سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(263) دنیا میں سزا کے بعد آخرت کا عذاب ہو گا؟

  • 14113
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2311

سوال

(263) دنیا میں سزا کے بعد آخرت کا عذاب ہو گا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد اسلم لندن سے دریافت کرتےہیں کہ جس شخص کو دنیا میں اس کے جرم کی سزامل جاتی ہے ۔ا ور قانون کے مطابق وہ سزا پوری کرلیتا ہے کیاآخرت میں اس سے باز پرس ہوگی اور دوبارہ عذاب نہیں ہوگا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں سزا کے بارےمیں دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے گناہوں کا کفارہ بھی ہوجاتا ہے۔دوسرا یہ کہ محض ڈرانے اور تنبیہ کےلئے ہے گناہوں کی معافی کےلئے توبہ ضروری ہے اور زیادہ صحیح اور قرین قیاس یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ جرم اورگناہ کی سز ا بھگتنے کے ساتھ جو شخص خالص توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ یقیناً اسے آخرت کے عذاب سے بچائے گا۔

اس سلسلے میں مسلم شریف کی وہ حدیث جو حضرت ماعزا سلمیؓ کے بارےمیں ہے تائید کرتی ہے کہ ان پر حد جاری ہونے کے بعد نبی کریمﷺ نے ان کے بارےمیں فرمایا:  ’’لقد تاب توبة لو قسمت بین لو سعتهم۔‘‘ (مسلم مترجم ج ۲ کتاب الحدود باب حد الزنا ص ۳۲۶)

’’انہوں نے ایسی توبہ کی جسے اگر اس امت کے گناہ گاروں پر تقسیم کیا جائے تو ان سب کےلئے کافی ہوگی۔‘‘

غامدیہ کی حدیث جو مسلم شریف ہے اس میں یہ مذکور ہے کہ حد جاری ہونے کے بعد رسول کریمﷺ نے جب ان کی نماز جنازہ پڑھی تو حضرت عمر فاروق نے کہا کہ آپ اس عورت کو جنازہ پڑھ رہے ہیں جس نے زنا کا ارتکاب کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’لقد تاب توبة لو قسمت بین سبعین من اهل المدینة لو سمعتهم۔‘‘ (مسلم مترجم ج ۲ کتاب الحدود باب حد الزنا ص ۳۲۶)

’’کہ اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر اسے مدینہ کے ۷۰ آدمیوں پر تقسیم کیا جائے تو سب کےلئے کافی ہے۔‘‘

قرآن کریم میں جہاں باغیوں اور فسادیوں کی سزاؤں کا ذکر ہے وہاں انہیں دنیا کے عذاب کے ساتھ آخرت کے عذاب کی  نوید بھی سنائی گئی ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔

﴿إِنَّما جَز‌ٰؤُا۟ الَّذينَ يُحارِ‌بونَ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ وَيَسعَونَ فِى الأَر‌ضِ فَسادًا أَن يُقَتَّلوا أَو يُصَلَّبوا أَو تُقَطَّعَ أَيديهِم وَأَر‌جُلُهُم مِن خِلـٰفٍ أَو يُنفَوا مِنَ الأَر‌ضِ ذ‌ٰلِكَ لَهُم خِزىٌ فِى الدُّنيا وَلَهُم فِى الءاخِرَ‌ةِ عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٣٣﴾... سورة المائدة

’’یعنی وہ لوگ جو اللہ ااور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فسادبپا کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے  یا وہ سولی پر لٹکا دیئے جائیں یا ان کے مختلف ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہوگا۔‘‘

اس سلسلے میں بخاری شریف میں جو حضرت عبادہ بن صامتؓ کی حدیث ہے جس میں صرف سزا کا ذکر ہے اس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ محض سزا ہی گناہ کا کفارہ بن سکتی ہے ۔ حدیث کے الفاظ ہیں

’’ان رسول الله ﷺ قال و حوله عصابة من اصحابه بایعونی علی الا تشرکو ا بالله شیئا ولا تسرفوا ولا تزنو ا ولا تقتلواالادکم ولا تاتوا ببهتان تفترونه بین ایدیکم و ارجلکم و تعصوا فی معروف  فمن و فی منکم فاجره علی الله ومن اصاب من ذلک شیئا فعوقب به فی الدنیا فهو کفارة له ومن اصاب من ذلک شیئا ثم ستره الله فهو الی الله ان شاء عفا عنه و ان شاء عاقبه  فبایعناه علی ذلک۔‘‘ (مشکوٰة للالبانی ج ۱ کتاب الایمان ص ۱۳ رقم لحدیث ۱۷)

’’حضرت عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے گرد صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت بیٹھی تھی اور آپ فرمارہے تھےکہ تمہیں میرے ساتھ یہ عہد کرنا ہوگا (یعنی میری بیعت کرو) کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھراؤگے ’مال میں اسراف سے کام نہیں لوگے’زنا کا ارتکاب نہیں کروگے‘اپنی اولادوں کو قتل نہیں کروگے اور آگے یا پیچھے کسی پر بہتا ن نہیں لگاؤگے اور نیکی کےکاموں میں مخالفت نہیں کروگے۔ جس نے اس عہد کو پورا کیا تو اللہ اسے اس کا ضرور اجر دے گا اور جس کسی نے ان میں سے کسی جرم کا ارتکاب کر لیا پھر اسے اس کی دنیا میں سزا بھی دے دی گئی تو وہ اس کے لئے گناہ سے کفارہ ہوگی اور جس کسی نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا پھر اللہ نے اس کے جرم پر پردہ ڈال دیا (یعنی کسی کو پتہ  نہ چل سکا) تو اسے اللہ چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو سزادے  ۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے ان باتوں پر حضورﷺ سے بیعت کی۔‘‘

اب یہ صحیح ہے کہ اس حدیث میں بظاہر تو بہ کا ذکر نہیں لیکن سیاق و سباق ’قرآنی آیت اور دوسری احادیث سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ کفارہ تو دراصل توبہ ہی سے ہوگاکیونکہ اس روایت میں بھی حضور ﷺ نے یہ عہد مومنین سے لیا اور ظاہر ہے مومن سے جو گناہ سرزد ہوتا ہے اور پھر اس کو اس کی سزا ملتی ہے تو وہ یقیناً شرمندہ ہوتا ہے اور حقیقت میں اس ندامت اور شرمندگی کانام ہی توبہ ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص557

محدث فتویٰ

تبصرے