السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بریڈ فورڈ سے منیراحمد لکھتے ہیں
آپ کا شائع کردہ پرچہ باقاعدگی سے پڑھتا ہوں جس سے کافی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک سوال نظر سے گزرا جس میں جناب عبدالحفیظ نے دریافت فرمایا کہ ویڈیو فلموں کی کمائی سے مسجد کے لئے چندہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
آپ نے جواباً کہ ویڈیو فلموں کی کمائی سے مسجد کے لئے چندہ دیاجاسکتا ہے یا نہیں؟ آپ نے جواباً تحریر فرمایا کہ ایسی فلم یا فلمیں جن میں دین کے خلاف کوئی بات نہ ہو یا اس سے بےحیائی اور بدکاری پھیلنے کا اندیشہ نہ ہوتو ایسی کمائی کو حرام قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ مذہب اسلام میں گانے بجانے کو حرام قرار دیا گیا ہے اور آج کل کے زمانے میں شاید ہی کوئی ایسی فلم ہو جس میں گانا بجانا نہ وہ اور یہی گانا بجانا اسلام میں حرام ہے جو کہ مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہے۔ حضرت جابر روایت کرتےہیں کہ تم لوگ گانے سے پرہیز کرو کہ وہ شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ کے نزدیک شرک ہے اور سوائے شیطان کے نہیں گاتا۔ (عین الہدایہ جلد۲ ص ۲۲۳ )
اس کے بعد کچھ اور کتابوں کے حوالے دیئے ہیں جن میں گانے بجانے کو حرام یا ناجائز کہا گیا ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ آپ ہی انصاف سے بتایئے کہ کون سی ایس ویڈیو فلموں کی دوکان ہے جہاں ناچ گانے والی فلموں کی خریدوفروخت نہیں ہوتی۔ گستا خی معاف تو پھر آپ نے کیسے تحریر فرما دیا کہ اس کمائی کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
گانے بجانے کے ناجائز ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں اور فحش اور بے ہودہ گانوں کے حرام ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں۔ ہا ں البتہ اس سلسلے میں آپ نے حضرت جابر کے حوالے سے جو حدیث لکھی ہے کہ اللہ کے نزدیک شرک ہے ۔ اس طرح کہ الفاظ مجھے تلاش کرنے کے باوجود کسی حدیث میں نظر نہیں آئے۔ اس طرح لہوولہب اور کھیل تماشے کے بارے میں جو دوسرے حوالے آپ نے تحریر کئے ہیں ’ وہ بھی اپنی جگہ درست ہیں اور ظاہر ہے کہ حرام کاموں کے ذریعے حاصل کی گئی کمائی بھی حرام ہی ہوگی۔لیکن میں نے گزشتہ کسی سوال کے جواب جو یہ تحریر کیا تھا کہ ایسی فلمیں جن سے فحاشی اور بے حیائی پھیلنے کا اندیشہ نہ ہوتو ایسی کمائی کو حرام قرار نہیں دیاجاسکتا اس کا مطلب واضح ہے کہ اگر ایسی فلمیں ہوں یا ایسی فلمیں فروخت کی جائیں جن میں یہ قباحتیں نہیں ہیں تو ایسی کمائی جائز ہے۔ رہی یہ بات کہ میں آپ کو ایسی دوکان بتاؤں جس میں اس طرح کی فلمیں فروخت ہوتی ہوں یا ایسی فلم کا نام آپ کو بتاؤں جس سے بے حیائی یا ناچ گانے کا کام نہیں لیاجاتا تو یہ میری ذمہ داری نہیں۔ میں نے تو ایک اصول بتایا ہے۔ اگر اس کے مطابق کوئی دکان یا فلم ایسی نہیں ملتی بلکہ سب میں گندے اور غلط کام ہیں تو یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔ میں دکانوں یا فلموں کے نام لے کر آپ کو نہیں بتاسکتا کہ فلاں فلم دیکھا کریں اور فلاں نہ دیکھا کریں یا فلاں دکان سے ویڈیو کی فلمیں ملتی ہیں اور فلاں سے نہیں ۔ ہاں البتہ اتنی بات ضرور لکھوں گا کہ دستاویزی‘ تعلیمی‘ سائنسی اور دوسری کئی قسم کی ایسی فلمیں ہیں جن میں بے شمار اچھے پہلو ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی دکان دار صرف ایسی فلموں کا کاروبار کرتا ہے تو اسے آپ حرام ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے مطلق طور پر یوں ہی بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دینا کہ ہر فلم حرام ہے یا ہر فلم کا کاروبار کرنے والے کی کمائی حرام ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ شریعت نے حلال و حرام کے کچھ اصول متعین کردیئے ہیں ان کے مطابق ہر زمانے میں مختلف کاموں یا ایجادات کو پرکھ کر فیصلہ کرسکتےہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب