی واضح ہدایات کے بعد اس بات کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ آپ اس کےبعد امت کو خوابوں کے ذریعے کسی بات کی ترغیب دیں یا کسی بات سے ڈرائیں؟
(۳)تیسری بات یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے بعد سب سے پاکیزہ ہستیاں آپ کے صحابہ کرامؓ تھے جنہیں آپ کےجانے کے بعد عظیم خلاء محسوس ہوا۔ انہیں کئی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا بھی کرناپڑا ۔ بعض غلط فہمیوں کی بنا پر اختلاف بھی پیدا ہوئے اور ناخوش گوار واقعات بھی رونما ہوئے مگر اس کے باوجود نہ کسی صحابی کی علام بیداری میں آپ سے ملاقات ہوئی اور نہ کسی کو خواب میں آپ نے کوئی پیغام دیا اور نہ کوئی وصیت کی اور صحابہ کرامؓ نے اپنے ان مسائل کو حضورﷺ ہی کی چھوڑی ہوئی دو چیزوں قرآن و حدیث کے ذریعے حل کرنے کی کوشش فرمائی۔ لہٰذا اس کے بعد بھی کسی کےلئے کوئی گنجائش نہیں کہ وہ وحی کے انداز کی اس طرح کی پیشین گوئیوں کے وعدے کرے۔
(۴)چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ان لوگوں کو سخت تنبیہ فرمائی جو آپ کی طرف غلط بات منسوب کردیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا جو ایسی بات میری طرف منسوب کرے گا جو میں نے نہیں کہی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اسی لئے محدثین نے پوری چھان بین کے بعد ہی ایسی باتوں کو قبول کیا جن کی نسبت رسول اکرمﷺ کی طرف کی گئی۔ ایسی صورت میں اس وصیت یا خواب کی کیا حیثیت ہوگی کس کی نہ کوئی سند ہے نہ کوئی حوالہ۔
(۵)پانچویں اور آخری بات یہ ہے کہ اس وصیت نامے کے بارے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ اسے چھپوا کر آگے تقسیم کرےگا یا آگے پہنچائے گا اسے فلاں فلاں چیز ملے گی یا مال دار ہوگا اور پندرہ دن کے اندر خوش حال ہوجائے گا اور جو اس کو چھپوا کریا لکھ کر آگے تقسیم نہیں کرے گا اس کا بیٹا مرجائے گا یا غم میں مبتلا ہوگا۔
یہ اور اس طرح کی دوسری باتیں جو اس کا غذ میں لکھی گئی ہیں یہی اس کے جھوٹ اور من گھڑت ہونے کی دلیل ہیں۔ آپ خود اندازہ کریں کہ کیا قرآن حکیم سے بھی یہ کاغذ کا پرزہ افضل اور بہتر ہے کوئی مسلمان کتنا بھی گیا گزرا کیوں نہ ہو وہ اس اشتہار کو قرآن سے افضل ہرگز قرار نہیں دے سکتا اور یہ بھی ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ قرآن میں دنیا و آخرت کی بھلائی کی ہر چیز موجود ہے مگر اس کے باوجود آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ جو قرآن کو چھپوا کر تقسیم کرےگا اسے اتنی دولت مل جائے گی یا پندرہ دن کے اندر مال دار ہوجائے گا اور جو نہیں چھپوائے گا یا نہیں لکھے گا اسے فلاں فلاں انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ بے شمار وہ لوگ جن کے سینوں میں قرآن کے تیس پارے محفوظ ہیں مگر اس کے باوجود دنیاوی خوشحالی سے محروم ہوتےہیں اور مال دار نہیں ہوتے اور پھر واقعات کی روشنی میں بھی یہ خواب غلط اور بے بنیاد ہے۔ کیونکہ کتنے ایسے لوگ آج موجود ہیں جنہوں نے اس کی سینکڑوں اور ہزاروں کاپیاں کروا کر تقسیم کیں مگر اس کے باوجود نہ وہ خوش حال ہوئے اور نہ پندرہ دن کے اندر دولت مند بن سکے اور کتنے ایسے ہیں جو اسے آگے تقسیم نہیں کرتے مگر نہ ان کا بیٹا مرا ہے اور نہ وہ غم میں مبتلا ہوئے ہیں۔
اس لئے مسلمانوں کو اس طرح کی توہم پرستیوں میں مبتلا ہونے کی بجائے قرآن و حدیث کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اپنی زندگی سرور دوعالم ﷺ اور آپ کے جانثاروں کے نقش قدم پر چل کر گزارنی چاہئے۔ اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں ہیں اور یہی چیز کامیابی و نجات کا ذریعہ بھی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب