سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) لائف انشورنس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • 14089
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3463

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میڈ سٹون کینٹ ونگ جیل سے محمد اسلم پوچھتےہیں

کیا لائف انشورنس کرنا حرام ہے؟ شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لائف انشورنس جسے بیمہ زندگی کہتے ہیں عام طور پر اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص ۱۰ یا ۱۲۰ ہزار رقم پر انشورنس کراتا ہے یہ رقم اس نے ایک مقررہ مدت کے اندر قسطوں میں ادا کرنی ہوتی ہے۔ جب یہ رقم یا مدت پوری ہوتی ہے تو اسے اصل رقم اور اس پر منافع بھی ملتا ہے۔ اس مدت سے قبل اس کی موت واقع ہو جائے تو اس کے ورثاء کو پوری رقم کمپنی جو بیمہ کرتی ہے ادا کردیتی ہے۔

ہمارے نزدیک مروجہ لائف انشورنس تین وجوہ کی بناء پر ناجائز ہے:

اول: اس لئے کہ تمام انشورنس کمپنیاں جو کاروبار کرتی ہیں وہ سودی ہوتا ہے اور سود کی حرمت اسلام میں بڑی واضح ہے اور وہ کمپنی اس سود ہی  کا کچھ حصہ انشورنس کرانے والوں کو دیتی ہے۔

دوم: قرآن نے حرام اور ناجائز کام میں تعاون کرنے سے بھی منع فرمایا ہے کہ

﴿ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ﴾

’’کہ گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔‘‘

اور یہ کمپنیاں عام طور پر سود کی بنیاد پر قائم ہوتی اور چلتی ہیں۔ اس لئے ان سے تعاون گویا سود کے رواج اور پھیلاؤ میں تعاون ہے اور یہ جائز نہیں۔

سوم: اس کے علاوہ اس میں جوئے کا بھی ایک پہلو پایا جاتا ہے۔ لائف انشورنس کرانے والے عام طورپر اس ذہن سے سوچتے ہیں کہ اگر زندہ رہے تو اصل رقم محفوظ ہی ہے’کچھ منافع بھی مل جائے گا اور اگر مرگئے تو وارثوں کا کام بن جائے گا اس لئے وہ ایک لحاظ سے مرنے یا جینے کی بازی لگاتے ہیں اور اس طرح جوئے کی یہ ایک قسم بن جاتی ہے جسے قرآن نے حرام قراردیا ہے ویسے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کمپنی جویک مشت رقم اس شخص کو دیتی ہے یہ کیا ہے؟ ظاہر ہے نہ ہدیہ اور نہ تحفہ ہے اور نہ ہی وہ اسے قرض حسنہ دے رہی ہوتی ہے تو پھر واضح ہے کہ سود میں سے اسے حصہ ادا کیا جارہا ہوتاہے۔ہاں اگر مضاربت کی شکل ہو یعنی کمپنی حلال کاروبار میں اس کا مال لگاتی ہے اور پھر نفع و نقصان میں وہ شریک ہے اور مقررہ مدت کے بعد حساب کرکے اس کا منافع اس کو دے دیا جاتا ہے تو یہ جائز ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص517

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ