السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ڈنمارک سے طلعت محمود لکھتے ہیں
(۱)قوالیاں گانا اور سننا کیا قرآن و حدیث کی رو سے جائز ہے اور وہ بھی موسیقی کے ساتھ؟
جناب ’’ فتحی عثمان ‘‘ ایڈیٹر ان چیف ’’ عربیہ ‘‘ نے دسمبر ۱۹۸۳ ء کے شمارے میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ابن حزم کے حوالے سے موسیقی کو جائز قرار دیا ہے جب کہ حدیث رسول ﷺ ہے کہ میں آلات موسیقی توڑنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قوالی کا گانا اورسننا جائز ہے۔ قرآن و حدیث میں اس پر واضح احکام موجود ہیں۔ ارشاد ربانی ہے
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا... ﴿٦﴾... سورةلقمان
’’اور بعض لوگ لہوولہب اختیارکرکے اپنی جہالت سے اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور حق کا مذاق اڑاتےہیں ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
عربی زبان کے ماہرین کی اکثریت نے لھو کا معنی ’’ گانے بجانے کا شغل ‘‘ کیا ہے بعض نے اس سے گانے بجانے کے آلات بھی مراد لئے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’ میری امت کے کچھ ایسے بدبخت لوگ بھی ہوں گے جو شراب ریشم اور معازف کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (بخاري کتاب الاشربة ۵۵۹۰)
معازف کا معنی تمام اہل لغت کے نزدیک سامان لہوولہب ہے اور یہ گانے کے آلات جو قوالی میں استعمال کئے جائیں ڈانس میں یا گانے میں یہ سب حرام ہیں۔ علماء نے تو یہ بھی فتویٰ دیا ہے کہ اگر قرآن بھی آلات موسیقی کے ساتھ پڑھا جائے گا تو اس کا سننا بھی حرام اور ناجائز ہے۔
مسند احمد کی ایک روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
"ان الله حرم الخمر والمیسر والمزر و الکوبة والفنین۔"(مسند احمد ۱۶۵/۲۔۱۶۷۔۱۷۱۔۱۷۲)
’’کہ اللہ تعالیٰ نے شراب جوئے باجے اور طبلے وغیرہ سب حرام قرار دیئے ہیں۔‘‘
ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’لا تبیعو القینات ولا تشروهن ولا تعلموهن ولا حیر فی تجارة فیهن و ثمنهن حرام۔‘‘ (ترمذي کتاب التفسیر باب ومن سورة لقمان ۳۲۰۶)
’’کہ گانے والیوں کی خریدوفروخت نہ کرو اور نہ انہیں گانا سکھاؤ۔ا ن کی تجارت میں ہرگز کوئی بھلائی نہیں ہے۔‘‘
امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ گانے کو امام ابو حنیفہؒ اور دوسرے ائمہ عراق نے حرام قرار دیا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے اپنے فتوے میں حنفی فقہ کی مشہور کتاب محیط کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’التغنی والتصفیق واستماعها کل ذالک حرام و مستحلها کافر‘‘ (فتاوی عزیزی اردو ۲۱۷ بحوالة محیط)
’’گانا بجانا تالیاں پیٹنا اور ان کا سننا یہ سب حرام ہیں اور ان کو حلال قرار دینے والا کافر ہے۔‘‘
اب ظاہر ہے کہ قوالی میں موسیقی بھی ہے اور تالی بھی بجائی جاتی ہے۔
قرآن و حدیث کے ان دلائل کے بعد فتحی عثمان صاحب کے جواب کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ امام ابن حزم یا کوئی دوسرا امام بھی غلطی کرسکتا ہے۔ اگر انہوں نے لکھا ہےتو وہ درست نہیں ہے۔ اللہ کے رسول کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اس لئے قرآن و حدیث کے دلائل سامنے آجانے کے بعد کسی کے قول کا سہارا لینا مناسب نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب