السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بریڈ فورڈ سے شبیر احمد لکھتے ہیں۔
(الف)شراب کیوں حرام کی گئی ۔ کیا دوائی کی شکل میں استعمال کی جاسکتی ہے
اور کیا شراب زخم پر لگائی جاسکتی ہے؟
(ب)سود کیوں حرام کیا گیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اشیاء کے حلال و حرام ٹھیرائے جانے کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول قرآن حکیم ان الفاظ سے بیا ن کرتا ہے
﴿يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ...﴿١٥٧﴾... سورةالاعراف
’’یعنی اللہ کا نبی ﷺ لوگوں کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام بتلاتا ہے۔‘‘ اور جن چیزوں کو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حرام قرار دیا ہے ان میں ظاہری یا باطنی نجاست و خباثت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہوتاہے۔ ہماری عقل میں وہ آئے یا نہ آئے۔
جہاں تک شراب‘جوئے‘زنا‘خنزیراور سود وغیرہ کے حرام ہونے کی وجہ اور سبب کا تعلق ہے تو اس بارےمیں دو باتوں کا جاننا ضروری ہے پہلی یہ کہ ہر انسان کے لئے معلوم کرنا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ فلاں چیز کیوں حرام ٹھہرائی گئی؟ اور کس وجہ سے اس کا استعمال ممنوع ٹھہرایا گیا؟ کیونکہ جو چیزیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ان کی خباثتیں یا نقصانا ت کا معلوم کرلینا ہر انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ایک ہی چیز کا نقصان ایک آدمی اپنے علم اور تجربے سے معلوم کرلیتا ہے جب کہ دوسرے کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتی اور پھر ایک حرام کردہ چیز کی خباثت ایک زمانے میں ظاہر نہیں ہوتی جب کہ دوسرے زمانے میں وہ ظاہر ہوجاتی ہے۔
مثلاً سور کے گوشت کی مثال ہی لیجئے کہ جب یہ حرام کیا گیا تو اس وقت شاید ہی کسی کو اس کی حرمت کا سبب یا علت معلوم تھی لیکن سائنس ترقی کے ساتھ ساتھ انکشافات ہوتے گئے کہ اس جانور میں ایسے مہلک جراثیم اور کیڑے ہوتے ہیں جو بے شمار بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں ۔ بہرحال کوئی انکشاف ہویا نہ ہو مسلمان اس عقیدے پر قائم رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور حکیم و خبیر ہے اس لئے یہ اسی کا حق ہے کہ جس چیز کو چاہے حلال ٹھہرائے او رجسے چاہئے حرام قرار دے دے۔ اس پر اعتراض کرنے یا اس کی نافرمانی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس کے باوجود اہل علم کا فرض ہے کہ وہ خلق خدا کے سامنے ان محرمات کے نقصانات اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں واضح کریں تا کہ اسلام کی سچائی اور حقانیت پر لوگوں کا یقین اور زیادہ پختہ ہو۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب ہر انسان کے بس میں ایک چیز کی اصلیت یا ماہیت معلوم کرنا نہیں ہے تو پھر آخر کس چیز پر انحصار کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے وہ صرف اور صرف وحی الہٰی ہے۔اگر ایک شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہےاس کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتا ب ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول و نبی ہیں تو پھر اسے چیزوں کی حلت وحرمت کا اختیار اللہ وحدہ لا شریک ہی کو دینا ہوگا۔ کسی عالم’درویش’بادشاہ یا حکمران کو یہ اختیار دینے کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا خدا اور قرآن پر ایمان نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو کسی چیز کی حرمت و حلت کےبارےمیں شک ہے تو پہلے اسے قرآن و اسلام کے بارےمیں اپنے عقیدے کا جائزہ لیناچاہئے اگر ان کی سچائی پر اس کا ایمان ہےتو پھر خالق کائنات کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔ چاہے اس کی حکمت یا فلسفہ اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے یہ کوئی ضروری نہیں۔ اس کی حرمت کی سب سے بڑی وجہ اور سبب تو یہ ہے کہ اسے اس ذات نے حرام ٹھہرایا ہے جو چیزوں کا پیدا کرنے والا اور ان کی خوبیوں اور مضرتوں کا صحیح علم رکھنے والا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اسےکیوں حرام ٹھہرایا؟ اس کا کیا نقصان ہے؟ اس بارےمیں موجودہ دور میں یہ بات تقریباً متفق علیہ ہوچکی ہے کہ شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کے بےشمار طبی اور معاشرتی نقصانات ہیں جس سے انسان کی صحت اور اخلاق دونوں پر اثرپڑتا ہے او ر آج ان کی بہتات اور کثرت استعمال دنیا بھر کے لئے مسئلہ بن چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ شراب کے کچھ فائدے بھی ہیں تو قرآن نے اس کی تصریح کی ہے کہ اس کے نقصانات منافع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لہٰذا یہ حرام ہے اور جدید تحقیق نے اس کے نقصانات واضح کردیئے ہیں۔ ہمارے لئے تو سب سے بڑی اور بنیادی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم نے جن چیزوں کو صراحت کے ساتھ حرام قرار دیا ہے ان میں شراب شامل ہے اور ان چیزوں میں کسی نہ کسی نوع کی گندگی اور نجاست ضروری ہوتی ہے جیسے ایک آیت میں مردار‘خون اور خنزیر کاگوشت اور غیر اللہ کے نام کی نذر حرام قرار دیئے گئے۔ اب ان میں مردار‘خون اور خنزیر کی ظاہری گندگی اور نجاست واضح ہے جب کہ غیر اللہ کےنام کی نذر اس لئے حرام قرار دی گئی کہ اس میں نذر ماننے والے کی ذہنی خباثت مشرکانہ نیت اور اس کے عقیدے کی گندگی و خباثت شامل ہوتی ہے اور یہ باطنی و روحانی نجاست ہے۔ اسی طرح شراب میں ظاہر ی نجاست بھی ہے اور باطنی بھی اور جو چیز انسان کو عقل و فکر سے کچھ دیر کے لئے محروم کردیتی ہے اسلام اسے کسی حالت میں بھی پینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے شراب کو تین مرحلوں میں بتدریج حرام قرار دیا:
پہلے سورہ بقرہ کی یہ آیت (۲۱۹) نازل ہوئی کہ ’’اے نبی ﷺ آپ سے یہ لوگ شراب اور جوئے کے بارےمیں پوچھتےہیں۔ آپ کہہ دیں کہ دونون میں بڑا گناہ ہے اور کچھ (دنیاوی فوائد بھی لوگوں کے لئے ہیں) اور ان کا گناہ ان کے فوائد سے بڑا ہے۔‘‘
اس کے بعد سورہ النساء کی آیت (۴۳) نازل ہوتی ہے کہ ’’اے ایمان والو تم ایسی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ ’جب تم نشے میں ہو یہاں تک کہ تم ہوش میں آکر یہ جان لو کہ تم کیا کررہے ہو۔‘‘
اور آخرمیں شراب کی قطعی حرمت کا حکم سورۃ المائدہ کی آیت(۹۱/۹۰) میں نازل ہوتا ہے: ’’اے ایمان والو بلاشبہ یہ شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندی اور ناپاک چیزیں ہیں اور شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سے مکمل طور پر بچو تا کہ تم کامیاب ہو سکو شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے میں مبتلا کرکے تمہارے درمیان بغض و عداوت پیدا کردے اور آپس میں لڑادے اور اللہ کی یاد اور نماز سےتمہیں بازرکھے۔ کیا تم (شراب اور جوئےاور دوسری گندی چیزوں سے ) رکنے والے ہو؟‘‘
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓؓ نے کہا کہ’’ انتهینا ربنا‘‘ (ابو داؤد ج ۳ کتاب الاشربة باب تحریم الخمر ص ۱۲۴ رقم الحدیث ۲۷۲)
’’اے رب ہمارے ہم باز آئے یعنی ہم نے اسے مکمل طور پر چھوڑ دیا۔‘‘
احادیث میں بھی شراب کی مذمت اور شرابی کے لئے وعید کیلئے سخت الفاظ آئے ہیں۔
حضرت جابرؓ روایت کرتےہیں : ’’یمن سےایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک شراب کے بارےمیں دریافت کیا جو یمن میں لوگ مکئی یا جوار کی قسم سے بناتےتھے۔آپ نے پوچھا کیا اس میں نشہ لانے کی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے؟ اس نے کہا ہاں اس سے نشہ تو پیدا ہوتا ہے۔ تو آپ نے فرمایا یا نشہ آور چیز حرام ہے اور پھر آپ نے فرمایا نشہ پینے والےکےساتھ اللہ کا یہ عہد ہے جسے وہ ضرور پورا کرے گا۔ اور وہ یہ کہ آخرت میں اس کو طینۃ الخیال پلائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا ۔ یہ کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے فرمایا دوزخیوں کے جسم سے نکلنے والا گندہ مادہ۔‘‘(صحیح مسلم)
نشہ آور چیز تھوڑی ہو یا زیادہ وہ حرام ہے اسی طرح ایسی چیز بطور دوا بھی استعمال نہیں کی جاسکتی ۔ حضرت وائل الحضری روایت کرتےہیں: ’’ایک صحابی حضرت طارق بن سوید نے رسول اللہ ﷺ نے شراب کے بارےمیں پوچھا تو آپ نے اسے منع فرمایا۔ صحابی نے کہا اللہ کے رسول کیا میں اسے بطور دوااستعمال کرسکتا ہوں؟ توآپ نے فرمایا وہ چیز دوا کیسے بن سکتی ہو جوخود بیماری ہے۔‘‘ (صحیح مسلم شریف)
اس حدیث سے صاف طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ عام حالات میں شراب بطور دوا بھی استعمال نہیں کی جاسکتی اور نہ زخم پر لگائی جاسکتی ہے۔ ہاں البتہ اگر کسی مریض کی زندگی خطرے میں ہوتو اتنی مقدار میں شراب کی اجازت ہوسکتی ہے جس سے اس کی زندگی بچ جائے ۔ مگر یہ بھی انتہائی خاص حالات میں۔
شراب پینا تو سنگین جرم اور کبیرہ گناہ ہے اس کے ساتھ ساتھ و ہ لوگ جو شراب پیتے تو نہیں لیکن اس لعنت میں کسی نہ کسی طریقے سےشامل ہوتے ہیں انہیں بھی رسول اکرم نے ملعون قرار دیا ہے اور جو سرور دو عالمﷺ کی زبان مبارک سے لعنتی قراردیاگیا ہو اس کا ٹھکانا کہاں ہوگا۔
’’حضرت انسؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےشراب کےسلسلے میں دس آدمیوں پر لعنت کی (۱)شراب نچوڑ کر دینے والا (۲)شراب اپنے لئے نچوڑنے والا (۳)پینے والا(۴)پلانے والا (۵)کسی کے لئے اٹھا کر لے جانے والا (۶)جس کے لئے اٹھا کر لےجائی جائے(۷)شراب بیچنےوالا (۸)شراب خریدنے والا(۹)شراب کسی کو تحفہ کے طور پر دینےوالا (۱۰)شراب کی کمائی کھانے والا۔‘‘
اس فرمان نبویﷺ کےبعد ہمارے وہ بھائی اپنے انجام کے بارےمیں سوچ لیں جو دنیا کی محض عارضی فائدے کے لئے شراب کی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں یا ہوٹلوں اور کلبوں میں ساقی کا کردار کرتےہیں۔
(ب)سود کی حرمت بھی قطعی ہے جو سورہ بقرہ کی آیت نمبر(۲۷۸’۲۷۹سے ثابت ہے ۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو’اور جو سود تمہارا باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑدو اگر واقعی مومن ہو لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خبردار ہوجاؤ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ اگر تم توبہ کولو تو اصل مال لینے کا تمہیں حق ہے نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ نے سود اور سود خوروں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ آپ نے فرمایا اگر سود کی ستر قسمیں یا درجے بھی کئے جائیں تو سب سے آخری درجے کے سود کا گناہ بھی اتنا ہوگا جتنا اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے کا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا:’’جہاں سود او رزنا عام ہوجائے وہاں اللہ کے عذاب کو دعوت دی جاتی ہے۔‘‘
دیگر آسمانی مذاہب میں بھی سود کو حرام ٹھہرایا گیا تھا۔یہودیوں کے عہد قدیم میں ہے کہ ’’ جب تیرا بھائی محتاج ہو تو اس کی مدد کر ‘اس سے فائدہ اور نفع طلب نہ کر۔‘‘
(خروج ۴۲‘۲۴) مگر یہودیوں نے باقی چیزوں کی طرح اس میں بھی تحریف کی اور کہا کہ بھائی سے مراد صرف یہودی ہے اور باقی ساری دنیا سے سود لینا جائز ہے۔ آج دنیا پر سودی نظام کی شکل میں جو لعنت مسلط ہے یہ یہود کی کارستانی ہے اور وہی اس کےب بانی ہیں۔
عیسائی مذہب میں بھی سود کی طرز کے ناجائز منافع سے منع کیا گیا تھا۔ اسلام نے سود کی تمام اقسام کو حرام ٹھہرایا ہے او ر علماء اسلام نے اس کی معقول وجوہ بھی بیان کی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
(۱)سود کے ذریعہ کچھ مال بغیر کسی بدلے کے حاصل کیا جاتا ہے۔ ایک شخص اگر پونڈ کے عوض دو پونڈ حاصل کرتاہے تو اس کے عوض نہ اس نے کوئی چیز دی اور نہ ہی کوئی کام کیا۔
(۲)سود پر تکیہ کرکے لوگ کام کرنے اور محنت سے جی چراتےہیں۔ کیونکہ صاحب مال کے لئے بغیر کاروبار کے مال کمانا سود کے ذریعہ آسان ہوجاتا ہے۔
(۳)قرض کے ذریعہ مسلم بھائی سے تعاون کا طریقہ ختم ہوجائے گا اور سود کے لالچ کی وجہ سے لوگ محض ہمدردی اور تعاون کے جذبے سے قرض نہیں دیتے۔
(۴)سودی لین دین کی وجہ سے امیر کمزور اور غیریب سے زائد مال حاصل کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ غریبوں کو مال دینے کی تاکید کرتا ہے۔
(۵)اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ سود طاقتور اور سرمایہ دار کے مفادات کے تحفظ کے لئے غریبوں کا خون چوس لینے کا نام ہے۔ اس کے ذریعہ دولت مند اور سرمایہ دار کی دولت اور سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے اور غریب کی غربت میں اضافہ ہوتاہے۔گویا کہ ایک طبقہ دوسرے طبقے سے ناجائز ذریعے سے دولت کما کر مال دار بن جاتا ہے۔ یہ چیز معاشرے میں حسد و بغض پیدا کرتی ہے۔ طبقاتی کش مکش شروع ہوجاتی ہے جس کا انجام شدید خونریزی ہوتا ہے۔
سود کا یہ نقصان جس طرح قدیم مہاجنی سودی نظام میں تھا اسی طرح آج کے جدید بینکاری کے سودی نظام میں ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آج کے سودی نظام کو پرانے سودی نظام کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانے میں سرمایہ دار اور ساہوکار سود کے ذریعے شہروں اور بستیوں کے غریبوں کی جانوں اور عزتوں سے کھیلتے تھے تو آج کا سرمایہ دار انہ نظام سودی معاشی سسٹم کے ذریعہ دنیا بھر کے پس ماندہ اور غریب ملکوں پر مسلط ہوچکا ہے اور آج غریب ممالک اس سودی نظام کے شکنجے میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ ہزار کوشش کے باوجود اقتصادی اور سیاسی آزادی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اسی طرح بینکوں اور دوسرے اداروں سے سود پر قرض لینے والے کتنے لوگ ہیں جو نسل در نسل سود ادا کررہے ہیں اور کتنے ہیں جو بینک کرپٹ ہو کرمارے مارے پھر رہے ہیں۔
پیغمبر اسلام ﷺ تو عام قرض سے بھی پناہ مانگتے اور یہ دعا کرتے کہ:
’’اللهم انی اعوذبک من غلبة الدین و قهر الرجال۔‘‘ (مشکوٰة للالباني ج ۲ کتاب الدعوات باب الدعوات فی الاوقات ص ۷۵۶ رقم الحدیث ۲۴۴۸)
’’اے اللہ میں قرض کے غلبے اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
اور ہم نہ صر ف قرض بلکہ ہزاروں کا سود بھی اپنی اولادوں کے لئے ورثے میں چھوڑ کر جاتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے سودی کاروبار میں گواہ اور کاتب کی حیثیت سے شرکت کرنے والوں پر بھی لعنت کی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’ آپ نے فرمایا اللہ نے سود کھانے والے‘ کھلانے والے‘گواہ بننے والے اور لکھنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (ترمذي ‘ابو داؤد ‘نسائي)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب