سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(219) رضاعت کتنی بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے؟

  • 14069
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2527

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بریڈ فورڈ سے سلیم کان کامل پوری دریافت کرتےہیں کہ رضاعت کا مسئلہ ثابت کرنے کے لئے کسی بچے کا کسی عورت کا صرف ایک بار دودھ پینا ہی کافی ہے یا قرآن و حدیث میں کوئی خاص تعداد مقرر ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رضاعت کا مسئلہ اس لحاظ سے اسلامی شریعت میں کافی اہمیت رکھتا ہے کہ ا س کے ذریعے بھی رشتوں  کی حرمت ثابت ہوتی ہے یعنی اگر ایک شخص کسی کے ساتھ دودھ پینے میں شریک ہے اب ایک عورت کا دودھ پینے کی وجہ سے وہ آپس میں بھائی اور بہن بن جائیں گے اور  جس طرض حقیقی بھائی بہن کے درمیان نکاح نہیں ہوسکتا اسی طرح دودھ پینے والے بھائی بہن کے درمیان نکاح نہیں ہوسکتا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کتنی مقدار میں دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے تو یہ مسئلہ ذرا تفصیل طلب ہے اس سلسلے میں وہ حدیثیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو قرآنی آیت کامفہوم متعین کرتی ہیں اور یہ حدیثیں اس مسلک کی تائید کرتی ہیں کہ اگر پانچ مرتبہ سے کم (یعنی پانچ گھونٹ سے کم ) دودھ پیا ہے تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔

پہلی روایت حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ہے بنی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’لا تحرم المصة والمصتان‘‘ (مسلم مترجم ج ۳ کتاب الرضاع ص ۶۷)

’’ایک یا دومرتبہ کا پینا حرام نہیں کرتا۔‘‘

دوسری حدیث ترمذی شریف کی ہے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’لا تحرم من الرضاعة المصة والمصتان‘‘ (ترمذي للالباني کتاب الرضاع باب لاتحرم المصة ولا المصتان ص ۳۳۶ رقم الحدیث ۱۱۶۶)

’’کہ ایک یا دو گھونٹ سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘

اب چونکہ قرآن حکیم کی اس آیت میں جو یہ حکم ہے کہ

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَر‌ضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّ‌ضـٰعَةِ﴾

’’یعنی رضائی ماؤں اور بہنوں سے بھی نکاح حرام ہے۔‘‘

اب اس میں یہ وضاحت نہیں کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے یہ حرمت ثابت ہوگی۔ چنانچہ مذکورہ بالا دونوں احادیث نے اس کی تخصیص کردی کہ اگر پانچ سے کم مرتبہ پیا ہے تو پھر حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

دوسرا مسلک یہ ہے کہ جتنا بھی دودھ پیا یعنی کم یا زیادہ حرمت ثابت ہو جائے گی۔ ا س کی دلیل تو قرآن کی مذکورہ آیت ہے جس میں مقدار کا کوئی ذکر نہیں لہٰذا اس میں قلیل و کثیر دونوں شامل ہیں۔

دوسری دلیل ترمذی شریف کی یہ حدیث ہے کہ:

’’لایحرم من الرضاع الا ما فتق الامعاء۔‘‘ (ترمذي للالباني ج ۱ کتاب الرضاع باب ماجاء ان الرضاعة لا تحرم الا فی الصغر دون  الحولین ص ۳۳۸ رقم الحدیث ۱۱۶۸)

’’رضاعت ثابت نہیں ہوگی مگر اس سے جو انتڑیوں کو تر کردے یا پھر بھر دے اس مسلک کے حاملین کے خیال میں پانچ سے کم مرتبہ پینے سے بھی انتڑیاں سیر ہوسکتی ہیں۔‘‘

دلائل کا موازنہ کرنے سے پہلا مسلک درست ثابت ہوتا ہے کیونکہ حدیث میں واضح طور پر پانچ کا ذکر آگیا ہے اس سے کم میں نہیں اور یہ صراحت بھی آگئی کہ ایک یا دو دفعہ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کم از کم پانچ گھونٹ کی مقدار کی جائے تاکہ اس بات کا اطمینان ہوجائے کہ دودھ اس کے پیٹ میں پہنچا ہے اور اس نے انتڑیوں کو سیر کیا ہے۔

قرآن کی آیت کی حدیث  نے وضاحت کردی ہے اس لئے اس سے استدلال اس معنی میں درست نہیں۔ جو حدیث پیش کی جاتی ہے کہ وہ رضاعت  جو انتڑیوں کو بھر دے تو ظاہر ہے کہ ایک یا دو تین گھونٹ سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہ حدیث پہلے مسلک کی تائید کرتی ہے۔ اس سے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ پانچ گھونٹ سے کم سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص471

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ