سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(232) حرام اور مشکوک اشیاء کی فروخت کا حکم؟

  • 14082
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2604

سوال

(232) حرام اور مشکوک اشیاء کی فروخت کا حکم؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برمنگھم سے غلام ربانی لکھتے ہیں ۔ ہمارے بہت سے دکاندار بعض ایسی چیزیں فروخت کرتے ہیں جو شرع میں مشکوک ہیں اور اکثر اس کے بارےمیں جانتے بھی ہیں جیسے:

(۱)سب سے اہم چیز گوشت ہے جو کہ حلال نہیں  یعنی انگریز لوگ جو کھاتےہیں اس  میں سور کا گوشت بھی ہوسکتا ہے اور دوسرا بھی ؟

(۲)جانوروں کی چربی سے بنی ہوئی  چیزیں  جن میں بسکٹ ’صابن ’کھانے پکانے  والی چربی یا مرجرین اور  سویٹ وغیرہ کیا ایسی چیزیں فروخت کرنا قرآن و سنت کی روشنی میں جائز ہے؟

(۳)جانوروں کی خوراک کے بارےمیں جو ٹین میں ہوتی ہے اور یہ کتے یا بلی کی خوراک ہوتی ہےاس میں عموما ً جانوروں کی آنتوں کا استعمال ہوتا ہے اس کے علاوہ دل  اور کلیجے وغیرہ کا استعمال بھی ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ لوگ مردار کھاتےہیں اس طرح  اس خوراک میں بھی مردار ہی استعمال کرتےہیں ۔کیا شریعت میں جانوروں کے لئے ایسی مردار چیزوں سے بنی ہوئی  خوراک کا بیچنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خنزیر کا گوشت حرام ہے اس طرح جو اسلامی طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا وہ بھی حرام ہے اور ان کے بارےمیں قرآن کے واضح احکام ہیں کہ یہ حرام ہیں ۔ لہٰذا ان کا فروخت کرنا بھی ناجائزہے۔

(۲)حرام جانوروں کی چربی سے بنی ہوئی اشیاء بھی حرام ہیں اور ایسی چیزوں کو خریدو فروخت بھی جائز نہیں اور اس میں صابن ’سویٹ’چاکلیٹ وغیرہ سب شامل ہیں۔

(۳)جانوروں کی خوراک کے سلسلے میں چونکہ شریعت میں کوئی ایسی پابندی نہیں کہ ان کو بھی حلال خوراک کھلائی جائے۔ اس لئے صرف جانوروں کے لئے تیار کی گئی خوراک جس قسم کی بھی ہو اس کی خریدوفروخت جائزہے۔ کیونکہ جانور حلال و حرام کے قوانین کے پابند نہیں  اس لئے ان کے لئے حرام اشیا ء سے تیار کی گئی خوراک بھی جائز ہے اور اس کی خریدوفروخت میں بھی بظاہر کوئی امر مانع نہیں۔

ہاں’انسانوں کےلئے بنائی گئی حرام اشیاء کا استعمال او ران کی خریدوفروخت مسلمانوں کے لئے ہرگز جائز نہیں اور اس میں جتنی احتیاط کی جائے وہ بہتر ہے۔ حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے

"من اتقی الشبهات فقد استبرالدینه" (بخاري کتاب الایمان فضل استبراء لدینه ۵۲ و بیوع ۲۰۵۱‘مسلم کتاب المساقاة ۱۰۸۔۱۵۹۹)

’’جو مشکوک چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین کو محفوظ کرلیا۔‘‘

اور ویسے بھی حرام و ناجائز چیزوں کی خریدوفروخت کے ذریعے حرام کاموں سے تعاون ہوجاتا ہے او رایک مسلمان کےلئے یہ جائز نہیں کہ وہ حرام کاموں کی تجارت یا پھیلانے میں تعاون کرے۔ قرآن کا ارشاد ہے:

﴿ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ﴾

’’کہ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص503

محدث فتویٰ

تبصرے