سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(243) ذات پات کی تقسیم جائز ہے؟

  • 14093
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1247

سوال

(243) ذات پات کی تقسیم جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد رفیق دریافت کرتےہیں

مسلمانوں میں جو ذات پات کی تقسیم ہے اس کی بنیاد کیا ہے اور جو پیشہ ور قومیں بنی ہوئی ہیں مثلاً چوہدری راجہ بھٹی اور قریشی وغیرہ کیا اسلامی رو سے جائز ہیں؟ اگر جائز ہیں تو یہ لوگ ایک دوسری قوم میں شادی بیاہ کیوں نہیں کرتے اور اصل نام کو چھوڑکر اونچی دم  کیوں لگاتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ذات پات کی تقسیم خصوصاً پیشے کی بنیاد پر یہ تقسیم بالکل غیر اسلامی ہے اور پھر ان ذاتوں کی بنیاد پر فخر کرنا یا دوسروں کو حقیر سمجھنا بالکل غلط ہے۔ تعار ف اور پہچان کے لئے خاندانوں یا قبائل کی تقسیم کی جاسکتی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے

﴿ وَجَعَلنـٰكُم شُعوبًا وَقَبائِلَ لِتَعارَ‌فوا... ﴿١٣﴾... سورةالحجرات

’’کہ ہم نے خاندان اور قبیلوں میں تم کو تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔‘‘

یہ تقسیم ایک تو پیشے یاکا م کی بنیاد پر نہیں اور دوسرا اس کا مقصد کسی کی برتری یا بڑائی ثابت کرنا نہیں بلکہ محض تعارف کےلئے ہے۔ اسلام ایسی طبقاتی تقسیم کا قطعی مخالف ہے جس سے انسان دوسرے انسان کا غلام بن جائے اور معاشرے میں کردار و عمل کی بجائے دوسری چیزیں بڑائی یا عزت کا ذریعہ بن جائیں یہاں تو ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم کا اصول ہے  یعنی پیشہ یا ذات پات نہیں بلکہ برتری اور فخر کا ذریعہ تقویٰ اور نیک اعمال ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص525

محدث فتویٰ

تبصرے