السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیڈز سے محمد سلطان لکھتے ہیں کہ میرے ایک دوست کو شراب نوشی کی عادت تھی ۔ میں ہمیشہ اسے شراب ترک کرنے کی تلقین کرتا رہتا تھا۔ ایک دن اس نے وعدہ کیا کہ وہ اب شراب چھوڑ دے گا اور میرے ساتھ مسجد میں نماز کے لئے جائے گا اور اس گناہ سے توبہ کردے گا مگر جانے سے پہلے اس نے شراب کی بوتل لے کر پینا شروع کردی اور کہا کہ توبہ سے پہلے جی بھر کر پی تولوں۔ اس بارے میں شریعت کا کیامسئلہ ہے اور کیا ایسے آدمی کی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شراب نوشی قطع طور پر حرام ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
’’اے ایمان والو! بلاشبہ شراب‘ جوا‘ انصاب (بت) اور ازلام (تیرے فال نکالنا ) شیطانی کاموں کی گندگی ہے پس تم اس سے دور ہو تا کہ کامیاب ہوجاؤ۔شیطان یہی چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعہ دشمنی اور بغض پیدا کرے اور تمہیں اللہ کی یاد سے روک دے اور نماز سے ’پس کیا تم رک جاؤ گے؟‘‘ (مائدہ:۹۰۔۹۱)
خود نبی کریم ﷺ سے ہی ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ:
"کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔"(ترمذي للالبانی ج ۲ ابواب الاشریة باب ما جاء فی کل مسکر حرام ص ۱۶۹ رقم الحدیث ۱۹۴۱)
’’کہ ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘
تمام امت کا شراب کی حرمت پر اجماع ہے۔ جس شخص نے شراب کے حرام ہونے کا انکار کیا وہ مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ ہاں نیا مسلمان جسے شراب کی حرمت اور اس کی سنگینی کا صحیح علم نہیں ‘اس کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ بصورت دیگر ہر مسلمان کا پینا ‘پلانا ‘خریدنا ‘بیچنا ‘اٹھا نا اور پیش کرنا حرام ہے۔ دور جدید میں بھی اس کے جسمانی ‘روحانی ‘معاشرتی اور اجتماعی نقصانات کھل کر سامنے آچکے ہیں اور غیر مسلم سوسائٹیاں بھی اب اسکے نتائج سے پریشان ہیں ۔ ایک مسلمان کا اس سے بچنا لازمی اور ضروری ہے۔
جہاں تک آپ کے دوست کے اس فعل کا تعلق ہے جس کا آپ نے ذکر کیا ہے یوں تو ایک مسلمان کے لئے اس طرح کا رویہ اختیار کرنا جائز نہیں کہ وہ توبہ سے پہلے اس جرم کا اعادہ کرے اور یہ خیال کرے کہ توبہ تو کرنی ہی ہے اب جی بھر کر اس جرم کا اعادہ کرلو۔ خدانخواستہ توبہ کے خیال کے بعد اس جرم کا ارتکاب کرتےہوئے اس کی موت آجاتی ہے تو ایسے شخص کی آخرت برباد ہوسکتی ہے۔ اس لئے جونہی احساس ہو جائے پھر اس برائی کو فوری طور پر ترک کردینا چاہئے اور توبہ دراصل ترک گناہ کے عزم ہی کا نام ہے۔ اگر خیال کرے اور زبان سے توبہ توبہ بھی کرتا رہے مگر ساتھ اس برائی کو بھی کرتا رہے تو ایسی توبہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے مگر چونکہ توبہ ہر قسم کے گناہ کا کفارہ ہے اس لئے جو شخص توبہ سے پہلے اس فعل کو باربار کرتاہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے اتنی مہلت دے دیتا ہے’عملاً وہ سچی توبہ بھی کرلیتا ہے تو اس کی توبہ بہرحال قبول ہوسکتی ہے ۔ کیونکہ موت سے پہلے بڑے سے بڑے گناہ کی توبہ ممکن ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
’’اے میرے بندو جنہوں نے اپنے آپ پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں بے شک اللہ تمام گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے اور اپنے رب کی طرف جھک جاؤ اور اس کے مطیع بن جاؤ اس سے پہلے کہ اس کا عذاب تمہیں آپہنچے اور پھر کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کرے گا اور اس کی پیروی کرو۔ جو سب سے بہتر تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس سے قبل کہ اس کا عذاب تمہارے پاس اچانک آجائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔‘‘ (سورہ زمر :۵۳)
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’بے شک توبہ ان لوگوں کے لئے ہے جو جہالت کی وجہ سے گناہ کرتے ہیں پھر فوری توبہ کرلیتے ہیں۔ بے شک ایسےلوگوں کی توبہ اللہ قبول کرتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے او رایسے لوگوں کے لئے توبہ فائدہ مند نہیں جو برے کام کرتے رہتےہیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی موت آجاتی ہے تو کہتا ہے اب میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (سورہ نساء :۱۷۔۸۱)
تیسری آیت بھی اس مفہوم کی ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کے لئے خالص توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہوں کو دور کردے۔‘‘ (سورہ التحریم:۸)
چوتھی آیت میں ہے:
’’اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے نہ ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے مگر اس کے حق کے ساتھ اورنہ وہ زنا کرتےہیں جو کوئی یہ کرے گا وہ اس کا بدلہ پائے گا قیامت کے دن ایسے لوگوں کو دوگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ ہمیشہ جہنم میں ذلیل و خوار رہے گا مگر وہ لوگ جنہوں نے تو بہ کی اور نیک عمل کئے ایسے لوگوں کی برائیاں اللہ تعالیٰ نیکیوں میں تبدیل کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (سورہ الفرقان: ۶۹)
توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ ہو توبہ کے بعد معاف ہوجاتاہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب